ہلال بخاری
کشمیری زبان میں لاتعداد ایسی نظمیں ہیں جن کو پڑھنے کے بعد ہمیں بہت سے اہم اسباق حاصل ہوتے ہیں۔ لیکن جس طرح کا عمدہ اور اعلیٰ سبق ہمیں عبدالاحد آزاد کی نظم ’’آسمانک تارُک اِنسانس کُن‘‘ سے حاصل ہوتا ہے میرے خیال میں اس کی کوئی ایسی مثال ملنا اس ادب میں بہت مشکل ہے۔ عبدالاحد آزاد جن کو کشمیری شاعری میں جدت بیان کا موجد بھی تصور کیا جاتا ہے، نے اس نظم کے ذریعے جس آسانی اور گہرائی کے ساتھ اس طرح کا عمدہ پیام دیا ہے وہ ساری انسانیت کے لئے کسی بے مثال تحفے سے کم نہیں۔ اس نظم کی ایک سب سے بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ اس کو ہر ایک پڑھنے والا آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ اس کے لئے قاری کو کسی لغت یا کسی ماہر کے سمجھانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس کا پیغام تمام عالم انسانیت کے لئے ہے چاہے وہ کسی بھی ذات، مذہب یا مسلک سے تعلق رکھتے ہوں ،وہ اس نظم سے سبق اور علم حاصل کرسکتے ہیں۔
نظم کا آغاز اس فکر سے ہوتا ہے کہ انسان کو قدرت نے دانائی کا نور بنا کر بھیجا تھا لیکن اس نے خود کو نور کے بجائے آگ کی صورت میں پیش کرنے میں ترجیح دی ہے۔ قدرت نے جس انسان کو محبت اور ہمدردی بانٹنے کے لئےبھیجا تھا ،اسی انسان نے دین و ایمان کو کاروبار کی طرح اپنایا۔یعنی وہ دین و ایمان کو اپنے ذاتی مفاد کے لئے استعمال کرتا ہے۔
انسان اپنی لالچ اور ہوس کی وجہ سے درندوں سے بھی بدتر بن سکتا ہے۔ قدرت نے لا تعداد وسائل بنا کر تمام عالم انسانیت کو اپنے کرم سے نوازا تھا تاکہ سب لوگ مل بانٹ کر ان وسائل کا استعمال کرکے ترقی کے منازل طے کریں لیکن کچھ انسان ان وسائل پر اس طرح قابض ہوگئے کہ دوسرے لوگوں کو ان کے آس پاس بھی بھٹکنے نہیں دیتے۔ اس طرح سے دنیا کی دولت پر کچھ امیروں کا قبضہ ہوگیا اور لاتعداد غریب لوگ محنت اور مشقت کے باوجود بھی غریبی میں ہی زندگی گزارنے پر مجبور ہو کر رہ گئے۔
شاعر کا یہ ایمان ہے کہ تمام عالم انسانیت ایک ہے اور اسکو مذہبی، مسلکی یا نسلی امتیازات پر بانٹنے والے راہ حق پر نہیں ہیں۔ آج کی دنیا میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو خود کو دین اور مذہب کا ستون توسمجھتے ہیں لیکن انکا کام اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ وہ دین و مذہب کے نام پر فسادات اور انتشار پھیلانے کا کام کریں اور ان کو گمان ہو کہ وہ اپنے دین کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ ان میں سے اکثر لوگ دین کا نام استعمال کرکے دراصل اپنے ذاتی مفاد کی فکر میں ہوتے ہیں۔ یہی لوگ دین و مذہب کا نام لیتے ہوئے اس دنیا میں فساد برپا کرتے ہیں اور پوری انسانیت کو شرمسار ہونے پر مجبور کرتے ہیں۔
شاعر کا ماننا ہے کہ دنیا کا کوئی سچا مذہب ایسا نہیں جو انسانوں کو انسانوں کے خلاف نفرت اور حقارت سکھاتا ہو۔ ہم کو یاد رکھنا چاہیے کہ مذہب کا کام انسانوں کی بھلائی ہے ان کی تباہی نہیں۔ آج کل کے انسان کی سب سے بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ وہ فتنوں اور فسادات کو دین داری اور حب الوطنی سمجھتا ہے۔ وطن، قوم اور دین کے نام پر فتنے اور فسادات پھیلانے والے دراصل گمراہی کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے لوگ ہیں جو غلط فہمی اور جہالت کے شکار ہیں۔
اس نظم کے ذریعے عبدالاحد آزاد یہ سبق سکھانے کی ایک عمدہ کوشش کرتے ہیں کہ اس دنیا میں بہت سے لوگ خود فریبی کا شکار ہیں۔ ایسے لوگ خود کو دانائی کے اسرار سے واقف سمجھتے ہیں اور انکو لگتا ہے کہ وہ سچائی سے آگاہ ہیں جبکہ حقیقت میں وہ بے وقوفوں کے جنت میں رہنے والے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے برے کاموں کی وجہ سے بربادی کی طرف گامزن ہوتے ہیں لیکن پھر یہ اپنی قسمت کو کونستے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ اور ایسی قومیں اکثر وہی ہوتے ہیں جو دقیانوسی تصورات اور خیالات کی آج بھی پرستش کرتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ خود اپنے آپکو بھلائی اور بہتری سے کوسوں دور پاتے ہیں۔ جو لوگ خوابوں اور خیالوں کی دنیا میں رہتے ہیں، انکے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ سکون کے ساتھ اس دنیا میں زندگی گزارنے میں کامیاب ہوں۔ کامیابی حاصل کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اصل میں بیدار ہوکر زندگی گزارنے کا ہنر سیکھ لیں۔
اس جدید زمانے کے شاعر کے مطابق جو قومیں اور جو لوگ آج کل کے زمانے میں بھی دقیانوسی تصورات کے سہارے جینے کی کوشش کر رہے ہیں، انکی مثال ایسی ہے کہ جیسے ہم کسی باغ میں کسی پودے کے جڑ کاٹتے رہیں اور اس کے پتوں اور ٹہنیوں کو سیراب کرتے رہیں۔ ہمارے ایسے عمل سے اس پودے کا کیا فائدہ ہوگا؟
اسی طرح سے جو لوگ آج کل کے زمانے میں بھی وہم اور توہم پرستی کا شکار ہیں، انکی مثال ایسی ہے جیسے وہ خود ہی اپنے گھروں کو تباہ و برباد کر رہے ہیں۔
اس طرح سے یہ نظم جدید کشمیری ادب اور شاعری کی بے مثال نظموں میں سے ایک اہم اور قابل ستائش نظم ہے۔ اس کا پیغام محبت، ہمدردی اور سماجی رواداری کے متعلق ہے اور اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نفرت اور تنگ نظری سے عالم انسانیت کو کس طرح کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قاری اس نظم کے بنیادی سبق کو سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہونے میں پہل کریں۔