رام مادھو الزامات ثابت کرے ورنہ معافی مانگے
سرینگر// ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ گرینڈ الائنس کے ذریعہ حکومت تشکیل دینے کا مقصد ریاست کی خصوصی پوزیشن کا دفاع کرنا اور ریاست کو موجودہ غیریقینی صورتحال سے باہر نکالنا تھا۔عمر عبداللہ نے کہا کہ نیشنل کانفرنس کے پاس گورنر کے فیصلے کے خلاف عدالت جانے کا کوئی جواز نہیں تاہم پی ڈی پی اگر چاہیں تو وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاسکتی ہے۔ عمر نے گورنر کے ہارس ٹریڈنگ اور پیسوں کے لین دین کے انکشافات کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کردیا ۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی عوام کو یہ جاننے کا حق حاصل ہے کہ کون لوگ ہارس ٹریڈنگ میں ملوث تھے اور کن لوگوں کو خریدا جارہا تھا۔عمر عبداللہ نے کہا کہ راج بھون کی فیکس مشین اشاروں پر چلتی ہے، جو فیکس تو لیتی نہیں ہاں اسکے ذریعے فیکس کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے رام مدھو سے کہا کہ وہ الزامات کے شواہد پیش کرے ورنہ معافی مانگے۔
سیاسی اتحاد کا پس منظر
سرینگر میں ایک پریس کانفرنس کے دوران عمر عبداللہ نے نئی سرکار کیلئے ہو رہی پیش روفت کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے کہا ’ ’حقیقت یہ ہے کہ جب سے بی جے پی نے پی ڈی پی کے ساتھ رشتہ توڑا ہے، تب سے ہماری کوشش تھی کہ اسمبلی تحلیل ہو اور جب حالات بہتر ہوں تو یہاں نئے انتخابات کی تیاری کی جائے۔ لیکن یہاں کی سیاسی جماعتوں کے اوپر کچھ لوگوں نے تلوار لٹکا رکھی ، کبھی جوڑ توڑ کی سیاست کی بات کی جاتی تھی تو کبھی لیڈران کو خریدنے کی بات کی جاتی رہی، ریاست جموں وکشمیر نے اس کا خمیازہ پہلے ہی بھگتا ہے‘‘ ۔عمر عبداللہ نے کہا ’’ میں تاریخ دہرانا نہیں چاہتا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس طرح سے اس ریاست کے ساتھ سازشیں ہوئیں، اس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا ’’ ابتدا میں جب یہ باتیں چلیں کہ این سی، پی ڈی پی اور کانگریس مل کر سرکار تشکیل دیں تواُس وقت ہم اس کے حق میں نہیں تھے اور ہماری یہ کوشش تھی کہ نئے الیکشن ہوں اور لوگ دوبارہ فیصلہ کرکے ایک نئی سرکار بنائیں‘‘ ۔ انہوں نے کہا ’’ پچھلے ایک ڈیڑھ ماہ سے ہم لوگوں سے یہ سن رہے تھے کہ وہ تنگ آچکے ہیں‘‘۔انہوں نے کہا ’’ جس طرح کی سازشیں رچائی جا رہی تھیں، جس طرح کا ماحول بنایا جا رہا تھا، جس طرح ریاست کی خصوصی پوزیشن کو بچانے کے بجائے نقصان پہنچا جا رہا تھا، جس طرح 35Aکو سپریم کورٹ میں تحفظ دینے کے بجائے اس کو اور کمزور کیا جا رہا تھا ، جس طرح ریاست کے بھائی چارے کو زک پہنچانے کی کوشش کی جا رہی تھی ،جس طرح ہمارے آپسی بھائی چارے کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی ، جس طرح کشمیری قوم کو نہ صرف ملک میں بلکہ پوری دنیا میں بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی اس سب کے ہوتے ہمیں لوگوں کی طرف سے یہ مشورے آرہے تھے کہ اس کا کوئی حل نکالا جائے، جس کے بعد این سی اور پی ڈی پی کے درمیان بات چیت شروع ہوئی‘‘۔ سابق وزیر اعلیٰ نے کہا ’’ ہم نے پی ڈی پی سے صاف طور پر یہ کہہ دیا تھا کہ اقتدار ہماری منزل نہیں ہے‘‘ ۔ انہوں نے کہاکہ بات چیت کے دوران فاروق صاحب سے یہ کہا گیا تھا کہ وہ ریاست کے وزیر اعلی بنیں اور ان کے انکار کے بعد مجھے بھی یہ آفر دی گئی تھی اور میرا جواب تھا’’ جس کرسی کو میں نے لوگوں کے حکم کے مطابق چھوڑا اس پر دوبارہ میں تب بیٹھوں گا جب لوگوں کی اجازت ہو گی لیکن نئی حکومت بننے کیلئے ہم مدد کرنے کیلئے تیار ہیں اور اس کو ہم باہر سے حمایت دیں گے‘‘ ۔