انسانیت ایک ایسی انمول شئے ہے جو ہر زماں ومکان میں ہر دوسری چیز پر فوقیت رکھتی ہے ۔اس کے سامنے قوم، نسل ، رنگ ، مذہب، زبان ،جغرافیہ یا انسانی ذہن کی تراشیدہ من وتُو کی تقسیم ہیچ ہوتی ہے مگر افسوس کہ برصغیر میں انسانیت بھی سیاست کے تابع کر دی گئی ہے ۔اس کی ایک مثال کبریٰ گیلانی نامی مظفرآباد کی ایک بیٹی کی کہانی ہے جس میں ایک طرف درد وکرب اور مجبوری ہے اور دوسری طرف سنگ دلی اور تعصب وتنفر کی کا رستانی ہے ۔ اس کہانی کی پرتیں کوئی دوماہ قبل پریس کالونی سری نگر میں اپنی نوعیت کے ایک انوکھے مظاہرے سے کھل گئیں ۔ یہ مظاہرہ مظفر آباد کی اُن بیٹیوں نے کیا تھاجو کشمیری نوجوانوں کے ساتھ بیاہی گئی ہیں لیکن بد نصیبی سے یہاں انہیں طرح طرح کے خانگی، نفسیاتی ا ور سماجی مسائل کا سامنا کرنا پڑرہاہے ۔ان کا ارباب اقتدار سے واحد مطالبہ ہے کہ انہیں میکے لوٹ کر اپنے دُکھوں یا جدائیوں کا بوجھ ہلکا کرنے کی اجازت دی جائے۔ یہ شکوہ زن ہیں کہ حکام نہ انہیں ریاست میں مستقل باشندگی کا حق دے رہے ہیں اورنہ وطن واپسی کا راستہ ۔ تاحال ایک پیچیدہ مخمصے میں اُلجھیں یہ کم نصیب خواتین نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن کے مصداق حکام کی عدم شنوائی سے ذہنی تعذیب کے دلدل میں پھنسی ہوئی ہیں ۔ ماہ فروری میں اپنے بچوں سمیت پر یس کالونی سری نگر میں ان کا مظاہرہ کر نا کوئی سیاسی چیستاں نہیں تھا بلکہ یہ اربابِ حل وعقد کو سادہ زبان میںایک انسانی مسئلے کی طرف توجہ مبذول کرانے کی چیخ وپکار تھی تاکہ مظاہرین کی بپتا سنی جائے اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر انہیں پار لوٹنے کا پروانہ دیا جائے ۔یاد رہے کہ عمر عبداللہ کے دور ِحکومت میں پار بیٹھے سابقہ ملی ٹینٹوں کے بارے میں ریاستی حکومت کی تجویز پر مرکزی حکومت نے بازآبادکاری پالیسی وضع کی تھی ،اس کے تحت ان کشمیری نوجوانوں کو گھر واپسی کا موقع دیا گیا تھا جو وطن لوٹ کرپُرامن زندگی گزرانے کے خواہش مند تھے ۔ ان دنوں بحالی ٔ اعتماد اور نارملسی کا نام دے کر اس ا قدام کا کافی چرچا کیا گیا ، بلکہ عمر عبداللہ کی حکومت اسے اپنی ایک بڑی کامیابی جتلاتی رہی۔ ان کشمیری نوجوانوں کو مرکز کی منظورکردہ پالیسی کی جانب رجھانے کے لئے حکومتی امدادکی یقین دہانیاں بھی دی گئیں مگر عمل ندارد۔ غور طلب ہے کہ کشمیری نوجوانوں کی بازآبادکاری سے موسوم اس پالیسی پر اُس وقت کی اپوزیشن بی جے پی نے حکمران کا نگریس کی اُسی طرح جم کر مخالفت کی تھی جیسے ایک زمانے میں resettlmemt bill کے خلاف دلی میں سیاسی ایکاکیا گیا تھا۔بایں ہمہ کئی ایک کشمیری نوجوان اس پالیسی سے فائدہ اُٹھانے کے لئے یکے بعد دیگرے نیپال کے مقررہ رُوٹ سے کشمیرلوٹ آئے ۔ بظاہر خیر سگالی کے جذبے سے اُٹھایا گیا یہ حکومتی اقدام امن کی جانب ایک مفید پیش رفت ثابت ہوتابشرطیکہ اس پر صدق دلی اور ثابت قدمی کے ساتھ عمل درآمد کیا جاتا۔ بہر حال متعدد کشمیری نوجوان دستاویزی ثبوتوں اور سرکاری اجازت ناموں کے ساتھ براستہ نیپال یہاں لوٹ تو آئے مگر اُن کی تمام اُمیدیں بہت جلد خاک میں مل گئیں کیونکہ ریاستی حکومت سے انہیں جو توقعات وابستہ تھیں وہ بالشت بھر بھی پوری نہ ہوئیں بلکہ اُلٹا قدم قدم پر مسائل کا شہمار پھن پھیلائے انہیں ڈَستا جا رہا ہے ۔ ا س کہانی کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ گھرواپسی کرنے والے کشمیری نوجوانوں میں چونکہ زیادہ تر کی شادیاں پار کی بیٹیوں سے ہو چکی تھیں ، یہ بال بچے والے تھے ،اس لئے ظاہر ہے وہ اپنے اہل وعیال کے ساتھ ہی پارسے واردِکشمیر ہوئے ۔ اگر چہ ان میں سے زیادہ تر کی ا زدواجی زندگیاں یہاںکامیاب ہیں مگر کئی ایک کوتاہ قسمت خواتین ایسی بھی ہیں جو اپنے شوہروں کی بے اعتنائیوں یا سسرالیوں کی سردمہری کی شکار بتائی جاتی ہیں ۔اس بارے میں کئی دلخراش قصہ کہا نیاں پہلے ہی مقامی اخبارات میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ ایک ایسی ہی کم نصیب خاتون مظفرآباد کی ستائیس سالہ کبریٰ گیلانی بھی ہیں جن کے بارے میں بتایا جاتاہے کہ اُن کا نکاح کوکر ناگ جنوبی کشمیر سے تعلق رکھنے و الے کسی سابقہ ملی ٹینٹ سے ہوا تھا مگر سالوں تک بچہ نہ ہونے کے سبب اس محترمہ کو اپنے خاوند نے مبینہ طور سر راہ چھوڑ دیا ۔ اب یہ خاتون اپنا گزارہ گھریلو خادمہ بن کر چلا رہی ہیں۔ تفصیلات کے مطابق کبریٰ دُکھ درد سے چھٹکارا پانے کے لئے واپس اپنے میکے مظفر آباد لوٹنا چاہتی ہیں مگر تاحال انہیں ہمارے یہاں کے حکام کوئی قانونی راہداری دینے پر تیار نہیں ۔ اگر چہ ان کے پاسپورٹ کوپاکستانی ہائی کمیشن نئی دلی توسیع بھی دے چکا ہے مگر جب یہ مصیبت کی ماری خاتون واگہہ سرحد کے راستے پاکستان واپس جانے کے لئے وہاں پہنچیں تووہاں حکام نے دو مختلف مواقع پر انہیں بے نیل ومرام واپس لوٹادیا۔کبریٰ گیلانی کا دعویٰ ہے کہ اُن کی طرح کشمیری نوجوانوں کے ساتھ بیاہی گئیں پار کی ایسی کم ازکم دوسو خواتین ہیں جو وادیٔ کشمیر چھوڑ کروطن واپس لوٹ آنا چاہتی ہیں مگر اُن کی سنی اَن سنی کر دی جاتی ہے،اور یہ کوتاہ نصیب ہیں کہ ایک درماندہ قافلے کی طرح کشمیر میں سڑ گل رہی ہیں ۔ شومی قسمت سے نئی دلی ا ور اسلام آباد کے درمیان سال ہا سال سے تعلقات بہت خراب چلے آرہے ہیں ، آج کل جنگی جنوں پیدا کئے جانے کی منفی کاوشیں عروج پر ہیں ، گفت وشنید کے دروازے مقفل ہیں، راہ و رسم کے راستے مسددو ہیں ،ٹریک ٹو سلسلے کا بھی کہیں اَتہ پتہ نہیں ۔ اس بیچ ہمارے اربابِ بست وکشاد کے دل اور ضمیر کے شیش خانے عام انسانوں کے مصائب سے بھی پسیج نہیںجا تے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر بھاجپا غیر ملکی ہندو ، سکھ اور بودھ تارکین وطن کاملک میں استقبال کرنے کے لئے آنکھیں بچھاتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ جو غیر ملکی افراد یہاں سے وطن لوٹنے کے لئے بے تاب ومضطرب ہیں ،انہیں خوش دلی سے رخصت نہیں کیا جاسکتا؟ کبریٰ گیلانی اور اُن جیسی پار کی دیگر خواتین اور بچے اپنا گھر لوٹنا چاہتی ہیں تو انہیں روکے رکھنا سنگ دلی نہیں تو اور کیا ہے ؟ کیایہ احوال وکوائف اس امر پر دلالت نہیں کرتے کہ اعلیٰ حکام کے یہاںعام انسانی جذبوں کی کوئی قدر وقیمت نہیں رہی ہے ؟ پو چھا جاسکتا ہے اگر وزیراعظم مودی بنا کسی ویزے کے کابل سے لوٹتے ہوئے اپنے طیارے کو موڑ کروقت کے وزیراعظم نواز شریف کے یہاں جاسکتے ہیں تو کیا قانون کی حکمرانی اور جمہوری مساوات کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ پار کی کبریٰ گیلانی سمیت نجی مسائل سے جھوج رہی دیگر خواتین کو میکے لوٹنے کا غیر مشروط حق نہیں ملنا چاہیے؟ خدا را! سیاست سے بالاتر ہوکر فقط اور فقط انسانیت کے ناطے مصیبت کے مارے عام شہریوں کو ناگفتہ بہ مسائل کے دلدل سے نجات دلانے کے ضمن میں اپنی انسانی ذمہ داریاں محسوس کر یں ۔ یہ بات بلاخوف ِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ یہ خالص ایک ایسا انسانی مسئلہ ہے اور اس کا حل دوطرفہ تلخیوں کے درمیان سیاسی عینک لگاکر نکل ہی نہیں سکتا ۔البتہ جہاں حاکمانِ وقت کے دل و جگر میں تعظیم ِانسانیت اور تکریم ِنسواں کا وافر جذبہ موجزن ہو توا س کا حل چٹکیوں میںنکالا جاسکتا ہے ۔