نئی دہلی // مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے کہا ہے کہ پورا ہندوستان تہہ دل سے چاہتا ہے کہ کشمیر کے حالات ٹھیک ہوں اور اگر پاکستان پہل کرے تو اس سے بات چیت کیلئے تیار ہیں۔ سنگھ نے راجیہ سبھا میں ایک سوال کے دوران سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے سکھ رام سنگھ یادو کے سوال سے متعلق جنتا دل (یو) کے شرد یادو اور مارکسی کمیونسٹ پارٹی (سی پی ایم) کے سیتارام یچوری کے ضمنی سوالات کا جواب دیتے ہوئے یہ اطلاع دی۔ یادو نے سنگھ سے جب کہا کہ مرکزی حکومت صرف بندوق کے بل پر کشمیر مسئلہ کو کیوںحل کرنا چاہتی ہے ، وہ پاکستان سے بات کیوں نہیں کرتی، تو راجناتھ سنگھ نے کہا کہ پچھلی حکومت نے بھی پاکستان کے ساتھ بات چیت کے لئے یہ شرط رکھی تھی کہ وہ پہلے دہشت گردی کی حمایت ختم کرے ۔ انہوں نے کہا، "ہم پاکستان سے بات چیت کرنے کو تیار ہیں لیکن پاکستان بات چیت کے لئے پہلے پہل تو کرے ۔ وہ یہ تو کہے کہ وہ دہشت گردوں کی سرگرمیوں پر لگام لگانا چاہتا ہے ۔ پورا ہندوستان تہہ دل سے چاہتا ہے کہ کشمیر کے حالات ٹھیک ہوں‘‘۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ وہ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لئے تین بار وہاں گئے ۔ انہوں نے ٹویٹ کر کے بھی اس کی اطلاع دی کہ وہ ارکان پارلیمنٹ کے وفد کی قیادت کرتے ہوئے وہاں گئے ، اس وفد میں یادو اور یچوری بھی ساتھ گئے تھے لیکن حقیقت سب جانتے ہیں کہ وہاں سے الٹے قدم پیچھے آنا پڑا۔ سنگھ کے اس تبصرہ پر کچھ ممبران پارلیمنٹ نے اعتراض بھی کیا۔ سنگھ نے اس وقت کہا کہ وہ آج ایوان کو یہ بات بتانا چاہتے ہیں کہ جب کشمیر کے مختلف گروپوں سے بات چیت ہونی طے ہوئی تو وزیر اعلی محبوبہ مفتی خود اس کے لئے نہیں آئیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے انہوں نے ہر قدم اٹھائے لیکن اس مسئلہ کو حکومت تنہا نہیں سلجھا سکتی، اس کے لئے تمام سیاسی جماعتوں اور شہریوں کا بھی تعاون چاہئے ۔اس سے پہلے سکھرام سنگھ یادو کے سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا کہ پچھلی حکومت نے بھی کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لئے کئی اقدامات کئے ۔ وہ تنہا اس کا کریڈٹ لینا نہیں چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہاں کے نوجوانوں کو قومی دھارے میں لانے کے لئے 10 ہزار خصوصی پولیس افسر ان تعینات کئے گئے ، پانچ نئی ریزرو بٹالینوں میں 4500 لوگ مقرر کیے گئے اور مرکزی مسلح ٹیم میں 1200 لوگ مقرر کیے گئے اس کے علاوہ ہنر مندی کے فروغ اور روزگار کے لئے اڑان اور اسکول کالج کے ڈراپ آؤٹ کے لئے حمایت جیسی اسکیمیں شروع کی گئیں۔ یادو نے یہ بھی بتایا کہ سرجیکل اسٹرائک سے پہلے یکم جولائی 2016 سے 30 ستمبر تک 110 دہشت گردانہ واقعات ہوئے اور 34 سیکورٹی جوان اور سات شہری ہلاک ہوئے تھے لیکن یکم اکتوبر 2016 سے 31 دسمبر 2016 تک 87 دہشت گردانہ واقعات ہوئے اور 19 سیکورٹی جوان اور چھ شہریوں کی جانیں گئیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جب کوئی سیکورٹی جوان مارا جاتا ہے تو اس کے جسد خاکی کو باعزت طریقے سے اس کے آبائی گاؤں بھیجا جاتا ہے اور مقامی ایم پی، ایم ایل اے کے علاوہ ضلع انتظامیہ کو بھی مطلع کیا جاتا ہے اور سرکاری اعزاز کے ساتھ ان کی رسومات ادا کی جاتی ہیں اور شہید کے خاندان کو تقریبا ایک کروڑ روپے دیئے جاتے ہیں۔ ویسے کسی شہید کی جان قیمت روپیوں سے نہیں لگائی جاسکتی ۔