شیخ ریاض احمد
قرآن حکیم میں ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’ اےایمان والو! اسلام میں پوری طرح داخل ہو جائو اور شیطان کی اتباع مت کرو، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔‘‘
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ’’اے ایمان والوں بچاوں اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو نار جہنم سے۔‘‘یہ دونوں آیتیں ہم کو اپنے ذ مہ داریوں کا احساس دلانے کےلئے اور اپنا مخلصانہ اور ذ مہ دارانہ رول دکھانے کی ترغیب دیتا ہے اور اس بات پر اُبھارتا ہے کہ اپنے آپ کو اور اہل و عیال کو نارِ جہنم سے بچانے کی کوشش میں ہمیشہ کوشاں رہیں۔
آج کا دور ان سب خرابیوں کا ہے جن سے ہماری زندگی اجیرن بن گئی ہے۔ اسکی سب سے اصل وجہ ہمارے اپنے فریضہ اورذ مہ داریوں کو فراموش کرنا اور ان اعمال کو اپنانا، جن سے ہمارا اپنا ضمیر دن بدن گندا ہوتا جارھا ہے۔ ہمارے ضمیروں پر جیسے ایک قسم کا پردہ پڑا ہے ،جس سے ہماری سوچ مفلوج ہوگئی ہے۔ ہماری سوچ جانورں جیسے بن گئی، ہم اشرف المخلوقات سے گر کر جانوروں کی طرح زندگی بسر کرنے کےعادی ہوگئے ہیں۔ اللہ کی عظیم نعمتوں سے ہمیں نوازا گیا تھا، وہ عظیم نعمتیں ایک انسان کی شکل میں اور اسکے بعد اسلام کے نور سے منور کروایا گیا تھا ، ہم کو ان نعمتوں کا شکر بجا لانا تھا لیکن ہمارے اعمال اس کے بر عکس ہیں۔ ہر ایک فرد دوسروں کو تنقید کا نشانہ بنانے کے بجائے اپنے آپ کا احتساب کریں ۔ اس سے لوگ ایک دوسرے کے عیب گننا بھول جائیں گے۔ ہم اپنے ضمیر کی عدالت میں لے جاکر دیکھیںتو یقیناً ہم خود کو سزا کا حقدار پائیںگے۔ ہم اس پیغمبر کے امتی ہیں، جن کو رحمة للعالمین بنا کر مبعوث کیا گیا اور دنیا سب سے عظیم کتاب سے نوازاگیا، یہ کتاب قیامت کی صبح تک ایک زندہ جاوید معجزہ بنکر رہےگی۔ اس کتاب نے کئی قوموں کو عزت بخشی اور کئی قوم اسکے تعلیمات کو نظر انداز کر کے ذلت میں گرفتار ہوگئے۔
اقبال نے خوب لکھا ہے۔ ؎
وہ زمانے میں معزز تھے اہل قرآن ہوکر
ہم ذلیل و خار ہوئے تارک قرآن ہوکر
آج اگر مسلمان کسی کو کہا جا سکتا تو وہ نو مسلم ہے، جن کی زندگیاں قرآن کے نور سے روشن ہوئیں، جو تحقیقی مسلمان ہوئے ،ہماری طرح نہیں جن کو اسلام ورثے میں ملا ہے۔ اس لئے جو چیز مفت ملتی، اسکی کوئی قدرو قیمت نہیں ہوتی ۔اُن سے پوچھوجن کو مسلمان بننے کے لئے کئی طرح کی قربانیاں دینا پڑیں، انہوں نے اسلام میں داخل ہونے کےلئے اپنا سب کچھ کھو دیا، مگر یہ قربانیاں اُنکے یقین کو اور مضبوط کراتی گئیں اور آج وہ مخلص مسلمان بن کر اس دین فطرت کی خدمات میں لگے ہوئے ہیں۔
یا د رہے! یہ دنیا فانی ہے، اسکو اُتنی ہی اہمیت دو کہ آخرت سنور جائے۔ میں گناہ گار ہوں لیکن اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہوا ہوں نہ کبھی ہونگا۔ انشاء اللہ
میرے بھائیو! اپنے آپ کو اور اپنی ذمہ داریوں کو پہچانو، تاکہ اپنے بچوں کو انسانیت کے محافظ بنا سکو اور دین ِ اسلام کے نور سے انکی زندگیاں روشن کرسکو۔ ایسا نہ ہو آپ اتنا آگے نکلو کہ پیچھے جب مڑو تو پائو کہ چمن ویراں ہو چکا ہے ۔ بے شک ہر انسان جوابدہ ہے اپنےاور اپنے اہل و عیال کا اور اُس کی پوچھ گچھ ہوگی۔ ہم سب اس بات کو دوہراتے تھکتے نہیں کہ آج کا دور خراب ہو رہا ہے، بر عکس اسکے دوسروں پر اُنگلیاں اٹھائے اپنے آپ کا محاسبہ نہیں کرتے اور اپنے آپ کو ذ مہ دارٹھہراکے اپنا کلیدی رول ادا نہیںکرتے اور اُس بدلائو کی شروعات نہیں کرتے، جس سے ہمارا سماج خوبصورت اور لائق بسر بن سکے۔ چھوڑئیے دوسروں کے عیب ٹٹولنا، کیونکہ جتنا آپ دوسروں کی تاک میں رہوگے ،اُتنا ہی گناہوں میںپھنستے جائوںگے ۔جان لو، اگر دنیا میں دوسروں کے عیبوں کی پردہ پوشی کروگے، اللہ تعالیٰ آپ کے عیبوں کی سترپوشی آخرت میں کرےگا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مل جُل کے اس سماج کی تعمیر کرنے کی سعی کریں۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا، جب تک کہ وہ خود اپنی حالت نہ بدلتا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہماری مدد کرسکتا ہےمگر شرط یہی ہے کہ ہم اپنے آپ کو بدلنے کی ٹھان لیں۔ مستقبل کا دور شاید آسان نہ ہو مگر شاید ہماری نیتوں میں مخلصانہ پن آنے سےہم اپنے بچوں کو وہ معاشرہ دے سکیں،جہاں انسانیت کے اعلیٰ اصول و ضوابط قائم ہوں اور اپنے کردار کی بلندی سے ماضی کے گلے شکوے دور کرنے میں کامیاب ہو کر اپنے آپ کے لئے ذخیرہ آخرت تیار کریں۔