سرینگر// کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کو کشمیر معاملے میں اہم رول ادا کرنے کا اہل قرار دیتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے بار قیادت کو ریاست میں امن و امان قائم کرنے اور دیگر اشوز پر اپنا اثر ورسوخ ادا کرنے کی صلاح دی ہے ۔اس ودران بار صدر ایڈوکیٹ میاں عبدالقیوم نے بھارت کی اعلیٰ ترین عدالت میں اس بات کا برملا اظہار کیا کہ مذاکراتی عمل کیلئے آئین ہند کے دائرے کی شرط ہٹانے سے ہی کشمیر تنازعے کا ہر فریق بات چیت کی راہ اختیار کرنے کیلئے تیار ہوگا ۔چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس جسبیر سنگھ کیہر کی سربراہی والی سہ رکنی بنچ بشمول جسٹس ڈی وائی چندر چوڈاور جسٹس ایس کے کول کے سامنے جمعہ کو پیلٹ گن اور کشمیر میں فورسز کے ہاتھوں انسانی حقوق پامالیوں سے متعلق دائر عرضی پر سماعت ہوئی ۔ایک گھنٹے سے زیادہ عرصے تک جاری رہنے والی سماعت کے دوران بار ایسوسی ایشن کی طرف سے معروف وکیل ایڈوکیٹ ظفر احمد شاہ نے پیلٹ گن کے مہلک اثرات سے متعلق ایک رپورٹ پیش کی جس میں ایجی ٹیشن2016سے اب تک پیلٹ متاثرین کی تمام تفصیلات مع تصاویر شامل ہیں ۔اس موقعے پر ایڈوکیٹ شا ہ نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ حکومت ایک اسلحہ کو چھوڑ کر دوسرے اسلحہ کے استعمال کی باتیں کرتی ہیں لیکن کئی عدالتی احکامات اور ہدایات کے باوجود ان کا استعمال جاری ہے اور وہاں لوگوں خصوصا بچوں کے مرنے اور ان کی بینائی چھینے جانے کے واقعات مسلسل رونما ہورہے ہیں ۔اس موقعے پر چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس کیہر نے وہاں موجود بار صدر ایڈوکیٹ میاں عبدالقیوم سے براہ راست مخاطب ہوکر کہاکہ کشمیر بار ایسوسی ایشن خصوصا آپ کا کشمیر میں امن وامان اور بات چیت کے حوالے سے ایک اہم رول بنتا ہے لہٰذا آپ کو چاہئے کہ کشمیر میں جاری پر تشدد حالات کو قابو کرنے اور امن و امان قائم کرنے میں اپنا موثر رول ادا کریں ۔عدالت عظمیٰ نے بار قیادت کو مشورہ دیا کہ وہ اس مسئلے سے نمٹنے اور خون خرابے کو روکنے کیلئے تجاویز پیش کریں تاکہ ان پر عمل درآمد یقینی بنایا جاسکے ۔اس موقعے پر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر ایڈوکیٹ میاں عبدالقیوم نے کہاکہ مسئلہ کشمیر ایک دیرینہ سیاسی و تاریخی مسئلہ ہے جسے حل کرنے کیلئے مذاکراتی عمل لازمی ہے تاہم انہوں نے بھری عدالت میں برملا کہا کہ جب تک حکومت ہند متعلقین کے ساتھ مذاکراتی عمل کیلئے ’’آئین ہند ‘‘کی شرط نہیں ہٹاتی تب تک یہ ایک بے کار مشق ہے اور اس کے دورس اور مثبت نتائج کی امید نہیں کی جاسکتی ۔اس دوران اٹارنی جنرل آف انڈیا مکل روہتگی نے کہاکہ حکومت نے امن و امان کیلئے بات چیت کے دائرے بند نہیں کئے ہیں تاہم وہ عوام سطح پر قانونی طور منتخب نمائندوں سے ہی بات کرے گی نہ علیحدگی پسند وں سے جو بقول انکے ریاست جموں وکشمیر کے الحاق ہند پر بھی شکوک و شبہات رکھتے ہیں ۔اٹارنی جنرل نے کہاکہ مرکزی حکومت جموں وکشمیر میں امن وامان قائم کرنے کیلئے سنجیدہ ہے اور گذشتہ روز ہی وزیر اعظم نے ریاست کی وزیر اعلیٰ کے ساتھ وہاں کے حالات پر تفصیلی بات کی اور کئی اقدامات کا فیصلہ لیا۔دونوں طرف کے وکلاء کے دلائل اور جرح کو سننے کے بعد سپریم کورٹ کے اعلیٰ سطحی سہ رکنی بنچ نے ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کو ہدایت دی کہ وہ ایسی تجاویز لے کر سامنے آئیں جن سے کشمیر میں حالات بہتری کی طرف بڑھیں اور تشدد کے واقعات بند ہوں ۔اس موقعے پر اٹارنی جنرل کی مداخلت پر سخت رد عمل کااظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہاکہ اگر اس عدالت کو اس مسئلے میں بات کرنے اور ایک نئی شروعات کرنے کاقانونی اختیار نہیں ہے تو یہ فائل آج ہی بند کی جاسکتی ہے ۔سہ رکنی بنچ نے کہاکہ یہ ایک حساس اور سنجیدہ مسئلہ ہے لہٰذا کہیں نہ کہیں سے شروعات کی جانی پڑے گی ۔کیس کی اگلی سماعت9مئی کو مقرر کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے بار ایسوسی ایشن قیادت کو ہدایت دی کہ وہ اس ساری صورتحال کے حوالے سے اپنی تجاویز اور مشورے لے کر سامنے آئیں تاکہ عدالت اس بات کا تعین کرسکے کہ شروعات کہاں سے کی جاسکتی ہے ۔واضح رہے کہ کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے پیلٹ گن کی تباہ کاریوں کو روکنے کیلئے سپریم کورٹ میں رٹ دائر کی ہے جس پر اب تک کئی سماعتیں ہوئیں ہیں ۔بار ایسوسی ایشن کی طرف سے جنرل سیکریٹری ایڈوکیٹ بشیر صدیق اور ایڈوکیٹ ناصر قادری بھی عدالت عظمیٰ میں موجود تھے ۔