آج6 ستمبرپاکستا ن کا یوم دفاع ہے۔ ستمبر کو بعض حلقے ستم گر بھی کہتے ہیں۔ہر دن اب پاکستان کے لئے یوم دفاع بن رہا ہے۔نصف صدی قبل اسی ماہ بھارتی فوج نے بین الاقوامی سرحد پار کرتے ہوئے لاہورپر قبضہ کرنے کی کوشش کی ۔جنرل محمد موسیٰ اس وقت پاک فوج کے کمانڈر ان چیف تھے۔ وہ اس آپریشن کے ایک سال بعد تک آرمی چیف رہے۔ اپنی کتاب ’’مائی ورژن‘‘ میں لکھتے ہیں کہ، بھارت نے 6ستمبر 1965ء کو جی ایچ کیو، سپریم کمانڈر فیلڈ مارشل ایوب خان کو حیران کر دیا۔ 5اور6ستمبر کی رات ساڑھے تین بجے بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا۔ ایوب خان کو پاک فضائیہ کے کمانڈر نے حملے کے بارے میں آگاہ کیا۔ انہوں نے جنرل موسیٰ کو فون کیا اور معلومات حاصل کیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو ، فارن سکریٹری عزیز احمد، آزاد کشمیر میں فوج کی بارہویں ڈویژن کے کمانڈر میجر جنرل اختر حسین ملک نے آپریشن جبرالٹر کا منصوبہ بنایا تھا۔ انہوں نے حکومت سے سفارش کی کہ وہ پاک فوج کو ریڈرز کشمیر بھیجنے کی ہدایت دے تا کہ وہاں گوریلا کارروائیاں شروع کی جائیں۔ اس ریڈ کو قبائلی ریڈ یا یلغارکے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جب یہ ریڈ شروع ہوا تو قبائلی جنگجو وادی پہنچنے لگے۔ کوئی تیاری نہیں تھی،وادی کے عوام کو بھی آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔ ان کے ہمراہ ایس ایس جی کمانڈوز بھی تھے۔ کوئی زادِ راہ اورکوئی کمک نہ تھی۔ اسی ریڈ کا نام آپریشن جبرالٹر رکھا گیا۔ اس کی وجہ تسمیہ شاید ’’جبل الطارق ‘‘ ( اسپین میںایک پہاڑ کا نام ہے جو تاریخ اسلامی کے عظیم وبہادر سپہ سالار طارق بن زیاد سے مناسبت رکھتا ہے) ہے جو فتح کی علامت ہے۔ یہ اس آپرویشن کا کوڈ نام تھا۔ اس سلسلے میں کمانڈر 12ڈویژن اختر حسین کو جی ایچ کیو کے تعاون سے پلان کا مسودہ تیار کرنے کی ہدایت جنرل موسیٰ نے دی تھی۔ جی ایچ کیو نے پلان منظور کیا۔ جنرل ایوب خان اور ان کے ملٹری سکریٹری ، سی جی ایس میجر جنرل شیر بہادر، ملٹری آپریشنز اور انٹیلی جنس جنس کے ڈائریکٹرز بریگیڈیئر گل حسن اور ارشاد احمد خان بریفنگ میں موجود تھے۔ ایوب خان آوپریشن پر تیار ہو گئے۔ بریفنگ میں کوئی سویلین موجود نہ تھا۔ منصوبہ کشمیر میں فوجی تنصیبات، مواصلات کی تباہی، کشمیریوں میں اسلحہ کی تقسیم، گوریلا تحریک کی شروعات و غیرہ کا تھا۔ اکھنور کی جان پیش قدمی اس کا حصہ نہ تھی۔ اسے آخری حربے کے طور آزمانے کی بات ہوئی۔ لیکن جب کرناہ اور کیرن ، حاجی پیر کے علاقوں پر قبضہ شروع کیا تو چھمب سے آگے اکھنور کی جانب پیش قدمی کی گئی تا کہ بھارتی دبائو کم کیا جائے۔ یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ بھارت کو کشمیرتک محدود رکھا جائے گا۔ بھارت پاکستان پر حملے کی جرأت نہیں کرے گا لیکن یہ اندازہ غلط ثابت ہوا۔ اس سے قبل پشاور میں پیراشوت ٹریننگ سکول میں ایک بریفنگ میں کشمیر میں پیرا شوٹس کی مدد سے فوج اتارنے کا منصوبہ بنا جو کہ 1956کی عرب اسرائیل جنگ جیسا ہو ۔ اس کی کامیابی کی بات کی گئی۔ جنرل موسیٰ نے کشمیر میں ریڈ سے متعلق واضح کیا تھا کہ کشمیر میں گوریلا جنگ تب ہی کامیاب ہو گی جب کشمیری اس کا حصہ بنیں گے ، تیاری کے لئے مزید وقت در کار ہے۔ گوریلا جنگ میں اگر بھارت نے سمجھا کہ وہ ہار رہا ہے تو وہ پاکستان پر حملہ کر دے گا۔ بھارت کو ہرانے کہ لئے مزید فوج ، بہتر اسلحہ اور تربیت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے دو ڈویژن فوج کی بھرتی کے لئے وزارت خزانہ سے پیسہ مانگالیکن انکار کر دیا گیا۔ آپریشن شروع کرنے سے قبل کوئی فوج بھرتی نہ ہوئی لیکن جنگ کے خاتمے کے فوری بعد اسی ماہ مزید دو ڈویژن فوج بھرتی کر لی گئی۔ جنرل موسیٰ اور جنرل شیر بہادر نے اس کی مخالفت کی لیکن ضد پر نہ اَڑے رہے۔ آپریشن کا کمال دیکھیں کہ جس قوم کو آزاد کرانا تھا اسے کچھ نہ بتایا گیا۔ اس کا اعتراف جنرل موسیٰ کی کتاب میں بھی کیا گیا ہے۔ ’’آزاد کشمیر‘‘ حکومت تک کو اس منصوبے کا علم نہ ہونے دیا گیا۔ پھر جب عوامی حمایت کا احساس ہوا تو پہلے سے قائم لبریشن سیل کا سربراہ چوھدری غلام عباس کو مقرر کیا گیا۔ انہوں نے اسے قبول نہ کیااور اس منصوبے سے لاعلمی ظاہر کی۔ اس میں فارن آفس،وزارت داخلہ اور وزارت امور کشمیر کے بعض سینئر لوگ شامل تھے۔
قائد اعظم کے سکریٹری کے ایچ خورشید نے کہا کہ ایوب خان کو کمزور کرنے کے لئے یہ منصوبہ بنایا گیا تھااور وہ ا س کے انجام سے بے خبر تھے۔ ورنہ جس ایوب خان نے بھارت کو مشترکہ دفاع کی پیشکش کی تھی ، اسے کبھی منظور نہ کرتے۔ کیا کمزور منصوبہ بندی کی گئی تھی؟ یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی کہ بھارت نے کشمیرکو بچانے کے لئے لاہور اور سیالکوٹ پر حملہ کر دیا۔ اس سے بھارت کیلئے کشمیر کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ بھارت نے کرگل اور لیہہ تک جنگ پھیلا دی۔ جب آپریشن جبرالٹر کی ناکامی پر پاکستان نے آپریشن گرینڈ سلام کے تحت مظفر آباد کے تحفظ کے لئے بھمبر، چھمب، اکھنور کی جانب پیش قدمی کی اور 8میل تک کے علاقے پر قبضہ کر لیالیکن پاک فضائیہ کو بھی با خبر نہ رکھا گیا۔ ایئر چیف مارشل(ر)انور شمیم اپنی کتاب ’’ کٹنگ ایج پی اے ایف‘‘میں لکھتے ہیں کہ فضائیہ کو آپریشن جبرالٹر سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ اس کے لئے کوئی مشترکہ منصوبہ نہ بنا۔ جو لوگ اندر بھیجے گئے وہ نہ تو مقامی زبان سے واقف تھے اور نہ راستے جانتے تھے۔ بھارت نے ’’آزاد کشمیر‘‘ کے جنوب کو شمال سے کاٹنے کے لئے درہ حاجی پیر پر قبضہ کر لیا۔
