۔60ہزار ڈیلی ویجر!

عبدالقیوم شاہ
جموں کشمیر میں سرکاری ملازمین کی تعداد ساڑھے چار لاکھ اور پانچ لاکھ کے درمیان ہے۔ ان ملازمین کی تنخواہوں، ریٹارئرڈ ملازمین کی پینشن اور افسروں کے مراعات وغیرہ پر تقریباً 40 ہزار کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں، جو ہمارے کُل بجٹ یعنی  1,10,000 ہزار کروڑ روپے کا 36 فی صد ہے۔ اب ذرا غور فرمائیے کہ عوامی خدمات کے دو اہم محکموں بجلی اور پانی کی تقسیم کاری یعنی پی ڈی ڈی اور جل شکتی میں خدمات (سروس) کا 80 فی صد کام یومیہ اُجرت پر دہائیوں سے پسینہ بہارہے ڈیلی ویجرس کررہے ہیں۔

 پانی کی پائیپیں بچھانے، نُقص ٹھیک کرنے، پلانٹوں پر مرمت کرنے اور خطرناک و دشوارگذار پہاڑی بستیوں کو پینے کا پانی میسر رکھنے کے لئے جان جھوکم میں ڈالنے کا کام کوٹ پینٹ اور ٹائی پہننے والے افسر نہیں بلکہ یہی ’بندھوا مزدور‘ ملازم کرتے ہیں۔ کیا یہ سرکاری ملازم ہیں ؟نہیں۔ کیا اِنہیں بوڑھاپے میں گریچوٹی یا پینشن کی اُمید ہے؟ نہیں۔ کیا ان کی تنخواہ حسب ضرورت ہے؟ نہیں۔ کیا یہ کچھ پیسے جو انہیں دئیے جاتے ہیں، وقت پر ملتے ہیں؟ نہیں۔ آیئے !چند حقائق اور اعدادوشمار کی روشنی میں اِن بے چارے ’بندھوا مزدوروں‘ کی حالتِ زار کا جائزہ لیتے ہیں۔

افسروں کو حُوروقصور ڈیلی ویجروں کو وعدہٴ حُور :۔  1990کی دہائی کے آغاز میں اُس وقت کی گورنر انتظامیہ نے مخصوص وجوہات کی بنا پر بڑی تعداد میں لوگوں کو یومیہ اُجرت پر محکمہ بجلی اور محکمہ پی ایچ ای (جو اب جل شکتی کہلاتا ہے) میں اس قدر قلیل تنخواہوں پر انگیج کرلیا کہ یہ یومیہ اُجرت 28 سال میں بڑھتے بڑھتے فقط 225 روپے روزانہ تک پہنچ چکی ہے۔ مطلب ماہانہ 6750 روپے۔ ایسے دس ملازمین کی ماہانہ تنخواہ افسروں کے ایک دورے اور میٹنگ کے دوران تواضع پر خرچ ہوتی ہے اور یہ تنخواہیں بھی انہیں کبھی وقت پر نہیں ملتیں۔ 

گزشتہ تین سال سے جموں اور سرینگر میں ان بچارے ’بندھوا مزدوروں‘ نے مظاہرے اور ہڑتالیں کیں، لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ آج ان ڈیلی ویجروں کی کُل تعداد 60 ہزار سے زیادہ ہے اور ان کی اکثریت جل شکتی اور پی ڈی ڈی محکموں میں مایوسی اور بے بسی سے جُوجھ رہی ہے۔ 

زندگیاں ضایع ہورہی ہیں :اِن ڈیلی ویجروں میں سے بیشتر اب ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ رہے ہیں۔ ان کی حالتِ زار پر چند لمحوں کے لئے غور کیجئے تو سینہ چاکی کا من کرتا ہے۔ 

فاروق احمد ڈگہ اور محمد لطیف ڈگہ ایسے دو ملازم تھے، گزشتہ برس فاروق ڈیوٹی کے دوران زخمی ہوگئے، کمر میں درجنوں ٹانکیں لگے اور کئی ماہ کی علالت کے بعد مستقل ملازمت کی حسرت لئے انتقال کرگئے۔ اُن کے چھوٹے بھائی لطیف کی بیوی گھر چھوڑ کر چلی گئی کیونکہ تنخواہیں بند تھیں اور بالاخر طلاق ہوگئی۔ 

کوثر احمد شاہ بھی ڈیلی ویجر تھے۔ کسی نے کہا اب ڈیلی ویجروں کا کچھ نہیں ہوسکتا کیونکہ حکومت کے پاس پیسہ نہیں۔ یہ بات اُن پر شاک گزری، 49 برس کی عمر میں چل بسے۔ 

پونچھ کے محمد ریاض نے بھی ایک خبر میں سُنا کہ ڈیلی ویجروں کی زندگی ضایع ہوگئی ہے تو اُنہوں نے خودکشی کرلی۔ اُن کی لاش جموں میں چیف انجینئر کے دفتر میں ایک ہفتے تک بطور احتجاج رکھی گئی اور لواحقین نے کہا یہ خودکشی نہیں قتل ہے۔ 

