حارث حمزہ لون
ہوئے ختم اب تو ہمارے مزے کہ ہیں امتحان اپنے سر پر کھڑے
مدد کی توقع کسی سے نہیں ہوئے سارے روپوش ساتھی کہیں
کریں بھی تو فریاد کس سے کریں کسے دوست دنیا میں اپناکہیں
پڑھا جس نے وہ ہوگیا کامیاب ترقی ملی اس کو بس بے حساب
سمجھ میں یہ آیا کہ محنت کریں فقط ہم کتابوں سے اُلفت کریں
بچو!سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ زندگی بذات خود ایک امتحان ہے اور انسان زندگی بھر مختلف طرح کے امتحانوں سے گزر کر کامیابیوں اور کامرانیوں سے ہمکنار ہوتا ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ اکثر طلباء کافی محنت کرتے ہیں کتابیں پڑھتے ہیں ۔ خلاصے یاد کرتے ہیں اور بڑی تیاری سے امتحان میں شریک ہوتے ہیں لیکن جب نتیجہ آتا ہے تو وہ خلاف توقع ناکام ہوجاتے ہیں۔ ان کی سال بھر کی محنت رائیگاں جاتی ہے ۔ طلبہ پھر اپنی قسمت بُرا کہتے ہیں، جبکہ ایسی بات نہیں ہے ۔ طلبہ اگر غور کریں تو انہیں اس میں اپنی کوتاہی اور خامی نظر آئے گی ۔
بات دراصل یہ ہے کہ امتحان دینا بھی ایک فن ہے اور اکثر طلبہ اس فن سے ناواقف ہوتے ہیں، انہیں امتحان دینے کا طریقہ نہیں آتا ۔ امتحان کی تیاری کبھی اس وقت شروع نہ کریں جب امتحان سر پر آنے کو ہو ۔ اس عمل سے گھبراہٹ ،انتشار اور پریشانی کی وجہ سے صحیح تیاری نہیں ہو پاتی اور یہ ضرب المثل ہر کسی کو یاد ہی ہوگا کہ ’’جلدی کا کام شیطان کا ‘‘۔اس لیے ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ پہلے کُل نصاب اپنے سامنے رکھیں ۔ کاغذ اور قلم ہاتھ میں لیں اور اس بات کا تعین کریں کہ اس کتاب کو کتنے عرصے میں مکمل کیا جاسکتا ہے ۔ پھر وقت کو مناسب طریقہ پر تقسیم کرکے کاغذ پر نصاب کومکمل کرنے کے لیے ہر پرچے کے لیے الگ الگ مقرر کرکے لکھیں ، اس پروگرام پر عمل کرکے امتحان کے لئے تیاری کریں ۔
امتحان کی تیاری کے معنی عام طور پر صاف پڑھنا یا رٹنا خیال کیا جاتا ہے ۔ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے ۔ تیاری میں لکھنے کی مشق کرنا ضروری ہے ۔ اس لیے جب بھی آپ کسی سبق یا مضمون کو پڑھتے جائیں تو اس دوران اہم نکات کو نوٹ کرتے جائیں پھر کتاب بند کرکے ان نکات کی مدد سے وہی مضمون اپنے الفاظ میں لکھنے کی کوشش کریں ۔ اس طرح مطالعہ کے ساتھ ساتھ تحریر کی مشق بھی ہوجاتی ہے ۔ واضح رہے کہ مطالعے میں نظر اور ذہن کی مصروفیت ہے ۔ کیونکہ تحریر کے عمل میں ذہن کو عملی طور حاضر رہنا پڑتاہے ۔ اس طرح توجہ اور ذہنی کاوش سے مطلوبہ متن کو نوک قلم کے ذریعے صفحہ قرطاس پر لایا جاسکتا ہے ۔ تحریر کی مشق آپ کو ان خامیوں سے بھی بچائے گی جو آپ امتحان میں کر بیٹھتے ہیں مثلاً املا کی غلطیاں ، تذکیر و تانیث کی غلطیاں ، صیغہ اور زمانے کی غلطیاں ، سوال کا مقصد نہ سمجھنے کی غلطی اور عبارت کی بے ربطی وغیرہ ۔
