5ریاستوں کے اسمبلی نتائج کا یہ پیغام صاف ہے کہ بی جے پی کےدن جانے والے ہیں اور کانگریس کے دن آنے والے ہیں۔ مودی کا یہ دعویٰ کہ ملک کے سب سے بڑےعہدے کے لئے2024 تک کوئی جگہ خالی نہیں ہے، جملہ بازی ہی نکلا۔نریندر مودی نے 2014 میں اپنے حامیوں اور کارکنوں سے ’’کانگریس مکت بھارت‘‘ کا وعدہ کیا تھا، کوئی ساڑھے چار سال بعد لوگوں نے بی جے پی کو دروازہ دکھانا شروع کر دیا۔ راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، تلنگانہ اور میزورم میں اسمبلی انتخابات کے نتائج صاف اشارہ دے رہے ہیں کہ ملک کے بڑے حصے میں ووٹروں کے رجحانات بدل رہے ہیں، صاف ہے کہ ووٹروں کی پہلی پسند بی جے پی نہیں رہی ہے اور یقینی طور پر نریندر مودی کا طلسم اپنی تاثیر کھو رہا ہے، وہیں کانگریس نے تیزی سے شاندار واپسی کی ہے اور راہل گاندھی وزیر اعظم نریندر مودی کے لئے ایک بڑے چیلنج کے طور پر سامنے آئے ہیں۔راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کانگریس نے واضح اکثریت حاصل کر لی ہے اور وہاں کانگریس حکومت بنانے کی قواعد بھی شروع ہو گئی ہے۔ مدھیہ پردیش میں صاف ہوگیا ہے کہ بی جے پی اپنے ڈیڑھ دہائی پر محیط تسلط کھو چکی ہے۔ تلنگانہ میں بی جے پی کا کوئی وجود ہی نہیں تھا، اسی لئے ان انتخابات میں بھی اس کے ہاتھ کچھ نہیں لگا۔ پانچ ریاستوں کے اسمبلی نتائج سے یہ پیغام صاف ملا ہے کہ بی جے پی کے دن جانے والے ہیں اور کانگریس کے دن پھر پوری طاقت کے ساتھ واپس آنے والے ہیں۔کانگریس کی قیادت میں اپوزیشن نے متحد ہونا شروع ہو کردیا ہے اور اگلے سال کے لوک سبھا انتخابات میں نریندر مودی حکومت کو اکھاڑ پھینکنے کا عہد کیا جا رہا ہے۔ ملک میں اس ڈرامائی تبدیلی کے پس پردہ کون سی وجوہات کارفرما ہیں؟ نریندر مودی فی ا لحال وزیر اعظم ہیں اور 2014میں انہوں نے اکیلے اپنے دم پر بی جے پی کو تین دہائی بعد پہلی بار مکمل اکثریت کا ذائقہ چكھايا، کیونکہ ملک نے مودی پر آنکھ بند کر کے بھروسہ جتایا اور متوسط طبقہ کی خواہشات نے انہیں اقتدار کی چوٹی پر پہنچادیا۔سچ مانئے تو 2014 میں مودی ناقابل شکست نظر آ رہے تھے، متوسط طبقے نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا، بزنس کلاس اور کارپوریٹ انڈیا نے انہیں مسیحا قرار دیا اور غریبوں کو یہ اُمید جاگی تھی کہ مودی کے آنے سے ان کی زندگی بدل جائے گی لیکن مودی جی نے سبھی کو مایوس کیا، ملک کا متوسط طبقہ سب سے زیادہ پریشان ہے کیونکہ معیشت کا توازن بگڑ چکا ہے، نوجوان طبقہ اپنے مستقبل کو لے کر پریشان ہے اور اسے صحیح راستہ نظر نہیں آ رہا، روزگار کے مواقع کم ہو رہے ہیں، بے روزگاری کا سانپ پھن کھولے کھڑاہے، نوٹ بندی اور جلد بازی میں لاگو جی ایس ٹی نے کاروبار کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، گاؤں کے غریب اور کسان خودکشی کرنے پر مجبور ہیں ، جب کہ چھوٹے شہروں کے لوگ آج بھی اپنے اکاؤنٹ میں 15 ؍لاکھ روپے جمع ہونے کے انتظار میں ہیںجس کاوعدہ مودی نے بڑے طمطراق سے دیاتھا۔دراصل ہوا یہ کہ لوگ نریندر مودی ملک کے جھانسے میں آگئے مگر جھانسہ ایک بار ہی کام کرتا ہے۔ مودی نے 2014 کے انتخابات سے قبل خود کی ایسی مارکیٹنگ کی کہ لوگ سحرزدہ ہوگئے اور اسی کا فائدہ اٹھا کر انہوں نے اقتدار حاصل کرلیا، مگر کہتے ہیں کہ آپ کچھ لوگوں کو تو کبھی کبھی بے وقوف بنا سکتے ہو، لیکن سب لوگوں کو ہر بار بے وقوف نہیں بنا سکتے۔ آخر کار ہم وطنوں نے نریندر مودی کو پہچان لیا اور اب وہ انہیں سبق سکھانے کی تیاری میں ہیں۔ پانچ ریاستوں کے تازہ انتخابی نتائج اس کی مثال ہیں کہ 2019 میں کیا ہونے والا ہے۔صرف نریندر مودی کی حقیقت ہی عیاں نہ ہوئی ہےبلکہ اس کا خمیازہ بی جے پی کو بھی اٹھانا پڑا ہے، شیوراج سنگھ چوہان، وسندھرا راجے، رمن سنگھ جیسے بی جے پی کے علاقائی رہنماؤں کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ مودی نے نہ صرف ان علاقائی لیڈروں کو آگے نہیں بڑھنے دیا بلکہ ان کے ہاتھوں اپنے تمام منصوبوں کو لاگو بھی کرایا۔ بلا شبہ ہندی بیلٹ میں ان لیڈروں کی شکست ہونا بی جے پی کے لئے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ یہ وہی ریاستیں ہیں جہاں سے بی جے پی کو قومی سطح پر خود کو قائم کرنے میں مدد ملی تھی۔
ملک نے بی جے پی۔سنگھ کی طرف سے شروع کئے گئے ہندوتوا کو بہت بھگت لیا اور لوگوں کو اس کی اصلیت اور نیت دونوں ہی صاف نظر آنے لگے ہیں۔ ہندوتوا کے ساتھ دقت یہ ہے کہ اس کی جڑیں آج بھی زمانہ قدیم میں ڈھونڈی جاتی ہیں اور یہ ایسے ہندوستانیوں کی سوچ سے مطابقت نہیں ركھتیں جو جدید اور ترقی یافتہ دنیا میں نئے امکانات تلاش کرتے ہیں۔ گئوركشا کی سیاست، سنت سادھو کانفرنس کچھ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر سکتی ہیں، لیکن متوسط طبقہ کو ان مُدوں سے کوئی لینا دینا نہیں۔آخرکار ہندوستان تھوڑے ہی کوئی پاکستان ہے کہ اگر وہاں کے حکمران طاقت کے زعم میں آئین کی دھجیاں اُڑاتے پھریں اور آئینی اداروں کو کمزور کریں تو بھی لوگوں کو فرق نہیں پڑتا، ہمارے یہاں تو لوگ اس چیز کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ارجت پٹیل، جسٹس چیلامیشور جیسے بہت سارے لوگ ہیں جو اداروں کی آزادی کے لئے سینہ تان کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ مودی اور ان کی بی جے پی نے میڈیا کو اپنی مٹھی میں کر رکھا ہے، جس کے ذریعے وہ حقیقت پر پردہ ڈالتے ہیں لیکن ایک عام ہندوستانی کے ضمیر کو کیسے قید کا جاسکتا ہے جس کے پاس آج میڈیا سے کہیں زیادہ ٹھوس سمجھ ہے اور جو صحیح اور غلط کو اچھی طرح پہچانتا اور جانتا ہے۔نفرت کی سیاست بھلے ہی کچھ وقت کے لئے لوگوں کی نظروں پر پردہ ڈال دے لیکن یہ ملک کی صدیوں پرانی ثقافت اور اعتماد کو ہلا نہیں سکتی۔ جمہوریت ہی ہندوستانی اقدار اور گنگا جمنی تہذیب کی بنیاد ہیں اور ہندوتوا کی سیاست اس بنیاد پر ٹک ہی نہیں سکتی۔مودی اور سنگھ نے ہندوستانی اقدار کو تبدیل کرنے کی جرأت کی ہےاور لوگ انہیں سبق سکھانے کے لئے بے چین نظر آرہے ہیں۔ہو سکتا ہے 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں نریندر مودی اور ان کی بی جے پی کو خارج کرنا ابھی جلدبازی ہو لیکن ملک بدل رہا ہے اور اس کی شروعات کم از کم ان پانچ ریاستوں میں تو ہو چکی ہے، جسے 2019 کی ابتدا ئیہ کہا جاسکتا ہے۔