اندازہ کیجئے کہ بے شمارافسروں کی کارکردگی پر چار چاند لگانے والی پیادہ فوج بنے 60 ہزار ڈیلی ویجروں کے اہل خانہ اور بیوی بچوں پر کیا بیت رہی ہوگی۔ ایک رپورٹ کے مطابق بچہ مزدوری میں سرگرم بیشتر بچے اِن ہی ڈیلی ویجروں کے ہیں اور یہ ڈیلی ویجر جب کسی محلے میں چند سو روپے کی بخشش قبول کرتے ہیں تو تہلکہ مچ جاتا ہے۔ لیکن کوئی اُن کی بے بسی اور یہ بخشش قبول کرنے کے پیچھے وجوہات کو نہیں دیکھتا۔ 

ڈیوٹی پر موت :سرکاری اعدادوشمار کے مطابق محکمہ پی ڈی ڈی کے 175 ایسے ملازمین کام کرتے کرتے حادثوں کا شکار ہوکر مرگئے جبکہ 250 عمر بھر کے لئے اپاہج ہوگئے۔ محکمہ جل شکتی کے 45  ایسے ملازم ڈیوٹی کے دوران مارے گئے جبکہ 60 عمر بھر کے لئے معذور ہوگئے۔ نہ مرنے والوں کے اہل خانہ کو معاوضہ ملا نہ اپاہج ہونے والوں کو کسی نے پوچھا کہ علاج کیسے کروگے۔

ستم یہ ہے کہ ہر سال 24 مارچ کے روز عالمی یومِ آب یعنی ورلڈ واٹر ڈے کے موقعہ پر سبھی جل شکتی ڈویژنوں میں تقاریب ہوتی ہیں، سیمینار ہوتے ہیں، فلمیں بنائی جاتی ہیں، کھانے کھلائے جاتے ہیں ، دورے کئے جاتے ہیں اور اس سب پر کروڑوں کا مصرف ہوتا ہے، لیکن سالہاسال سے غریب ڈیلی ویجروں کی بقایا تنخواہیں واگذار کرنے کے لئے پیسوں کی کمی کا بہانہ تراشا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک 50 ڈیلی ویجر خود کشی کرچکے ہیں ۔ افسوس، صد افسوس ! 

استحصال کی انتہا :پچھلے تیس سال سے جموں کشمیر کی بڑی سیاسی جماعتیں ان ’بندھوا مزدروں‘ کا ایک انوکھا استحصال کرتی رہی ہیں۔ ’’ہماری جماعت کو ووٹ دینا، ہم تم لوگوں کو ریگولر کردیں گے۔‘‘ لیکن یہ وعدے ہر الیکشن کے بعد سراب ثابت ہوتے رہے۔

 2017 میں جب حالات کے اِن ستم کے ماروں نے بی جے پی اور پی ڈی پی کی مخلوط حکومت کو اس استحصال کی جانب توجہ دلائی تو محبوبہ مفتی کی حکومت نے اس معاملے کو کابینہ کمیٹی کے سپرد کرکے SRO 520 جاری کردیا ،جس کا سادہ مطلب یہ ہے ان سبھی غریبوں کو ہُنر مند، نیم ہنرمند اور مزدوری کے زُمروں میں بانٹ کر اُسی حساب سے تنخواہیں مقرر کرکے باقاعدہ مستقل ملازم بنایا جائے گا۔ لیکن یہ بات بھی آئی گئی ہوگئی۔

ڈیلی ویج کلچر کیوں؟:یہ اپنے آپ میں ایک بھیانک استحصال ہے کہ سرکار کم اُجرت پر لوگوں سے کام کروائے اور اُن کی زبانیں اس وعدے سے بند کرتی رہے کہ عنقریب آپ کو مستقل ملازمت ملے گی۔ پھر بجٹ یا منصوبہ بندی کس چیز کا نام ہے۔ اگر وسائل نہیں تو ’بندھوا مزدروں‘ کی فوج تیار کرکے لاکھوں خاندانوں اور ہزاروں بچوں کے مستقبل کے ساتھ یہ کھلواڑ کیوں؟ 

مرکزی حکومت نے جل جیون مشن کی سالانہ بجٹ 604 روپے سے بڑھا کر 2747 کروڑ روپے کردیا ہے۔ یہ نہایت حوصلہ افزا بات ہے۔ لیکن جل جیون مشن جیسی انقلابی سکیم کو زمین کو عملی جامہ کون پہنارہا ہے؟ یہی ’بندھوا مزدور‘ محکمہ کو فعال بنا رہے ہیں لیکن ان کی آمدن کسی آستانہ کے در پر بھیک مانگنے والے سے بھی کم ہے۔ دوسری طرف افسر حکم جھاڑنے اور مہنگی گاڑیاں خریدنے میں مصروف ہوتے ہیں، اُنہیں کیا پتہ جب کوئی واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ خراب ہوجاتا ہے یا کسی بڑی پائپ میں شگاف پڑجاتا ہے تو اس وقت اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر یہی ’بندھوا مزدور‘ معاملات بحال کرتے ہیں اور افسر واہ واہی لوٹتے ہیں۔ وہ تو صرف دورے کرتے ہیں، فوٹو کھچواتے ہیں اور اخباروں میں اپنا نام دیکھ کر خوش ہوجاتے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ ڈیلی ویج کلچر کو یہیں پر روک دے۔ محض چند سیاستدانوں کے چھل کپٹ سے لاکھوں ہلاکت زدہ خاندان فی الوقت فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔ 

(رابطہ۔ 9469679449, 7780882411)

 [email protected]