مسلمانوں نے آزاد ہندوستان میںاتنے کم وقت میں اپنی وقعت کو ختم کرلی ہے جو شائد ہی کسی قوم کی اتنی جلد ختم ہوئی ہے۔یہاں جو چاہتا ہے اور جب چاہتا ہے ٹھوکروں پر رکھتا ہے۔ٹھوکر مارتا ہے،۔جب چاہتا مسلم خواتین کی عصمت پر ہاتھ ڈال دیتا ہے۔جب چاہتا ہے دست درازی کرتا ہے اور غیر مسلموں میں اب یہ غلط فہمی بھی دور ہوگئی ہے کہ مسلم قوم ’غیرت مند‘ ہوتی ہے‘، گزشتہ برس کے پے درپے پیش ہونے والے واقعات نے اس غلط فہمی کو دور کردیا ہے۔ عزت ناموس کے نام پر اور بات بات پر اپنی غیرت اور بہادری کا مظاہرہ کرنے والے مغربی اترپردیش کے مسلمان کا رویہ دیکھ کر ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ وہ چنگیز خاں اور ہلاکوں خاںکے دور میں رہ رہے ہیں جس میں عورت کہتی ہے کہ تم ٹھہرو میں تلوار لے کر آتی ہوں اور تم کو قتل کروں گی اور مسلمان قتل ہونے کا انتظار کرتا ہے۔ وہ اس قدر مرعوب اور خوف زدہ ہوتا ہے کہ وہ وہاںسے بھاگنے کی ہمت نہیںکرپاتا۔یہی حال اس وقت مسلمانوں کا ہوگیا ہے۔ ہر مسلمان اس میں خوش ہیں آنچ ان پر نہیں آئی ہے اور وہ بچ گئے۔ کم و بیش ہمارا رویہ یہی ہے۔ ہم کسی کا ساتھ نہیںدیتے اور نہ ہی کسی معاملے میں یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہم تنکے اور تسبیح کے دانے کی طرح بکھرے ہوئے ہیں اور اپنی وقعت، حیثیت اورقوت گنوا دی ہے۔ اس کے بعد ہم اپنے آپ کو اعلیٰ قوم اور پدرم سلطان بود کے جاپ میں جیتے ہیں۔ وہی انداز اپنانا چاہتے ہیں جو ماضی میں خوبیوں کی وجہ سے مسلمانوں میں تھا۔ اخلاق، عادات،سلوک و مروت اور حسن سلوک کے اعلی مدارج پر تھے لیکن آج مسلمان کی کوئی سطح ہی نہیں رہ گئی ہے۔ وہ زندگی کے ہر شعبے میں اپنے برادران وطن سے نچلی سطح پر جاچکے ہیں اور جوقوم قعر مذلت میں گرجاتی ہے تو اس کے ساتھ ذلت آمیز سلوک ہی کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے وہ کوئی بھی غیر متوقع نہیں ہے۔ جب قوم سیاسی شعور گروی رکھ دیتی ہے اور اپنوں کے بجائے غیروں پر حًد سے زیادہ بھروسہ کرتی ہے تو اس کا انجام یہی ہوتا ہے۔ مسلمانوں کی سیاسی، سماجی، تعلیمی اور معاشی صورت حال اس قدر خراب ہے اس سے کسی کا موازانہ بھی نہیں ہوسکتا۔ اس کی وجہ سے بھی ان کی کوئی وقعت باقی نہیں رہی۔ کچھ لوگ ضرور باحیثیت ہیں لیکن وہ ایسے مسلمان ہیں جسے دیکھ کر یہود بھی شرما جائیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں وہ محفوظ ہیں لیکن جب برا وقت آتا ہے تو سب سے پہلے بجلی ان ہی لوگوں پر گرتی ہے اور پھر نہ وہ محفوظ رہتے ہیں اور نہ ہی ان کی بہوبیٹیاں۔مسلمانوںکا اس وقت رعب و دبدبہ ختم ہوگیا ہے اورکسی قوم کی رعب و دبدبہ اس وقت ختم ہوجاتا ہے جب ان میں بزدلی، تن آسانی کا شکار اور اپنے آس پاس اپنے خلاف ہونے والے واقعات سے وہ منہ موڑ لیتے ہیں۔ مسلمانوں کا رویہ کم و بیش یہی ہے اور انہوں نے اپنے گرد منڈلانے والے چھوٹے خطرے کو ہمیشہ نظر انداز کیا ہے، جس کی وجہ سے دشمنوں کی ہمت بڑھتی گئی اورمسلمان بے وقعت اور ان کی بہو بیٹیاں مباح ہوتی گئیں۔ آج کل اسی بنا پر مسلمانوں کا یہ بُرا حا ل ہندوستان میں ہورہا ہے۔ ابھی حالیہ دنوں میں پے درپے مسلم خواتین کی اجتماعی آبروریزی کے واقعات ہوئے ہیں اورکسی ملزم کے خلاف مناسب کارروئی نہیں ہوئی ہے۔ مظفرنگر میں ہی گزشتہ ماہ (شائد 19؍مئی) میںمسلم لڑکی کو راشن دکاندار نے راشن دینے کے بہانے بلایا اور پھر اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ اس کی اجتماعی آبروریزی کی۔ دو تین دنوں تک تو کوئی ایف آئی آر تک درج نہیں ہوئی ۔اس کے بعدایف آئی آر درج تو کی گئی لیکن کارروائی نہیں ہوئی ۔ شاید اب تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ کوئی ایسی گھناؤنی حرکت اسی وقت کرتا ہے جب اسے کسی کا خوف نہ ہو۔معاملہ سے صاف ظاہر ہے کہ پولیس کی منشا ء کیا ہے۔ پولیس کے مسلمانوں کے خلاف جرم کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنا چاہتی ہی نہیں۔ اس کے ایک بڑا سانحہ جیور بلند شہر روڈ پر ہوا لیکن یہاں بھی کارروائی کے نام پر کچھ نہیں ہوا۔خواتین کے کہنے کے باوجود پولیس نے آبروریزی ہونے سے انکار کردیا۔ یہ ساری چیزیں مسلمانوں کی بے وقعتی کو ظاہر کرتی ہیں۔
لکھنو چنڈی گڑھ ٹرین میں ایک مسلم لڑکی کے ساتھ جو افسوسناک اور دل کو دہلادینے والا واقعہ پیش آیا ہے وہ مسلمانوں کی مظلومیت اور بے وقعتی اور راکھشسوں کی گنڈہ گردی اور بے شرمی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ یہ غم انگیز واقعہ مسلم اقلیت کی سیاسی، سماجی، تعلیمی اور معاشی حیثیت کو اجاگر کرتا ہے۔ اس پر مسلمانوں کی طرف سے کوئی خاص ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔سوشل میڈیا پر جو کچھ آرہا ہے اسے ہندو بمقابلہ مسلم کا نام دیا جارہا ہے یا بنادیا گیا ہے اور یہ انصاف کی راہ میں سب سے زیادہ روکاوٹ ہے۔ ہوسکتاہے کہ رمضان کی وجہ سے مسلمان سڑکوں پر نکلنا نہ چاہ رہے ہوں لیکن جب مسلمان اپنی قوت کا مظاہرہ نہیں کریں گے تو انصاف کیسے حاصل کریں گے؟ جمہوریت میںقوت کا مظاہر کرکے ہی کسی چیز کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔بجنور میں منگل (30مئی 2017) کو لکھنؤ سے چندی گڑھ جا نے والی انٹرسٹی ایکسپریس میں ایک جی آر پی کے سپاہی نے ٹرین میں تنہاسفر کرنے والی لڑکی سے چلتی ٹرین میں عصمت دری کرکے ریلوے کی خواتین کی حفاظت پر سوالیہ نشاں کھڑا کر دیا ہے۔