ائر مارشل (ر)اصغر خان جو آپریشن جبرالٹر سے چند ماہ قبل ریٹائر ہو گئے، نے ’’ دی فرسٹ رائونڈ، انڈو پاکستان وار ‘‘میں لکھا ہے کہ یہ پلان لانچنگ پیڈ پر ہی ناکام ہو گیا تھا۔ یہ دعویٰ کیا گیا کہ آپریشن فول پروف ہے۔ ہر کوئی اپنے کردار سے ہی باخبر ہے، دشمن منصوبہ کو کبھی نہ جان سکے گا۔ سچ یہ ہے کہ پہلے چار رضاکار بھارت نے پکڑے۔ انہوں نے 8اگست 65ء کو بھارتی فوج کی جانب سے سرحد پار کرنے سے ایک ماہ قبل ہی آل انڈیا ریڈیو پر تمام منصوبہ بیان کر دیاتھا۔ پھر بھی اسی پر عمل ہوا۔میاں ارشاد حسین اس وقت دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر تھے جو بعد ازاں وزیر خارجہ بنے ۔ انہوںنے77ء میں مطالبہ کیا تھاکہ 65ء کی جنگ کی وجوہات کی عدالتی تحقیقات کی جائے۔ کیوں کہ انھوں نے ترکی کے سفارت خانے کے ذریعے 4ستمبر1965ء کو فارن آفس کوخبر دار کیا تھاکہ بھارت پاکستان پر حملے کا پلان بنا رہا ہے لیکن کوئی توجہ نہ دی گئی۔ پھر جنرل موسیٰ کا یہ کہنا کہ بھارت نے حملہ کر کے حیران کر دیا کتنا درست ہو سکتاہے؟ یہ نصف صدی کی کہانی ہے۔ کوئی ہے جو ماضی سے سبق سیکھنے کی کوشش کرے؟
عدالتی تحقیقات کون کرے گا۔ 1947سے فائلیں بند ہیں۔ کوئی کمیشن ، کوئی انکوائری نہیں۔ پاکستان ٹوٹنے پر محمود الرحمان کمیشن بنا۔ اس پر کیا ہوا۔ سب جانتے ہیں۔ غیر جانبداری نہ ہو تو یہی ہوتا ہے۔ تحریک آزادی کشمیر میںکئی اتار و چڑھائو آئے۔ لیکن غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا جا تا ہے۔ لاکھوں افراد کی قربانیاں دی گئی ہیں۔ شہداء کے مشن کو پورا کرنے کے لئے پاکستان کو بھی درست سمت کا تعین کرنا ہو گا۔ اگر چہ پاکستان کو متعدد داخلی اور خارجی چیلنجز در پیش ہیں، تا ہم کشمیر پر بھارت کا قبضہ بہت بڑا چیلنج ہے۔جس سے پاکستان کی سلامتی ہر وقت دائو پر لگی رہے گی۔ اس لئے پاکستان کشمیر کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کر سکتا ہے۔ مسلہ کشمیر کا حل پاکستان کی پہلی ترجیح نہ رہی تو جنگ کے بادل اس خطے پر منڈلاتے رہیں گے۔
آج ایک بار پھر ستمبر آ گیاہے۔ یوم دفاع پر بہادری کے کارنامے بیان ہوتے ہیں۔ سچ یہ بھی ہے کہ زندہ قومیں ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کرتی ہیں۔ تاریخ سے رہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ عظیم لوگ ہی اپنی غلطی کا احساس بھی کرتے ہیں ، اسے تسلیم بھی کرتے ہیں۔ کا رکر دگیوں کے جائزے لئے جاتے ہیں۔ عرق ریزی سے کیس سٹڈیز کی طرف توجہ دی جاتی ہے۔ انسان بشر ہے، غلطیوں کا پتلا ہے۔کوتاہی ہو سکتی ہے، سوچے سمجھے کوئی غلطی نہیں کرتا لیکن یہ خطرناک اور ناقابل معافی غلطی ہوتی ہے کہ غلطی کو ماننے سے ہی انکار کر دیا جائے یا غلطی کو درست قرار دے دیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم نے نہ سدھرنے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔ غلطی تسلیم کرنے کا یہ مطلب ہو گا کہ ہم میں اصلاح کرنے کی ہمت ہے۔ یہی حوصلہ مندی آئیندہ کی حماقتوں سے بھی بچاتی ہے۔ غلطیوں کا ازالہ بھی ضروری ہوتا ہے۔
ؕ���