پالی تھین کے ایک ٹکڑے کی عمر سینکڑوں سال
شوکت حمید
سرینگر //پچھلے کچھ برسوں میں، آبادی میں تیزی سے اضافہ، جدید کاری، بڑھتی ہوئی صنعت کاری، اور زراعت کی توسیع نے شہری اور دیہی علاقوں میں پانی کی طلب کو بڑھا دیا ہے۔ انسانی ضروریات روز بروز بڑھ رہی ہیں لیکن قدرتی وسائل محدود مقدار میں ہیں، جن کا وجود ختم ہورہا ہے۔ پانی کی بچت وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے۔ وادی کشمیر میں پانی کے متعدد ذرائع ہیں جن میں ندیاں، چشمے، زمینی پانی وغیرہ شامل ہیں۔ یہ ذرائع سینکڑوں برسوں سے استعمال ہو رہے ہیں، جن کو اب حد سے زیادہ تعمیر وترقی، گلوبل وارمنگ، بیداری کی کمی اور آلودگی سے خطرہ ہے۔صنعتی اور زرعی سرگرمیوں کی وجہ سے وادی میں سطح اور زمینی پانی بار بار آلودگی کا شکار رہا ہے۔ اس کے علاوہ، ایک بڑی آبادی کی طرف سے پیدا ہونے والا رہائشی کچرا، خاص طور پر سرینگر جیسی جگہوں پر، ماحولیاتی اور آبی وسائل کو کافی نقصان پہنچارہا ہے۔ سیوریج آرگینکس اور غذائی اجزا آبی ذخائر کے ساتھ مل جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں مائکروبیل انفیکشن ہوتا ہے۔
پیتھوجینک بیماری پیدا کرنے والے جاندار صحت کے لحاظ سے اہم ہیں کیونکہ اگر ان کا مناسب علاج نہ کیا جائے تو وہ مختلف قسم کی بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں۔ پینے کے پانی کے معیار کا تعین پانی کے ذرائع جیسے ندیوں، کنویں اور جھیلوں سے ہوتا ہے۔لیکن وادی میں کئی برسوں سے یہ سبھی ذرائع اب آلودہ ہوچکے ہیں۔وادی کی سبھی جھلیں اور ندی نالے اپنے وجود کی جنگ لڑرہے ہیں کیونکہ ان میںسیوریج اور کچرا پھینکنا عام سی بات ہے۔ایشیاء کی سب سے بڑی جھیل ولر45فیصد سکڑ گئی ہے۔یہ 1911 میں تقریباً 158 مربع کلومیٹر سے 2007 میں 87 مربع کلومیٹر رہ گئی ہے۔ جس میںکھلے پانی کے صرف 24 مربع کلومیٹر ہیں۔یہی حال جھیل ڈل ، دریائے جہلم اور دیگر بڑی ندیوں اور نالوں کا ہے۔ایک حالیہ سروے میں کہا گیا ہے کہ وادی کے سبھی ندی نالوں اور جھیلوں کا پانی پینے کیلئے موزون نہیں ہے۔البتہ ان چشموں کا پانی پینے کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے جن کے ارد گرد دیواد بندی کی گئی ہو، یا جن کی صفائی کی جاتی ہو یا جن کے اوپر چھت بنائے گئے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ دریائے جہلم اور دیگر ندی نالوں میں بڑی تعداد میں پالی تھین پھینکنے سے پانی انتہائی حد تک زہر آلود بن گیا ہے جو انسان کیلئے قابل استعمال نہیں رہ گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ آج سے 40سال قبل ندی نالوں کا پانی ابالے بغیر پیا جاتا تھا لیکن اب ایسا نہیں کیا جاسکتا۔ کشمیر کے قدرتی ذخائر پالی تھین، بلڈنگ میٹرئیل، کھادوں اور جراثیم کش ادویات کے پانی کے علاوہ دیگر کیمیکل ذرات ملانے سے زہر بن چکا ہے۔ماہرین نے بتایا کہ پالی تھین کا ایک ٹکڑا سینکڑوں سال تک زمین میں اپنی اصل حالت میں رہ سکتا ہے۔ پالی تھین زمین میں جذب نہیں ہوتا اور نہ پلاسٹک کی ہیت تبدیل ہوجاتی ہے۔گھروں سے نکالنے والا فضلہ اور کچرا بھی ندی نالوں کی نذر ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے پانی ناقابل استعمال بن گیا ہے۔ایک سائنسی تحقیق میں بتا یا گیا ہے کہ ندی نالوں میں ہر روز 4ٹن پالی تھین، پلاسٹک اور دیگر فضلہ ڈالاجاتا ہے جو زمین میں جذب نہیں ہوجاتا۔ اسکے بعد شہر سرینگر سے بھی روزانہ ایک ٹن پالی تھین دریائے جہلم کی نذر ہوجاتا ہے اور اسکے بعد یہ سارا کچرا جھیل ولر میں چلا جاتا ہے۔بڑے پیمانے پر پلاسٹک اور پالی تھین کے استعمال سے دریائے جہلم میں پانی کی سطح بتدریج کم ہورہی ہے اور زمین کے نیچے پانی کی سطح بھی اور نیچے چلی جارہی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ پہلے کنواں کھودنے کے بعد محض دس 15فٹ پر پانی موجود ہوتا تھا لیکن اب 100فٹ تک کنواں کھودنے کے بعد صاف پانی کی فراہمی ممکن بن جاتی ہے۔زمین کے نیچے پانی کی سطح خطر ناک حد تک کم ہونے سے آب و ہوا میں تبدیلی آگئی ہے اور خشک سالی کی صورتحال پیدا ہورہی ہے۔2019 میں، جموں و کشمیر کے لیے زیر زمین پانی کی سطح زمینی سطح سے 2.83میٹر نیچے تھی۔ اگرچہ حالیہ برسوں میں جموں اور کشمیر کے زیر زمین پانی کی سطح میں کافی اتار چڑھا آیا، لیکن اس میں 2015 – 2019 کی مدت میں کمی واقع ہوئی جو 2019میں سطح زمین سے 2.83میٹر نیچے رہ گئی۔سکاسٹ کشمیر کی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ حالیہ 40برسوں میں کشمیر میں زرعی اراضی39فیصد سکڑ گئی ہے جبکہ باغاتی اراضی میں 177فیصد کا اضافہ ہوگیا ہے۔سینٹرل گرائونڈ واٹر بورڈ کی شاخیں فی الوقت 13 ریاستوں میں ہیں لیکن جموں کشمیر میں ایسا کوئی ادارہ نہیں ہے۔فی الوقت ضلع پلوامہ گرائونڈواٹر سطح پر پہلے نمبر پر ہے ، جو زمین کے نیچے 7.5میٹر ہے۔پورے بھارت میں اوسطاً 10.15میٹر کی سطح ہے۔