آبروریزی کی اطلاع ملتے ہی ٹرین میں سوار لوگوں نے ہنگامہ کرتے ہوئے جی آر پی سپاہی کی پٹائی کر دی، بعد میں اسے بجنور ریلوے اسٹیشن پر جی آر پی چوکی پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔اس دوران کافی دیر تک ٹرین بھی رُکی رہی۔ اطلاع ملنے پر ارد گرد کے تھانے سے پہنچی فورس نے کسی طرح بھیڑ کو سمجھابجھا کر ٹھنڈا کیا اور ٹرین کو روانہ کیا۔ نوجوان عورت کو نیم بے ہوشی کی حالت میں ٹرین سے اتار کر ضلع اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ وہیں ہوش آنے کے بعد متاثرہ لڑکی کی تحریر پر آبروریزی کا معاملہ درج کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی ملزم سپاہی کو معطل کر دیا گیا ہے۔لکھنؤ سے چندی گڑھ جانے والی 5011 انٹرسٹی ایکسپریس جب چاندپور اسٹیشن پر پہنچی تو ٹرین میں سفر کر نے والی میرٹھ کی ایک لڑکی کی طبیعت اچانک خراب ہونے لگی، اس نے ٹرین میں چل رہے جی آر پی کے سپاہی کمل شکلا سے اپنی طبیعت کے بارے میں بتایا۔سپاہی اسے یہ کہہ کر معذور افراد کے لیے مخصوص ڈبے میں لے گیا کیونکہ وہ وہاں آرام سے بیٹھ سکتی ہے۔ اس دوران پولیس نے معذور ڈبے میں بیٹھے اکیلے مسافر کوڈبے سے باہر نکال دیا اور ڈبے کا دروازہ بند کر لیا۔ہلدور پہنچنے پر ٹرین میں سوار مسافروں کو جب کچھ شک ہوا تو انہوں نے اس کی اطلاع ٹرین کے گارڈ کو دی۔ گارڈ نے جبرا سپاہی سے اندر سے دروازہ کھلوایا۔ گارڈ کے مطابق اس وقت سپاہی نیم برہنہ حالت میں تھا اور عورت بے ہوشی کی حالت میں پڑی تھی۔اطلاع پر ڈی ایم اور ایس پی نے بھی ضلع ہسپتال میں آکر لڑکی کا حال چال جانا اور بتایا کہ ابھی لڑکی بے ہوشی کی حالت میں ہے۔ٹرین میں سوار مسافر امیش کمار کا کہنا ہے کہ وہ ڈبے میں بیٹھا تھا تو اس سپاہی نے اسے ڈبے سے باہر بھیج دیا۔ جب ہم نے گارڈ سے شکایت کی تو ڈبہ کھول کر دیکھا تو وہ عورت کے ساتھ عریاں حالت میں تھا۔وہیں کیشو کمار چودھری ایس پی ریلوے مرادآباد نے بتایا کہ لڑکی کی جانب سے سپاہی کے خلاف آبروریزی کا معاملہ درج کر لیا گیا ہے۔ مرادآباد جی آر پی میں تعینات جی آر پی کمل شکلا کو فوری طور معطل کرنے کے ساتھ ہی اسے گرفتار کر لیا گیا ہے۔
پولیس نے ابتدائی کارروائی کی لیکن انسانیت کے مجرم کمل شکلا کوجس طرح پولیس لے جارہی تھی اس طرح کوئی دوست اپنے خاص دوست کو گھمانے پھرانے لے جاتا ہے۔ تھانے میں جس طرح مہمان نوازی کی گئی اس سے پولیس اور انتطامیہ کے رول پر سوالیہ اٹھنا لازمی ہے۔ بدترین مجرم کمل شکلا ایسے پولیس کے ساتھ چل رہا تھا جیسے کرگل فتح کرکے آیا ہو اور پچیس تیس پاکستانی فوجیوں کاسر ساتھ لایاہو۔ ریلوے اسٹیشن پر بھیڑ سے اسے صحیح سلامت جانے کیسے دیا؟ ہندوستان میں بھیڑ کی روایت رہی ہے کہ وہ ہڈی پسلی ایک کردیتی ہے۔ ابھی حالیہ دنوں درجنوں لوگ بھیڑ کا شکار بن کر اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ ان ساری بھیڑ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ سارے ہندو انتہا پسند تنظیموں کے کارکن تھے لیکن شاید کمل شکلا کی قسمت اچھی تھی کیوں کہ وہ ہندو تھا۔ اگر وہ کمال ہوتا تو دیش بھگت لوگ انہیں ریلوے اسٹیشن پر ہی زندہ گاڑ دیتے ۔ اس سے بھی زیادہ پولیس اور انتظامیہ پر سوال یہ اُٹھتا ہے کہ وہ ملزم شکلا کو میڈیا کے سامنے بھرپور صفائی کا موقع دیتا ہے جب کہ اب تک آبروریزی کے کسی ملزم کو اپنی صفائی کا موقع نہیںدیا گیاہے اور ملزم بھی سرجھکائے چلتا ہے اور اس کے ہاتھ میں ہتھکڑی ہوتی ہے جب کہ شکلا سینہ تان چل رہا تھا اور اس کے ہاتھ میں کوئی ہتھکڑی بھی نہیں تھی۔اس سلسلے میں اب تک ریلوے کے وزیر سریش پربھو کا بھی کوئی بیان نہیں آیا ہے۔ پربھو بھی بات بات پر ٹوئٹ کرتے ہیں۔ ٹوئٹر باز وزیر اعظم بھی خاموش ہیں۔ خواتین رکن اسمبلی سے لے کرممبران پارلیمنٹ تک خاموش ہیں۔ سب کو سانپ سونگھ گیا ہے۔
سب سے زیادہ افسوس مسلم لیڈروں اور علمائے کے رویے پر ہوتا ہے جو جلسے جلوس کرنے میں ماہر ہیں اور بیان دیئے بغیر ان کا کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ مسلم خواتین کی تنظیمیں جو تین طلاق کے موضوع پر زمین آسمان کئے ہوئے تھیں اور مسلم دشمن فسطائی طاقتوں کا کھلونہ بنی ہوئی ہیں، وہ کہاں مرگئی ہیں؟ ٹی وی چینلوں پر گھنٹوں بحث کرنے والی خواتین جو مسلم خواتین کے غم میں دبلی ہوئی جارہی تھیں انہیں بجنور، مظفر نگر، جیور اور دیگر جگہ مسلم خواتین کی ہونے والی بے حرمتی نظر کیوں نہیں آرہی ہیں؟ خواتین مسلم پرسنل لا بورڈ کی سائشتہ عبربھی آج کل کہیں نظر نہیں آرہی ہیں۔ ہمارے لبرل مسلم صحافی کسی کونے دبک کر بیٹھ گئے ہیں جو تین طلاق کے معاملے پر بہت پریشان تھے اور کہتے تھے کہ مسلم خواتین کے ساتھ انصاف ہونا چاہئے ،تو ان آبروریزی کے شکار مسلم خواتین کے ساتھ کیا انصاف نہیں ہونا چاہئے؟اس نعرہ کے علمبردار حکومت کی طرف سے کوئی بیان نہیں آیا ہے جن کا نعرہ تھا ’ مہیلا کے سمان میں بھاجپا میدان میں‘۔ مسلمانوں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ کوئی ان کا ساتھ نہیں دے گا جب تک وہ خود اپنے مسائل حل کرنے کے اہل نہیں ہوں گے۔ مسلم دشمن طاقتوں کو معلوم ہے کہ مسلمان دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور شیعہ سنی میں تقسیم ہیں۔ وہ قرآن و حدیث پر نہیں بلکہ رسم و رواج پر زیادہ عمل کرتے ہیں۔ وہ فروعات میں اس قدر الجھ گئے ہیں کہ اصل کا علم ہی نہیں ہے۔ ان میں ہر شخص لیڈر جو کسی کی بات ماننے کے لئے تیارنہیں ہے۔ مسلمانوں کی حالت جنگل میں بھیڑ کی اس ریوڑ کی طرح ہوگئی ہے جس کا کوئی چرواہا نہیں اور جو چاہے ریوڑ سے بھیڑ اٹھالے یا اسے مار ڈالے۔مسلمان سوچیں ان کی یہ حالت کیسے ہوگئی!!!!
abidanwaruni@gmail.com
9810372335