آج دنیا کی تقریباً نصف آبادی سوشل میڈیا استعمال کرتی ہے۔ مغربی اور شمالی یورپ میں دس میں سے نو افراد فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام، وی چیٹ یا ملتے جلتے نیٹ ورک استعمال کرتے ہیں۔ لیکن دوستوں اور مشہور شخصیات کو آن لائن فالو کرنا اور ان کے ساتھ اپنی زندگی کا موازنہ زیادہ پریشان کُن مسئلہ ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ سوشل میڈیا بہت زیادہ استعمال کرنے والے اضطراب اور ڈپریشن جیسی دماغی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ خاص طور پر نوجوان خواتین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا انہیں زیادہ محتاط کر دیتا ہے کہ وہ کس طرح دکھائی دیتی ہیں۔ گرل گائیڈنگ کی جانب سے کئے گئے ایک سروے کے مطابق سات سے دس سالہ بچوں کی ایک تہائی تعداد جب وہ آن لائن ہوتی ہے تو اُن سب سے اہم چیز یہ ہوتی ہے کہ وہ کس طرح نظر آتے ہیں۔ جبکہ ایک چوتھائی حصہ سوشل میڈیا پر بےعیب نظر آنا چاہتا ہے۔بے شک دنیا بھر کے لوگ سوشل میڈیا کے مثبت پہلوؤں کا اقرار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ویب سائٹس انہیں رائےکے اظہار کا موقع فراہم کرتی ہیں اور تنہائی کے شکار لوگوں کو جذباتی سہارا تلاش کرنے کا راستہ مہیا کرتی ہیں۔وہیں بہت سے افراد یہ شکایت کرتے بھی نظر آتے ہیں کہ سوشل میڈیا زندگی کا حصہ توبن چکا ہے، لیکن یہ عام زندگیوں پربُری طرح اثر انداز ہورہا ہے۔اس کے بے جا استعمال سے نہ صرف ڈپریشن میں اضافہ ہورہا ہے بلکہ احساس تنہائی بڑھتا جارہا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ سوشل میڈیا پر لوگوں کے ہزاروں کی تعداد میں دوست ہوتے ہیں، ان سے مباحث ہوتے ہیں، تصاویر کا تبادلہ ہوتا ہے، تاہم کیا یہ رابطے یا رشتے ان دوستیوں یا رشتہ داریوں کا نعم البدل ہو سکتے ہیں جو ہمارے اردگرد موجود ہیں اور ہم اُن کا وقت بھی سوشل میڈیا کو دیئے جا رہے ہیں؟ہر روز مختلف سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر روزانہ کی بنیاد پرسیکڑوں گالیاں، اخلاق باختہ کمنٹس اور پوسٹس کی جاتی ہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ سب کچھ سوشل میڈیا پرعام ہے۔ ماں بہن کی گالی یا اس کا مخفف تو اب عام زبان کا حصہ بن چکا ہے جس پر کسی کو حیرت ہی نہیں ہوتی۔ان حالات میں دنیا بھر میں ادارے ایک دہائی سے سوشل میڈیا کے بارے میں اپنی پالیسیز مرتب کر رہے ہیں اور اس میں ہر گزرتے وقت کے ساتھ تبدیلیاں آرہی ہیں۔ اس کے منفی اثرات کو دیکھتے ہوئے دنیا بھر میں سوشل میڈیا کے جِن کو قابو کرنےکے بارے میں مباحث جاری ہیں اور حکومتیں اپنے طورپر اسے قابو کرنےکےلیے اقدامات اٹھانے کے بارے میں سوچ رہی ہیں۔دماغی صحت پر سوشل میڈیا کے طویل مدتی اثرات کا جائزہ لینے والی تحقیق سے عیاں ہے کہ اس پر بہت زیادہ وقت گزارنے والے ڈپریشن، اضطراب، تنہائی اور دوسری منفی چیزوں کی طرف راغب ہو سکتے ہیں۔ہم جانتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر جو تصاویر دکھائی دیتی ہیں ضروری نہیں کہ وہ حقیقی ہوں اور ان کے لیے فلٹر وغیرہ استعمال نہ کئے گئے ہوں، اس لیے کسی کا اپنے ساتھ موازنہ کرنا بہتر نہیں ہے۔ سب لوگ اپنی زندگی کی جھلکیوں میں زیادہ تر روشن پہلو ہی نمایاں رکھتے ہیں اور منفی چیزوں کو شیئر کرنے سے گریز کرتے ہیں جس سے صارف کو لگتا ہے کہ ساری پریشانیاں صرف اُسی کے مقدّر میں ہیں اور باقی دنیابہت خوش اور خوش حال ہے،فکر کا یہ انداز آگے چل کر مایوسی کو جنم دیتا ہے اور تنہائی کا احساس بڑھاتا ہے۔ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ انسانوں کے ذہنی طور پر صحت مند رہنے کے لیے بالمشافہ رابطے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ شخص، جس سے آپ کی ملاقات اور بات چیت آپ کے لیے اطمینان کا باعث ہے، اس سے آن لائن چیٹ یا اس کا کوئی میسیج پڑھنا ،آپ کے لیے وہ کام نہیں دے سکتا۔سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر ہر وقت بہت سی پوسٹس گردش میں رہتی ہیں جن میں اُدھورے سچ ، توڑ مروڑ کر پیش کی گئی باتیں ، خبریں اور افواہیں بھی شامل ہوتی ہیں اور بعض اوقات کسی بات یا خبر کو اپنے مخصوص مقاصد حاصل کرنے کے لیے بھی شیئر یا پوسٹ کیا جارہا ہوتا ہے۔ایکس یا ٹوئٹر جیسے پلیٹ فارمز پر بھی تکلیف دہ افواہیں پھیلائی اور جھوٹے ٹرینڈزچلائے جاتے ہیں جن کے جذباتی و نفسیاتی اثرات بھی ہوتے ہیں۔ہاں! سوشل میڈیا کے عادی افراد سارا دن ہی اس سے جڑے رہتے ہیں، تاہم رات کے وقت دیر تک آن لائن رہنا پڑتا ہے، جس سے نیند متاثر ہوتی ہے اورلیپ ٹاپ اور فون کی ا سکرین کو دیر تک دیکھنے سےبصارت کے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔ اس لیے ماہرین ہر وقت سوشل میڈیا سے جڑے رہنے کو منفی قرار دیتے ہیں اور اس کے لیے وقت مخصوص کرنے پر زور دیتے ہوئے مناسب استعمال کا مشورہ دیتے ہیں۔