ڈاکٹر عریف جامعی
کرۂ زمین پر حیات کا معرض وجود میں آنا اپنے آپ میں ایک حیران کن معاملہ ہے۔ تاہم حیات سے بھی زیادہ حیران کردینے والی بات یہ ہے کہ حیات میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شعور پیدا ہوگیا۔ اس باشعور مخلوق سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ اس کائنات کا نہ صرف خالق ہونا چاہئے، بلکہ ایسا خالق ہونا چاہئے جو باشعور اور با ارداہ ہو۔ باشعور خالق نے بے شک اپنے کلمۂ کن سے ہی تخلیق کا عمل سرانجام دیا، لیکن اس کا منصوبۂ تخلیق اتنا منظم ہے کہ یہ تخلیقی عمل تدریج کے ساتھ منصۂ شہود پر آتا رہتا ہے۔ کامل بصیرت اور حکمت سے عاری انسان کبھی کبھی یہ گمان کرنے لگتا ہے کہ سب کچھ کسی میکانکی طریقے سے خود بخود وقوع پذیر ہوتا ہے۔ تاہم ذرا سے غوروفکر سے پتہ چلتا ہے کہ:
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون
مادے سے حیات اور پھر حیات میں شعور پیدا ہونے میں جس عنصر کو کلیدی اہمیت رہی ہے، وہ آب یعنی پانی ہے۔ واضح رہے کہ زمین بھی ہائیڈروجن اور ہیلیم گیس کے اسی بادل سے وجود میں آئی، جس سے نظام شمسی کا سورج اور باقی اجرام فلکی وجود میں آئے۔ زمین آہستہ آہستہ ٹھنڈی ہوئی تو اس پر کیمیائی عمل کے نتیجے میں پانی وجود میں آیا۔ تمام جانداروں کا آغاز ایک سادہ جرثومے سے ہوا جو پانی میں پیدا ہوا اور وقت کے ساتھ ساتھ ارتقاء پذیر ہوتے ہوے پچیدہ سے پچیدہ تر ہوتا گیا۔ نظریۂ ارتقاء کی دقیق کڑیوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ پانی زمین پر حیات کی تمہید ثابت ہوا۔ پانی کی اس ہمہ گیر اہمیت کی طرف قرآن نے یوں اشارہ کیا ہے: ’’اور ہر زندہ چیز کو ہم نے پانی سے پیدا کیا۔‘‘ (الانبیاء، ۳۰)
اب اگر یہ کہا جائے کہ زمین پر موجود مادے سے انسان کی تخلیق ایک پیچیدہ معاملہ ہے، تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔ قرآن نے تخلیق انسان کو اجمالاً بیان کرتے ہوئے اعلان کیا ہے: ’’رحمٰن ۔نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا۔‘‘(الرحمٰن، ۱-۴) اور جب اس اجمال کی تفصیل بیان کی ہے، تو پانی اور مٹی کے تعامل کو مختلف پیرایوں میں بیان کیا ہے۔ خشک مٹی (تراب) سے انسان کی تخلیق کے بارے میں قرآن کہتا ہے: ’’اللہ کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تم کو مٹی (تراب) سے پیدا کیا۔ (الروم، ۲۰) اس کے بعد گیلی مٹی (طین، گارے) سے انسان کی پیدائش کا بیان کچھ اس طرح سے کیا گیا ہے: ’’(شیطان) کہنے لگا، میں اس سے بہتر ہوں، آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو آپ نے خاک (طین) سے پیدا کیا ہے۔‘‘ (الاعراف، ۱۲) اس کے بعد تخلیق انسان میں ’’لیس دار گارے‘‘ (طین لازب) والا مرحلہ آتا ہے، جب گیلی مٹی میں عمل تخمیر (فرمنٹیشن) کا مرحلہ آتا ہے۔ (الصٰفٰت، ۱۱) لیس دار گارا کچھ وقت تک پڑا رہے تو اس میں ایک قسم کی سڑاند پیدا ہوتی ہے۔ گارے کی اس قسم کے لئے ’’حما مسنون‘‘ (الحجر، ۲۶) کی ترکیب استعمال کی گئی ہے۔ جب گارا سوکھ کر کھنکنے لگے تو اس کے لئے ’’صلصال کالفخار‘‘ (الرحمٰن، ۱۴) کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔
رب تعالی نے جب انسان کو تخلیق کرکے اس کا تسویہ فرمایا (الاعلی، ۲) تو اس کی تقدیر بھی بنائی اور اس کی ہدایت کا سامان بھی کیا (الاعلی، ۳)۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ربانی ہدایت کے اس سلسلے کو بھی آب سے تشبیہ دی گئی ہے جو نہ صرف انسان کی تروتازگی کا سامان کرتا ہے بلکہ اس سے انسان کی ظاہری اور باطنی تطہیر بھی ہوتی ہے۔ بفحوائے الفاظ قرآنی: ’’اسی نی آسمان سے پانی برسایا، پھر اپنی اپنی وسعت کے مطابق نالے بہہ نکلے۔ پھر پانی کے ریلے نے اوپر چڑھے جھاگ کو اٹھا لیا،‘‘ (الرعد، ۱۷) ظاہر ہے کہ جس طرح پانی زمین کی تطہیر کرکے انسانیت کو کئی ایک فائدے پہنچاتا ہے، بالکل اسی طرح وحئ الہی انسانی ابدان، اذہان اور قلوب کی تطہیر کا باعث بنتی ہے۔ یعنی اگر بارش انسانیت کے لئے ظاہری اور عارضی فیضان باری ہے، تو وحی الہی انسانیت کے لئے باطنی اور ابدی فیضان ہے۔