امتحان کا وقت ایک آزمائش کا وقت ہوتا ہے ۔ یہ دیکھا گیا کہ اچھے اور ذہین طلبہ پر بھی امتحان کے وقت گھبراہٹ طاری ہوتی ہے۔ اس اضطراب اور گھبراہٹ میں وہ لکھنا کچھ چاہتے ہیں اور لکھ کچھ جاتے ہیں۔ حافظہ جواب دے جاتا ہے اور ذہن بھی کسی حد تک بیکار ہوجاتا ہے ۔ امتحان کے موقع پر سب سے پہلی اور اہم چیز جو طالب علم کے لئے ضروری ہے وہ حاضر دماغی اور سکون قلب ہے ۔ جب کمرہ امتحان میں داخل ہو تو نہایت سکون اور اطمینان کے ساتھ داخل ہو ۔ دماغ پر کسی قسم کی فکر اور بار نہ ہو ۔ تازہ دم ہو کر پرچہ حل کرنے کے لئے سیٹ پر بیٹھنا چاہیے اور سوال نامہ پر لکھی ہوئی ہدایات کو بھی ذہن نشین کر لینا چاہیے۔ اُن میں سے کتنے سوالوں کا جواب آسانی سے دیا جاسکتا ہے، جو سوال یاداشت کے اعتبار سے سب سے زیادہ آسان ہوں اور جن کے متعلق دماغ میں کافی مواد ہوں سب سے پہلے اُس کو حل کرنا چاہیے ۔ کیونکہ سوالات کا بالترتیب حل کرنا ضروری نہیں ہوتا ہے ۔ آسان سوالوں کو پہلے حل کرنا چاہیے تاکہ وقت بھی کم صرف ہو اور دماغ بھی بوجھل نہ ہو ۔ جوابات صاف ، خوش خط اور دلچسپ عبارت میں ایسے انداز ے تحریر کرنے چاہیں کہ ممتحن آپ کی تحریر کی روانی اور شگفتگی سے محظوظ ہو ۔ جوابات وقت کا اندازہ کرتے ہوئے ایسی رفتار سے لکھے جائیں کہ تین گھنٹہ میں مکمل ہوسکیں ۔ جوابات میں بے جا طوالت اور عنوان سے ہٹ کر طویل بحث بالکل نہ ہونا چاہیے ۔خیالات درست ، صاف ستھرے اور ترتیب سے ہوں ۔ جملے مختصرہوں، طویل نہ ہوں ۔ مضمون پیراگرافوں میں منقسم ہو ۔ پرچہ مکمل کر لینے کے بعد ایک مرتبہ جوابات پر نظر ثانی کرلینا بھی ضروری ہے ، تاکہ عجلت میں اگر کچھ الفاظ لکھنے سے رہ گئے ہوں تو وہ لکھے جاسکیں ۔
امتحانی سوال کا جواب لکھنے سے پہلے چند منٹ غور کر لینا چاہیے اور سوال کے لئے اشارات نوٹ کر لینے چاہیے ۔ اگر کسی مسئلہ میں ممتحن آپ سے رائے طلب کرتا ہو تو آپ کو چاہیے کہ بغیر کسی جھجک اور تامل کے اپنی صحیح رائے جو اس سلسلے میں ہو ، لکھ دینی چاہیے ۔ خواہ وہ دوسروں کی رائے کے خلاف ہی کیوں نہ ہو ، لیکن آپ کا جواب مدلل ہوناضروری ہے ۔ اس سے ممتحن آپ سے متاثر ہوگا ۔ آپ جانتے ہیں کہ ممتحن کے متاثر ہونے کے بدلے آپ کو کیا ملے گا ؟ نمبرات زیادہ اور امتیازی کامیابی حاصل ہوتی ہے۔
الغرض یہ کہ امتحان میں صفائی اور جوابات کی تکمیل کا پورا پورا لحاظ رکھے اور ایسی چیز نہ لکھ دیجئے کہ جس سے ممتحن کے دماغ پر بُرا اثر پڑئے ۔ اگر ہم صرف ان مشوروں پر ہی عمل کریں گے تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ نہ صرف ہمیں کامیابی ملے گی ،بلکہ ہم بھی بڑے بڑے ادیبوں، شاعروں کی صف میں اپنا مقام پیدا کرسکتے ہیں اور ساتھ ہی ہمارے امتحان کی تیاری بھی انتہائی اطمینان بخش انداز میں ہوسکے گی۔ اللہ سے یہی التجا ہے کہ وہ ہمیں ہر مقصد میں کامیاب کرے ۔ (آمین)
(لکچرار اُردو۔رحمت آباد رفیع آباد ، بارہمولہ کشمیر)
رابطہ ۔ :9469123467
[email protected]>
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