بلاشبہ زمینی اور آسمانی آفتوں کی تاریخ انسانی وجود سےشروع ہوتی ہے۔اگرچہ اس میں انسانی ہاتھ کا کوئی عملِ دخل نہیں ہوتا،پھر بھی یہ آفات آندھی،طوفان ،سیلاب ،زلزلے ،آتش زدگی ،وبائی بیماری اور خشک سالی کی صورت میں انسانی آبادیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیتی ہیں یا پھرانہیں بڑے پیمانے پرجانی و مالی نقصانات سے دوچارکرکے آلام و مصائب میں مبتلا کرتی ہیں۔زندگی تلپٹ ہوجاتی ہے ، زبانیں گنگ رہ جاتی ہیں،شادو آباد گھرانوں کے آشیانے کھنڈربن جاتے ہیں،سارانظا م تہس نہس ہوکر زندگی مفلوج ہوجاتی ہےاورپھر بیشترلوگوں کے لئےزندگی کا نظام بحال کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن سا بن جاتا ہے۔
آتشزدگی بھی آفات کے زمرےمیںآتی ہے۔اگرچہ اس میں انسان کی لاپروہی یا غفلت بھی شامل ہوتی ہے تاہم اسے آفت ہی کہا جاتا ہے۔چنانچہ وادیٔ کشمیرکے اطراف و اکناف میں گذشتہ برس کے دوران بھی، خصوصاً موسم سرماکے آغاز سے ہی وقفہ وقفہ سے آتشزدگی کی وارداتوںکاجو سلسلہ چلا آرہا ہے،وہ ابھی تک تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔روزانہ ایسی خبریں اخبارت کی زینت بن جاتی ہیں ،جن میں آگ کی وارداتوں میں ہونے والے اثاثوں کے نقصانات کی تفصیل درج ہوتی ہیں،جس کے نتیجے میں بہت سارے لوگوں کی نظام زندگی بُری طرح متاثر ہورہی ہے۔ ان وارداتوں میں اگرچہ محدود پیمانے پر جانی نقصان ہورہا ہے لیکن بہت بڑے پیمانے پر لوگوں کو مالی نقصان اُٹھانا پڑرہا ہے۔ زیادہ تر متاثرہ لوگوں کی نظام ِزندگی اس قدر مفلوج ہوکر رہ گئی ہے کہ بے کسی اور بے بسی کے عالم میں جینے پر مجبورہو رہے ہیں،کل تک جو شاہ ہوتا تھا وہ آج گدّابن چکا ہے۔ظاہر ہےکہ زندگی بھر کی جمع پونجی ،مال و اسباب اور زندگی گذارنے کا ٹھکانہ ہی جب چھِن جائے تو جینے کے لئے باقی کیا رہ جاتا ہے، تاہم اس انتہائی سنگین صورتِ حال کے دورا ن بھی انسانی فطرت کے تقاضے کے مطابق بیشترانسانوں کا دل دہل جاتا ہے اور وہ نوع ِ انسانی کی مدد کے لئے پیش پیش رہتے اور انسانیت کے ناطے وقت طور پر متاثرین کے ساتھی اور مددگاربنتے رہتے ہیں،اُن کی ہمت بڑھاتے ہیں ،انہیں حوصلہ دیتے ہیں۔بے شک حکومتی ادارے بھی ان مواقع پر حرکت میں آجاتے ہیں،فائر سروس اورپولیس عملہ اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھاتےہیںجبکہ بعض رضاکار تنظیمیں بھی اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔گویا ہرادارہ آتش زدہ گان کو راحت پہنچانے کی حتی المکان کوشش کرتارہتا ہے ،مگر پھر کچھ دن گذر جانے کے بعد ہی معاملہ آیا گیا ہوجاتا ہے۔کیا اسی طرح کے امداد سے متاثرین کی زندگی بحال ہوجاتی ہے،یہ ایک اہم سوال ہے؟جس پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ہاں! کسی بھی قدرتی آفت کے شکار لوگوں کی زندگی بحال کرنےکی اہم ذمہ داری حکومت کی ہی ہوتی ہے،تاکہ متاثرین جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھ سکیں اوراُن کی زندگی کی بحالی کے لئےایسا سب کچھ کرے،جس سے وہ اپنے معاشرے میںپہلے جیسے کی طرح زندگی کا گذر بسر کرسکیں،کیونکہ اسی مقصد کے تحت حکومت،حکومت کہلاتی ہے ۔بے شک حکومت نے بھی اپنے انتظامی شعبوں میں ایک مخصوص شعبہ بھی قائم کیا ہوتا ہے جو آفت زدہ لوگوں کی دوبارہ بحالی کے کام کاج کے لئے مامور ہوتی ہے۔ لیکن جہاں تک دیکھنے میں آرہا ہے کہ آج تک آتشزدگان کے لئے حکومت کی طرف سے جو بھی ریلیف منظور ہوتی ہے ،اُسے متاثرین تک پہنچنے میں ایک لمبا عرصہ لگ جاتا ہے اور وہ بھی تب،جب متاثرین کے بوٹ اور چپل متعلقہ سرکاری اداروں کے چکر لگانے میں گھس جاتے ہیں۔بلکہ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ کئی متاثرین کومنظور شدہ ریلیف قسطوں میں دی جاتی ہے جبکہ اس دوران متاثرین کے اہل ِخانہ کی زندگی بَد سے بدتر ہوجاتی ہے ۔سردیوں کے ان ایام میں متاثرین ،بغیر آشیانوں کے زندگی کیسے اور کس طرح گزارتے ہوں گے ، یہ تو کوئی بھی ذی حِس اور باشعور انسان بخوبی محسوس کرسکتا ہے ،جبکہ حکومتی انتظامیہ کے متعلقہ اداروں سے منسلک اعلیٰ حکام اور دوسرے ملازمین بھی اس بات کو بخوبی سمجھ پاتے ہیں۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ یوٹی حکومت اپنے اُن اداروں کو متحرک ہونے کے لئے احکامات صادر کریں ،جو آفات سے متاثرہ لوگوں کی راحت اور بحالی کے لئے قائم کئے گئے ہیں۔اس معاملے میں فائر سروس اور پولیس محکمہ کا بھر فرض بنتا ہے کہ وہ متاثرین کے متعلق اپنی تفصیلی رپورٹیںجلد از جلد متعلقہ محکمہ تک پہنچانے کی کوشش کریں، تاکہ بلا تاخیر اور بر وقت متاثرین کی ہر وہ سامان پہنچ پائے جو آتش زدہ متاثرین کے لئے بطور ایکس گریشا ریلیف منظور کی گئی ہو،تاکہ متاثرین راحت کا سانس لے سکیں اور اپنی زندگی کو دوبارہ بحال کرنے کے قابل ہوجائیں۔
آتشزدگی متاثرین اور متعلقہ محکمے
