ڈاکٹر مشتاق احمد وانی
شبیر ساحل کو جب اُن کے ایک دوست سورج ونشی نے موبائل فون پہ یہ مایوس کن خبر سُنائی کہ آپ کے کالج کے پرنسپل مشہور چند کی حرکت ِ قلب بند ہونے کی وجہ سے موت ہوگئی ہے ۔دن کے ایک بجے اُن کی لاش کو انتم سنسکار ہاوس میں بجلی سے چلنے والی آگ کی مشین کے حوالے کردیا جائے گا تو وہ حیرت وافسوس کے ساتھ دیر تک زندگی کی بے وفائی اور آخرت کی سچّائی کے بارے میں سوچتے رہ گئے۔شبیر ساحل خود کالج میں سائنس کے پروفیسر تھے ۔ پرنسپل مشہور چند کے ساتھ اُن کی پیشہ ورانہ دوستی ہی نہیں تھی بلکہ وہ اُنھیں اپنے گھر کا ایک اہم فر دخیال کرتے تھے ۔آج شبیر ساحل کو پرنسپل مشہور چند کی موت نے حیرت میں ڈال دیا تھا ۔اُن کے ساتھ گزارے دن ،مہینے سال اُنھیں یکے بعد دیگرے یاد آرہے تھے ۔مشہور چند اپنی بہترین پرنسپل شپ اور دیگر سماجی کاموں کی وجہ سے کافی مشہور ومقبول ہوچکے تھے ۔وہ ایک خوب صورت وضع دار شخصیت کے مالک اور علم ِ اقتصادیات کے ماہر تھے۔شبیر ساحل فوراً اپنے گھر سے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے پرنسپل مشہور چند کے گھر پر پہنچ گئے۔وہاں اُن کے خاندان کے افراد اور پڑوسیوں کا ہجوم تھا۔مشہور چند کی لاش کو فرش پر رکھا گیا تھا ۔اُن کی اہلیہ ،بیٹے اور بیٹیاں اپنا سینہ پیٹ پیٹ کر رورہے تھے ۔رشتے دار اور محلے کے لوگ اُن کی ڈھارس بندھارہے تھے ۔دیکھتے دیکھتے پروہت نے اپنے مخصوص انداز میں میت کے قریب آکر چند منتروں کا اُچارن کیا۔کچھ ہی وقت کے بعد مشہور چند کی لاش کو گھر کے باہر ایک جگہ پہ پانی کی بالٹی میں دُودھ ،دھی اور تُلسی کی مٹّی ڈال کر نہلایا گیا۔نہلانے کے بعد لاش کو لال رنگ کے کفن میں لپیٹ کر لکڑی کے تختے پر رکھا گیا۔اپنے سر کے بال منڈوائے ،سفید رنگ کی دھوتیاں باندھے چار آدمی آگے آئے اور اُنھوں نے سب سے پہلے ارتھی کو کندھا دیا ۔ایک آدمی نے یکسُری آواز میں سنکھ بجایا۔اس طرح مشہور چند اپنے گھر اور گھروالوں سے ہمیشہ کے لیے رُخصت ہوگئے ۔کوئی ایک گھنٹے کے بعد اُن کی لاش انتم سنسکار ہاوس پہنچادی گئی ۔ انتم سنسکار ہاوس کے منیجر نے دو ہزار روپے کی رسید کاٹی اور لاش اپنے کرمچاریوں کے حوالے کی۔اُنھوں نے لکڑی کے تختے سے لاش کو اُٹھاکر لوہے کی صندوق نُما ٹرالی میں رکھ دیا ۔اُنھوں نے مشہور چند کے بیٹوں اور رشتے داروں کو آخری بار اُن کا چہرہ دیکھنے کو کہا۔بیٹے اُن کا چہرہ دیکھتے ہوئے ایک بار پھر زورسے رودیئے۔میت کے ساتھ آئے تمام لوگوں نے اپنے اپنے ہاتھ میت کے سامنے جوڑے ،اُس کے بعد لاش جلانے والوں نے مشہور چند کی لاش کو الیکٹرک مشین کے حوالے کردیااور لواحقین کو دو گھنٹے کے بعد اُن کی ہڈیوں کی راکھ لے جانے کو کہا۔لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے ۔شبیر ساحل یہ سب کچھ پہلی بار دیکھ رہے تھے ۔