آبی ذخائر کو بچانے کیلئے سرزنش ضروری کیوں؟

Towseef
8 Min Read

عارف شفیع وانی

جموں و کشمیر کو بے شمار جھیلوں اور گلیشیئروں، چشموں اور بارشوں سے بھرے آب گاہوں سے نوازا گیا ہے۔ تاہم مستقل تحفظ کے اقدامات کی عدم موجودگی میںیہ آبی ذخائر آلودگی اور تجاوزات کے حملے کا سامنا کر رہے ہیں۔
نیشنل گرین ٹریبونل (این جی ٹی) کی طرف سے جموں سے کشمیر حکومت کو جموں و کشمیر میں آبی ذخائر کی بگڑتی ہوئی حالت پر سرزنش ہمارے لئے چشم کشا ہونی چاہئے۔ این جی ٹی نے مرکز کے زیر انتظام علاقے میں آب گاہوںاور آبی ذخائر کی بگڑتی ہوئی حالت پر روشنی ڈالنے والی ایک خبر کا از خود نوٹس لیا۔
رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ قدرتی مظاہر اور انسانی سرگرمیاں، جیسے بڑھتا ہوا درجہ حرارت، سالانہ لاکھوں ٹن تک غیر منظم تلچھٹ کا جمع ہونا، تجاوزات اور فضلہ کےاخراج نے خطے میں آب گاہوں اور آبی ذخائر کے انحطاط میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس نے آلودگی کے بحران کی نشاندہی کی جو پانی کے ذخائر جیسے ڈل، ولر، آنچار، اور مانسبل جھیلوں کو متاثر کرتی ہے۔اس کے ساتھ وادی جہلم میں ہائیگام رکھ، سری نگر کے قریب ہوکرسر، اور گاندربل میں شالہ بگ بھی شامل ہیں۔
این جی ٹی نے ماحولیاتی معیارات کی پابندی اور ویٹ لینڈ (کنزرویشن اینڈ مینجمنٹ) رولز اورماحولیاتی (تحفظ) ایکٹ میں بیان کردہ ضوابط کے نفاذ پر تشویش کا اظہار کیا۔ ٹریبونل نے متعدد حکام کو کیس کے فریق کے طور پر طلب کیا ہے، جن میں جموں و کشمیر آلودگی کنٹرول کمیٹی اور سنٹرل پولیوشن کنٹرول بورڈ کے ممبر سیکرٹریز، جموں و کشمیر کے جنگلات وماحولیات محکمے کے سیکرٹری اور مرکزی وارزت ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی کے علاقائی آفیسرشامل ہیں اور انہیں22مئی کو طے شدہ سماعت سے کم از کم ایک ہفتہ قبل اپنے جوابات پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔
ہمیں این جی ٹی کی مداخلت کا خیرمقدم کرنا چاہئے، لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں خود کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہمیں جاگنے اور اپنے آبی ذخائر کو بچانے کے لئے احکامات اور طعنوں کی ضرورت کیوں ہے؟ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں میں ہمارے آبی ذخائر بالخصوص آب گاہوںکو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ یہ افسوسناک ہے کہ حکام کی جانب سے آبی ذخائر بالخصوص آبی پناہ گاہوںکو کم از کم مزید بگاڑ سے بچانے کے لئے کوئی مستقل اقدامات نہیں کئے جا رہے ہیں۔
آبپاشی اور پینے کے پانی کا اہم ذریعہ، دریائے جہلم، جو کشمیر کی لائف لائن سمجھا جاتا ہے، آلودگی، غیر قانونی ریت نکالنے کی وجہ سے تیزی سے اپننے اندر پانی سمونے کی صلاحیت کھو رہا ہے۔
ایشیا کی سب سے بڑی میٹھے پانی کی جھیلوں میں سے ایک، شمالی کشمیر میں ولر بڑے پیمانے پر آلودگی، گاد اور تجاوزات کی وجہ سے تیزی سے اپنی شان کھو رہا ہے۔ ولر سالانہ سیلابی پانی کے لئے ایک بہت بڑے جذب بیسن کے طور پر کام کرتا ہے جو ہائیڈرو گرافک نظام میں توازن برقرار رکھتے ہوئے کشمیر کو سیلاب سے بچاتا ہے۔ اس کی بے پناہ ماحولیاتی اور سماجی و اقتصادی اہمیت کے اعتراف میںولر کو 1990 میں رامسر کنونشن کے تحت بین الاقوامی اہمیت کی ایک آبی پناہ گاہ کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔ جھیل کو چاروں طرف سے بڑے پیمانے پر درخت لگانے اور پانی والے علاقہ میںزرعی کھیتوں کی بے لگام توسیع کے ذریعے گھیر لیا گیا ہے۔