اب جن لوگوں پر وحئ الہٰی ہدایت کا ابر رحمت بن کر برستی ہے، تو ان کو خشیت الٰہی اس طرح اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے کہ ان کی آنکھوں سے اشکوں کی بارش ہونے لگتی ہے۔ (المائدہ، ۸۳) البتہ ان آنسوؤں میں کسی بھی صورت میں دکھاوا نہیں ہوتا، بلکہ ان کی برستی آنکھیں خوف خدا سے ان کے لرزتے دلوں کی دھڑکن کا فقط اظہار کرتی ہیں۔ یہ خشوع اور خضوع کے مجسمے ہوتے ہیں، جن کی آہ و بکا نہ صرف ان کو سجدوں کا عادی (مریم، ۵۸) بنادیتی ہے، بلکہ یہیں سے ان کی فروتنی اور انکسار پھوٹتا ہے اور صبر، صدق، فرمانبرداری، سخاوت اور استغفار ان کا رویہ بن جاتا ہے۔ یعنی اشک بہانے سے ان کی ظاہری اور باطنی تطہیر ہوجاتی ہے۔
تاہم خشیت الٰہی سے فقط انسانوں کے دل ہی لرز نہیں اٹھتے، بلکہ چٹانوں کی سختی بھی خوف خدا کے سامنے قائم نہیں رہتی۔ یہ پتھر اتنے نرم پڑجاتے ہیں کہ ’’بعض پتھروں سے تو نہریں بہہ نکلتی ہیں، اور بعض پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی نکل آتا ہے، اور بعض اللہ تعالی کے ڈر سے گر گر پڑتے ہیں۔‘‘ (البقرہ، ۷۴) اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ پتھر زمین میں چھپے پانی کے خزانوں کو راستہ فراہم کرتے ہیں تاکہ وہ انسانی تہذیب و تمدن کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس کی تاریخی اور زندہ مثال یہ ہے کہ جب سیدنا موسیٰؑ نے خدا کے حکم سے اپنا عصا مارا تو بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کے لئے بارہ چشمے پھوٹ نکلے اور ہر قبیلے نے اپنے اپنے چشمے سے پانی حاصل کیا۔ (البقرہ، ۶۰) قبیلہ جرہم بھی مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں اسی وقت سکونت اختیار کرنے کے قابل ہوگیا جب وہاں چشمۂ زم زم نمودار ہوا۔
واضح رہے کہ چشموں، ندیوں، نالوں، آبشاروں، تالابوں اور دریاؤں کی صورت میں انسان کو میٹھا پانی اس انداز میں دستیاب ہے کہ کبھی کبھی حیات انسانی کے ساتھ اس کا تعلق ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ اور جب استثنائی صورت حال میں ہمیں یہی پانی مہیا کرنا یا کروانا پڑتا ہے، تو اس وقت ہمیں پانی کے فطری ذرائع معجزات ہی معلوم ہوتے ہیں۔ ایسے ہی غیر معمولی حالات، جو بالعموم انسان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہوتی ہے (الروم، ۴۱)، کے بارے میں رب تعالی انسان کو یوں خبردار کرتا ہے: ’’اچھا یہ تو بتاؤ کہ اگر تمہارے (پینے کا) پانی زمین میں اتر جائے تو کون ہے جو تمہارے لئے نتھرا ہوا پانی لائے؟‘‘ (الملک، ۳۰)
یہی نہیں، بلکہ باغبانی کا جو علم انسان کو عطا ہوا ہے، اس کو بروئے کار لاتے ہوئے جب انسان گھنے گھنے سرسبز اور شاداب باغ اگاتا ہے، وہ سب اس کے حسن انتظام کے ساتھ ساتھ پانی کی دستیابی کے رہین منت ہوتے ہیں۔ یہاں پر یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ باغ رس دار اور لذیذ میوؤں کے ساتھ ساتھ انسان کے ذوق جمال کی تسکین کا سامان بھی کرتے ہیں۔ حسن انتظام کے ذریعے انسان جو باغ اگاتا ہے، اس کا رب تعالی یوں ذکر فرماتا ہے: ’’اور انہیں ان دو شخصوں کی مثال بھی سنادے جن میں سے ایک کو ہم نے دو باغ انگوروں کے دے رکھے تھے اور جنہیں کھجوروں کے درختوں سے ہم نے گھیر رکھا تھا اور دونوں کے درمیان کھیتی لگا رکھی تھی۔ دونوں باغ اپنا پھل خوب لائے اور اس میں کسی طرح کی کمی نہ کی اور ہم نے ان باغوں کے درمیان نہر جاری کر رکھی تھی۔‘‘(الکہف، ۳۲-۳۳)