اُنھیں تیس سال پہلے کا وہ زمانہ یاد آیا جب وہ دیہات میں رہا کرتے تھے ۔اُس زمانے میں جب کسی ہندو بھائی کی وفات ہوجاتی تھی تو گاؤں کے لوگ بلالحاظ مذہب وملّت مرنے والے کی خبر سُن کر آنسو بہاتے تھے ۔میت کو باری باری کندھا دیتے تھے ۔گھر سے کندھے پر لکڑی اُٹھاکر دریا کے کنارے شمشان گھاٹ پر جاتے تھے ۔چِتا بنائی جاتی تھی ۔سب کی آنکھوں کے سامنے چِتا کو آگ لگائی جاتی تھی ۔دیکھتے دیکھتے آگ کے شعلے آسمان کی طرف اُٹھنے لگتے تھے ۔جب پوری طرح چِتا جلنے لگتی تھی تو اُس کے بعد شمشان گھاٹ پہ آئے لوگ بہت چھوٹی چھوٹی لکڑیاں مُٹھی کی صورت میں چِتا پر پھینکتے تھے ،اسے ’’دھرم لکڑی‘‘کہتے تھے ۔مرنے والے کے گھر کے دو تین افراد تب تک چِتا کے پاس رہتے جب تک مرنے والے کا وجود رکھ کا ڈھیر نہ بن جاتا۔شبیر ساحل کے دل ودماغ میں ایک طرف یادوں کا ہجوم سوار ہورہاتھا اور دوسری طرف احساس،مایوسی اور حیرت نے یہ سوچنے پر مجبور کردیا تھا کہ سائنسی اور تکنیکی ترقی نے آج کے انسان کوجہاں کئی طرح کی سہولتیں فراہم کردی ہیں تو وہیں ایک دوسرے کے دُکھ سُکھ میں شریک ہونے کا جذبہ ختم کردیا ہے۔اب انسان نہ صرف جیتے جی مشینوں کے ساتھ رہتا ہے بلکہ مرنے کے بعد بھی اُس کا وجود مشینوں کے حوالے کردیا جاتا ہے !پرنسپل مشہور چند کے انتم سنسکار میں کوئی بہت زیادہ لوگ نہیں تھے ۔شبیر ساحل یہی باتیں سوچتے ہوئے اپنے گھر پہنچے ۔تب اُنھیں کسی شاعر کا یہ شعر یاد آیا کہ
سارے جھگڑے ہی زندگی تک ہیں
کون مرتا ہے پھر کسی کے لئے
کوئی ایک ہفتے کے بعد شبیر ساحل کو ایک اور مایوس کن خبر اپنے ایک دوست اشتیاق احسن نے موبائل فون پہ سُنائی۔اُس نے کہا
’’یار……شبیر!…ایک بڑے دُکھ کی بات یہ ہے کہ آج میرے ،آپ کے اور بہت سے لوگوں کے مُحسن وخیر خواہ عدالت علی خان صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں!اُن کی نماز جنازہ جمعہ نماز کے بعد چار بجے صدا بصحراقبرستان میں رکھی گئی ہے ۔یہ ہم سب کے لیے ایک بڑے دُکھ کی بات ہے لیکن میں کچھ گھریلو مسائل کی وجہ سے اُن کے جنازے میں شریک نہیں ہوسکوں گا۔آپ سے میری گزارش ہے کہ آپ ’’محفل یاراں‘‘واٹس ایپ گروپ پہ عدالت علی خاں صاحب کے انتقال کی خبر بھی ڈالیں اور ایک لینک تیار کریں تاکہ میں آن لائن جنازے میں شرکت کرسکوں ‘‘
شبیر ساحل نے اشتیاق سے کہا
’’یار…!یہ تو مجھے پتا ہے کہ وہ چند مہینوں سے بیمار تھے لیکن اُن کی موت کی خبر سُن کر میں مایوس ہوگیا۔کیا آپ اُن کے جنازے میں نہیں آئیں گے ؟یار اشتیاق! عدالت علی خان صاحب کے ہم سب پر بڑے احسانات ہیں ۔میرا مشورہ ہے آپ اُن کے جنازے میں ضرور شرکت کریں ‘‘
اشتیاق احسن نے کہا
’’یار!…اُن کے جنازے میں شریک نہیں ہوسکوں گاکچھ گھریلو مسائل ہیں ۔اسی لیے کہہ رہا ہوں کہ میں آن لائن جنازے میں شریک ہوں گا‘‘