اسی طرح جموں و کشمیر کے گرمائی دارالحکومت سری نگر میں پانی کے ذخائر بشمول ڈل جھیل، آنچار، خوشحالسر اور گلسر بھی آلودگی اور تجاوزات سے لڑ رہے ہیں۔
آبی ذخائر کے تحفظ کے تئیں سرکاری بے حسی کی اگر کوئی بہترین مثال ہے تو وہ براری نمبل ہے۔ یہ جھیل ڈل جھیل کا ایک اخراجی چینل ہے۔ براری نمبل ماحولیاتی لحاظ سے اہم ہے کیونکہ یہ فتح کدل کے علاقے میں ایک نالی کے ذریعے اپنے اضافی پانی کو دریائے جہلم میں چھوڑ کر ڈل جھیل کی ہائیڈرولوجی کو منظم کرنے میں مدد کرتا ہے۔ آلودگی اور تجاوزات کے ساتھ تحفظ کے اقدامات کی عدم موجودگی نے اسے معدومیت کے دہانے پر دھکیل دیا ہے۔ 2015میں حکومت نے آبی ذخائر کی بحالی کے لئے ایک جامع منصوبہ تیار کیا تھا اور اسے “لٹمس ٹیسٹ” قرار دیا تھا۔ تقریباً ایک دہائی گزرنے کے باوجود براری نمبل کی بحالی کے لئے کوئی سائنسی اقدام نہیں کیا گیا۔ اوریوںحکام لٹمس ٹیسٹ میں ناکام رہے!
جہلم کے سیلابی میدانوں میں ماحولیاتی طور پر اہم آبی پناہ گاہیں جیسے ہوکرسر، بمنہ ویٹ لینڈ، نارکرہ ویٹ لینڈ، بٹہ مالو نمبل، رکھ آرتھ، آنچار جھیل اور گلسر تیزی سے تجاوزات اور شہری کاری کی وجہ سے تنزلی کا شکار ہیں۔ 25ہیکٹر سے زیادہ رقبہ کے ساتھ جہلم بیسن میں بڑے آبی علاقوں کا کل رقبہ 1972میں 288.96مربع کلومیٹر سے کم ہو کر 266.45مربع کلومیٹر رہ گیا ہے۔
پچھلی پانچ دہائیوں کے دوران خاص طور پر سری نگر کے جنوب میں 20آبی پناہ گاہیںشہری کالونیوں کی زد میں آکر معدوم ہو چکی ہیں۔ آبی زمینوں کی خرابی نے نباتات اور حیوانات اور ہجرت کرنے والے پرندوں کی رہائش کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
آبی ذخائر کے تئیں سرکاری بے حسی کی ایک اور مثال جڑواں جھیلوں خوشحالسر اور گلسر کی ابتر حالت ہے۔ چند دہائیاں قبل تک خوشحالسر اور گلسر، جو ایک دوسرے سے جڑے ہوئے آبی ذخائر ہیں، سیاحوں اور فطرت سے محبت کرنے والوں کے پسندیدہ اڈے تھے۔ یہ آبی ذخائر نالہ امیر خان کے راستے ڈل جھیل کے پانی کو باہر لے جاتے ہیں اوراس کی ہائیڈرولوجی کو برقرار رکھنے کیلئے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ بدبودار پانی، گھاس اور کچرے کے ڈھیر ان جڑواں جھیلوں کی اب باقیات ہیں۔ ایک رضاکارانہ ماحولیاتی گروپ’’ نگین لیک کنزرویشن آرگنائزیشن‘‘ (NLCO) پانی کی گردش کو بہتر بنانے کے لئے ان جھیلوں سے ٹنوں کچرا اور گھاس صاف کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر کوششیں کر رہی ہے۔ تاہم ملحقہ علاقوں سے نالوں کا بے لگام بہاؤ ان جھیلوں کے نباتات اور حیوانات کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ آبی ذخائر ہمارے نازک ماحولیاتی نظام کا ایک اہم حصہ ہیں۔ ہمیں اپنے آبی ذخائر کو بچانے کے لئے دوسروں کے کہنے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنے آبی ذخائر کو بچانے کے لئے خود کا جائزہ لینا چاہیے اور ہاتھ ملانا چاہیے۔ ہمیں ان آبی ذخائر کو اپناناچاہئے کیونکہ ہماری بقا اور وجود ان قدرتی اثاثوں پر منحصر ہے۔
(مضمون نگار انگریزی روزنامہ ’گریٹر کشمیر ‘کے ایگزیکٹیو ایڈیٹرہیں۔)

Share This Article