ذکی نور عظیم ندوی
رمضان المبارک کاپورا مہینہ خیر و برکت اور اللہ کی رحمتوں کے نزول کا موسم ہے لیکن اس کا آخری عشرہ (۲۱ تا ۳۰)ایک طرح سے محاسبہ اور اپنے اعمال کے جائزہ کا عشرہ ہے۔جیسا کہ سورہ حشر آیت نمبر 18 میں ہے کہ ہر شخص جائزہ لےکہ آخر اس نےآخرت کے لئے کیا پیش کیا۔اس عشرہ میں رحمتوں برکتوں اور مغفرت کے دیگر کئی اور مواقع دئے گئے۔ قرآن میں غور کرنے سے ایسا لگتا کہ اسی عشرہ کی وجہ سے روزہ کی فرضیت کے لئے رمضان کا انتخاب کیا گیا اور سورہ بقرہ 185 میں صراحت کی گئی کہ آخری عشرہ کی ایک شب میں قرآن کریم نازل ہوا، خاص عبادت اعتکاف کو مشروع کیا گیا، سب سے عظیم شب ’’لیلۃ القدر‘‘ دے کر اس کو ایک ہزار راتوں (تقریبا ۸۳سال۴مہينہ) سے بہتر قرار دیاگیا۔ بخاری میں ابو ہریرہ کی حدیث میں اس کے قیام و عبادت کو سابقہ گناہوں کی معافی کا ذریعہ بتایا گیا۔ اسی لئے اس عشرہ کے خصوصی اہتمام کا نہ صرف پابند کیا گیا بلکہ اہل و عیال کو بھی جگانے کی تاکید کی گئی۔
شب قدر ایک عظیم تحفہ ہے،اس عظیم شب میں قرآن کریم نازل ہوا،اس کی فضیلت میں قرآن میں پوری ایک سورت ’’القدر‘‘ نازل کی گئی، اس کو ایک ہزار مہینوں سے بہتر قرار دیا گیا۔ صرف اس رات کے قیام اور عبادت کو سابقہ گناہوں کی معافی کا ذریعہ بنا دیا گیا کہ جو شب قدر میں ایمان و یقین کے ساتھ قیام کرے ،اس کے سابقہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔(البخاری عن ابی ہریرہ) اس رات کو پانے کے لئے نبی اکرمؐ پوری زندگی آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے رہے، اس رات کو پانے کےلئے آخری عشرہ کی راتوں میں اپنے اہل و عیال کو بھی جگایا اور بخاری میں حضرت عائشہ کی روایت میں واضح کر دیا گیا کہ آخری عشرہ آنے پر نبی اکرم ؐ کمر کس لیتے، راتوں کو عبادت کرتے اور اہل و عیال کو بھی بیدار رکھتے ۔یہی وہ شب ہے جس میں پورے سال کے اہم معاملات طے کیے جاتے ہیں جیسا کہ سورہ دخان کی چوتھی آیت میں ہے اور اس رات ایک خاص دعا پڑھنے کا حکم دیا’’اللهم انک عفو تحب العفو فاعف عني‘‘ اے اللہ تو معاف کرنے والا ہے، معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے ہمیں بھی معاف فرما دے اور فرمایا کہ جو اس شب محروم رہا وہ واقعی محروم ہے (احمد عن ابی ہریرہ)۔اسی فضیلت کے لئے ’’شب قدر‘‘ آخری عشرہ میں تلاش کرنے کا حکم دیا اور دوسری جگہ آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرنے کی تاکید کی۔
گذشتہ چند سال سے جس طرح مسلمانوں اور کمزور طبقات کی پریشانیاں،ملک میں آپسی رواداری اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی عمومی کمزورفضا کا روز بروز بڑھتا سلسلہ ، آئے دن نئے واقعات اوربیشمار افراد کی روتی بلکتی تصویریںسامنے آتی رہیں کہ کسی کو کسی سے واسطہ نہیں، ہر ایک اپنے تئیں فکر مند، اس سے بچنے کے لئے سیاسی و سماجی تدبیریں اوراحتیاطی پہلوئوں کو اختیار کرنے کے ساتھ لوگوں کواللہ نے رجوع اور دعا کا خاص موقعہ دیا، کہ اسی درمیان خصوصی توجہ کا مہینہ رمضان آ گیا اور اب اس کا آخری عشرہ اور لیلۃ القدر بھی آنے کو ہے۔ جو امید کی کرن اور ایک عظیم نعمت ہے۔اللہ نے فرمایا کہ تمہیں اس کی قدر و منزلت اور اہمیت و عظمت کا کہاں پتہ؟ یہ تو اجر و ثواب،اللہ کے لطف و عنایت، دعا و فریاد، توبہ واستغفار ،تلاوت و عبادت اور توجہ وتقرب کے لیے ایک ہزار مہینوں سے بھی بڑھ کر ہے۔یہ وہ شب ہے جس میں فرشتے اور حضرت جبرئیل اللہ کے حکم اور مرضی سے آتے ہیں یعنی بندوں کی عبادت و تلاوت، اللہ سے لگاؤ، گناہوں پر ندامت، اس سے معافی و تلافی، دعا کے لئے اٹھنے والے ہاتھوں، پناہ مانگنے والی صداؤوں کو دیکھنے ،اسے اللہ تک پہنچانے ،اس کی قبولیت و باریابی کا پروانہ دینے اور اسے اللہ تک پہنچانے کے لیے آتے ہیں یعنی فرشتے تمام مسئلوں، مصیبتوں، آفتوں، بیماریوں، وباؤوں، پریشانیوں اور دیگر تمام تکلیف دہ امور کے لئے سلامتی اور حفاظت کا پیغام اور اعلان بھی کرتے ہیں ۔ یہ صرف چند منٹوں یا ساعتوں تک ہی نہیں بلک پوری رات یہاں تک کہ صبح صادق کے آخری لمحے تک جاری و ساری رہتا ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی اس رات محروم رہ جائے تو پھر اسے محرومی سے کوئی نہیں بچا سکتا ۔اور اسی لیے نبی اکرم ؐ اس میں خود بھی جگتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے۔
عصر ِحاضرمیں کیا مسلمان پوری دنیا میں ہر اعتبار سے ذلت وخواری، ظلم و زیادتی، حق تلفی و بےبسی اور پریشانی ولاچاری کے باوجود، اتنی عظیم رات کی تلاش میں صرف ۵راتیں صحیح سے عبادت و تلاوت اور ذکر ودعا بھی نہیں کرسکتے؟ جبکہ بہت سے لوگ رمضان میں رات بھر سوتے ہی نہیں، لیکن افسوس اس کی طرف کوئی توجہ نہیں، اور اگر کسی نے کچھ اہتمام کیا توصرف ۲۷ویں شب ۔ یہ صحیح ہے کہ ابی ابن کعب سے علامتوں کے پیش نظر اس شب کے ہونے کی روایت ہے ۔لیکن دوسرے احادیث میں ۲۱ویں اور23 ویں اور بعض میں آخر کی سات راتوں میں ہونے کا تذکرہ ہے اور کئی محدثین ہرسال الگ الگ راتوں میں ہونے کے بھی قائل ہیں، جب کہ ابن عمر سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے خواب دیکھا کہ یہ ۲۷ویں شب میں ہے، تو نبی اکرم ؐنے کہا میں دیکھتا ہوں کہ یہ آخری عشرہ میں ہے، لہٰذا اسے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو (متفق علیہ عن ابن عمر)۔اور آپ ؐنے خود اس کے لیے پورے عشرہ کا اعتکاف فرمایا۔ اور یہ فرمایا کہ مجھے وہ رات دکھائی گئی تھی لیکن میں بھول گیا ،اور باقاعدہ حکم دیا کہ اسے آخری عشرہ میں تلاش کرو ، دوسری جگہ حکم دیا کہ آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ (متفق عليہ )
تو آئیے طے کر لیں کہ اِن شاء اللہ اب تمام راتوں میں عبادت، تلاوت اور دل لگا کر دعا کریں گے، اللہ ضرور حالات سازگار کرے گا کیونکہ اس نے فرمایا ہے ،بندہ مجھ سے جیسی امید رکھتا ہے ،میں اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں۔(متفق عليہ ) اور ترمذی کی ایک دوسری حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ سے اس طرح دعا کرو کہ تمہیں قبولیت کا پورا یقین ہو۔
[email protected]