شبیر ساحل نے فوری طور پر آن لائن جنازے کا لینک تیار کیا۔عدالت علی خان کے انتقال کی خبر اور لینک ’’محفل یاراں‘‘واٹس ایپ گروپ پہ ڈال دیا۔کچھ ہی وقت کے بعد پچاسوں دوستوں نے بڑے دُکھ کے ساتھ اپنے اپنے تعزیتی کلمات کااظہار کیااور آن لائن جنازے میں شریک ہونے کی رضامندی ظاہر کی ۔
عدالت علی خان ایک بہت بڑی دانش گاہ میں علم سیاسیات کے قابل،مشہور اور بڑے اثر ورسوخ والے پروفیسر تھے ۔اُن کے دَور میں کئی تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں کو دانش گاہ کے مختلف شعبہ جات میں ملازمت ملی ۔نہ صرف اپنی دانش گاہ میں بلکہ دوسری دانش گاہوں کے تدریسی اور انتظامیہ عملے کے ساتھ بھی اُن کے بڑے اچھے تعلقات تھے ۔اتنا ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے سرکاری آفیسران کے ساتھ اُن کی دوستی تھی ۔وہ جس کسی کو بھی کوئی کام بتاتے تھے وہ ہر حال میں اُن کا کام کرتا تھا،لیکن آج اُن کی موت کی خبر اُن کے احسان مندوں کے لیے ایک عام سی بات تھی۔
شبیر ساحل اپنے گھر سے عدالت علی خان کے جنازے میں شریک ہونے کے لیے نکل پڑے ۔اُنھوں نے اپنے موبائل فون کا بیٹری بیک اپ اور موبائل سٹینڈ ساتھ اُٹھایا ۔کوئی ڈھ گھنٹے کے بعد وہ اپنی گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے صدا بصحرا جنازہ گاہ میں پہنچے ۔اُنھوں نے گاڑی سڑک کے کنارے پر کھڑی کردی ۔جنازہ گاہ میں عدالت علی خان کا جسد خاکی ایک تابوت میں رکھا گیا تھا۔اُن کے لواحقین اور کچھ ہی لوگ وہاں موجود تھے ۔چار بجنے میں ابھی آدھا گھنٹہ باقی تھا۔شبیر ساحل نے سامنے چبوترے پر موبائل فون سٹینڈپر موبائل فون فِٹ کردیا۔ جب دن کے پورے چار بج گئے تو امام صاحب نماز جنازہ پڑھانے کے لیے آگے بڑھے پھر کہنے لگے۔
’’دوستو اور ساتھیو!ہرجاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔خوش نصیب ہے وہ آدمی جسے ایمان کی دولت نصیب ہوجائے اور عقل مند ہے وہ آدمی جو مرنے سے پہلے مرنے کی تیاری میں لگ جائے ۔آج عدالت علی خان دُنیاسے جارہے ہیں ،کل ہم جائیں گے باری باری۔اس لیے قبر کی تنہائی اور تاریکی کو یاد کیجیے تاکہ ہمارے دلوں میں توشۂ آخرت کی فکر پیدا ہو ۔بہر حال صفیں درست کریں ۔نماز ِ جنازہ فرض کفایہ ہے ۔اس طرح نیت کریں ،نیت کرتا ہوں میں نماز جنازہ فرض کفایہ ،چار تکبیروں کے ساتھ ،ثنا واسطے اللہ کے ،درود واسطے محمدؐ کے اور دُعا واسطے حاضر میت کے ،پیچھے اس امام کے ،رُخ میرا کعبہ شریف کی طرف اللہ اکبر‘‘
امام صاحب نمازِ جنازہ پڑھانے لگے ۔جنازے میں کل تیس آدمی تھے ۔پہلی تکبیر کے بعد جب اُنھوں نے دوسری تکبیر کہی تو اسی دوران پیچھے دوسری صف میں کسی مقتدی کے موبائل فون پہ یہ رِنگ ٹیون بجنے لگی
اِدھر زندگی کا جنازہ اُٹھے گا
اُدھر زندگی اُن کی دلہن بنے گی
���
موبائل نمبر؛7889952532
سابق صدر شعبہ اردو باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری(جموں وکشمیر)