باغبانی سے منسلک ہر شخص (گروور، کاشتکار) جانتا ہے کہ باغوں اور کھیتوں میں استعمال ہونے والے پانی میں ذرا سی خامی (کڑواہٹ، کھاری پن) پیدا ہونے کی صورت میں یا تو باغ کی پیداوار متاثر ہوتی ہے یا پھر باغ ہی ختم ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گھنے گھنے باغ اگانے کے لئے رب تعالی پانی کا جو اعلی انتظام فرماتا ہے، اس کا ذکر کچھ اس طرح فرماتا ہے: ’’اور بدلیوں سے ہم نے بکثرت بہتا ہوا پانی برسایا۔ تاکہ اس سے اناج اور سبزہ اگائیں۔ اور گھنے باغ (بھی اگائیں)۔ (النبا، ۱۴-۱۶) اور جب انسان سرکشی کا رویہ اختیار کرتا ہے تو رب تعالی یہ سب نعمتیں چھین لیتا ہے۔ بفحوائے الفاظ قرآنی: ’’قوم سبا کے لئے اپنی بستیوں میں (قدرت الہی کی) نشانی تھی۔ ان کے دائیں بائیں دو باغ تھے۔ (ہم نے ان کو حکم دیا تھا کہ) اپنے رب کی دی ہوئی روزی کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو، عمدہ شہر اور بخشنے والا رب۔ لیکن انہوں نے روگردانی کی، تو ہم نے ان پر زور کے سیلاب (کا پانی) بھیج دیا اور ہم نے ان کے (ہرے بھرے) باغوں کے بدلے دو (ایسے) باغ دیئے جو بدمزہ میوؤں والے اور (بکثرت) جھاؤ اور کچھ بیری کے درختوں والے تھے۔‘‘ (سبا، ۱۵-۱۶)
مشروب، جو آج عرف عام میں ’’ڈرنک‘‘ کہلاتا ہے، بھی دراصل پانی کی ہی ایک صورت ہے جو انسان کے ذوق سلیم کی تسکین کا سامان کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ مشروبات کی اہمیت زمانۂ قدیم سے رہی ہے۔ مشروبات کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب سیدنا یوسفؑ نے حکمران مصر کے سفیر کو خواب کی تعبیر بتائی تو ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ’’اس کے بعد پھر ایک سال ایسا آئے گا جس،میں باران رحمت سے لوگوں کی فریاد رسی کی جائے گی اور وہ رس نچوڑیں گے۔‘‘(یوسف، ۴۹) تاہم جب انسان اپنے ذوق کی تسکین کے لئے حد سے تجاوز کرتا ہے تو مشروبات میں نشہ در آتا ہے، جس سے انسان کی عقل ماؤف ہوجاتی ہے اور معاشرتی قدریں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی فطرت سلیم شراب (بمعنی خمر) سے ابا ضرور کرتی ہے، لیکن اس کو مشروب کی ہمیشہ رغبت رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رب تعالی آخرت میں بھی جنتیوں کا استقبال صاف و شفات مشروبات سے فرمائے گا: ’’اور انہیں ان کا رب پاک صاف شراب (شراباً طہوراً) پلائے گا۔‘‘ (الدھر، ۲۱) یعنی دنیا کی شائستہ محافل میں مہمانوں کے لئے جو مشروبات مہیا ہوتی ہیں، وہ آخرت کی مشروبات کا فقط ادنی سا تعارف ہے۔ پانی کی چند صورتیں اور بھی ہیں جو نہایت دلچسپ بھی ہیں اور قیمتی بھی۔ ان میں سے ایک پسینے کا وہ قطرہ ہے جو شرمندگی کے باعث انسان کی پیشانی پر ظاہر ہوتا ہے اور دوسرا ندامت کا وہ آنسو ہے جس سے انسان کا دامن تر ہوجاتا ہے۔
حدیث کی رو سے ’’اللہ کے خوف سے نکلا ہوا آنسو کا قطرہ اللہ کو نہایت محبوب ہے۔‘‘(مشکوٰۃ)
اسلامی معاشرت میں پسینے کے اس قطرے کی بھی بڑی اہمیت ہے جو ایک محنت کش اپنے رب کا فضل تلاش کرنے کے لئے بہاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ معاشرے کا حسن اس قطرے کی قدردانی پر منحصر ہے۔ اس سلسلے میں رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرے کی رونق کو برقرار رکھنے والے اس قطرے کی اہمیت کچھ اس طرح ذہن نشین کرائی ہے: ’’مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے پہلے اجرت ادا کردیا کرو!‘‘ (ابن ماجہ)
(مضمون نگار گورنمنٹ ڈگری کالج، سوگام میں اسلامک اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
رابطہ9858471965)
[email protected]