انہوں نے کہا کہ ایجنڈا صرف یہی تھا کہ آرٹیکل 35Aکو جنوری میں سپریم کورٹ میں مکمل اور صحیح طریقے سے دفاع کرنے کے بعد ہم چیف منسٹر سے کہتے کہ وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں، اس کے بعد ہم اسمبلی کو تحلیل کرنے کیلئے گورنر سے رجوع کرتے تاکہ ایک ہی وقت میں اسمبلی اور پارلیمنٹ کے انتخابات ہو جاتے ،نئی سرکار بنتی جوریاست کو اچھے طریقے سے ٹھیک طرح چلا سکے ۔انہوں نے کہا ’’ ہماری طرف سے تھوڑی تیاری کی گئی تھی ،ہم نے کورگروپ کی میٹنگ طلب کرنی تھی جس میں پارٹی لیڈران سے آخری صلاح اور اجازت حاصل کرنے کے بعد یہ کام انجام دینا تھا، اتنے میں پی ڈی پی کو شاید خبر آئی کہ ایک نئی سازش کی جا رہی ہے نئی سرکار کے حوالے سے ،تو انہوں نے ہم سے بات کی اور کہا کہ ہم فوری طور گورنر کو ایک خط بھیج رہے ہیں اور آپ ہمیں اپنا تعاون تحریری طور پر لکھ کر دیں ، ہم نے اُن سے کہا کہ میں فوری طور پر آپ کو اپنا تحریری تعاون نہیں دے سکتا ہوں، کیونکہ ابھی مجھے کور گروپ اور لیجسلیچر پارٹی ممبران کی اجازت کی ضرورت ہے اور ہم کل تک تمام لوازمات مکمل کر دیں گے لیکن آج ہم آپ کو یہ تعاون نہیں دے سکتے ‘‘۔تاہم ایک خط پی ڈی پی صدر کی طرف سے راج بھون کو بھیجا گیا جو شاید پہنچانہیں ۔
ہارس ٹریڈنگ کی تحقیقات ہو
گورنر کی وضاحت کہ الگ الگ سیاسی سوچ رکھنے والی جماعتیں ایک ساتھ کیسے آسکتی ہیں؟ ، عمر عبداللہ نے سوالیہ انداز میں کہا’’ جناب آپ نے یہ سوال2015میں پی ڈی پی اور بی جے پی سے نہیں پوچھا، جب اُس وقت دو الگ سیاسی سوچ رکھنے والی پارٹیاں سرکار بنا سکتی تھیں تو پھر پی ڈی پی ، این سی اور کانگریس کے کئی معاملات پر تنائو کم ہے ہم کیوں ایک ساتھ نہیں جڑ سکتے‘‘ ۔ہارس ٹریڈنگ معاملے پر انہوں نے کہا کہ اس سارے معاملے کوعوام کے سامنے لایاجاناچاہئے تاکہ لوگوں کویہ پتہ چل سکے کہ ممبران اسمبلی کوخریدنے کیلئے کون پیسے دے رہاتھا،اوریہ پیسہ کہاں سے اورکس کی ایماء پرہارس ٹریڈنگ کیلئے آیاتھا۔عمرعبداللہ کاکہناتھاکہ عام لوگ بھی جانناچاہتے ہیں کہ ہارس ٹریڈینگ کامحرک کون تھا؟۔سابق وزیراعلیٰ نے کہاکہ اگرحکومت سازی یانئی سرکاربنانے کیلئے کوئی ہارس ٹریڈنگ ہورہی تھی تواس معاملے کی تحقیقات کرائی جانی چاہئے۔انہوں نے کہا کہ اقتدار نیشنل کانفرنس کی منزل نہیں تھی اور نہ ہی ہم اس سرکار میں شامل ہونے جا رہے تھے ان کا کہنا تھا کہ ہمارا مقصد یہی تھا کہ اس ریاست کو ہم اس دلدل سے نکالیں‘‘ ۔انہوں نے کہا کہ وہ یہ جانتے تھے کہ پی ڈی پی کو حمایت دے کر اگر سب سے زیادہ کسی کا نقصان ہوتا تو وہ ہمارا ہوتالیکن ہم نے یہ فیصلہ پارٹی کے مفاد کیلئے نہیں بلکہ ریاست کی مفاد کیلئے کرنا تھا ۔
رام مادھو وضاحت کرے
انہوںنے کہا کہ یہ انتہائی بد قسمتی کی بات ہے کہ بھاجپا کے ایک سینئر لیڈر نے کہا کہ ہم پاکستان سے ہدایات لے رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ میں رام مادھو اور اْن کے ساتھیوں کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ شواہد کے ساتھ اس الزام کو ثابت کریں۔عمر نے کہا’’ مرکزمیں بی جے پی کی سرکارہے اوراُن کے پاس’ را‘،’ این آئی اے‘ اور’ آئی بی‘بھی ہے،اور’سی بی آئی‘ بھی اسوقت بھاجپا کے کنٹرول میں ہے۔ تو اگر آپ(بھاجپا) میں ہمت ہے تو عوام کے سامنے ثبوت رکھیں‘‘۔ عمرعبداللہ نے کہاکہ اگررام مادھواوراُنکی جماعت بی جے پی کے پاس اپنے عائدکردہ الزام ثابت کرنے کی ہمت نہیں تورام مادھواوراین سی وپی ڈی پی پرالزام لگانے والے سرعام معافی مانگیں‘‘۔انہوں نے رام مادھوکوچیلنج کرتے ہوئے کہا’’ دم ہے توالزام ثابت کرکے دکھائو،ورنہ یہ بزدلی کی سیاست مت کریں،بہت لوگ آپ جیسے دیکھے ہیں‘‘۔عمرعبداللہ کاکہناتھاکہ نیشنل کانفرنس کی قربانیوں کوکوئی نظراندازنہیں کرسکتا۔انہوںنے رام مادھوسے مخاطب ہوکرکہا’’آپ میرے ساتھیوں کی قربانیوں کی تذلیل کررہے ہیں جنہوں نے پاکستانی ہدایات ٹھکراکر زندگیاں قربان کی ہیں‘‘۔
یہ کیسی فیکس مشین ہے؟
عمر عبداللہ نے کہا ’’ پہلی بار ہوا ہے کہ فیکس مشین کی خرابی جمہوریت کی موت کا وجہ بن گئی، یہ عجیب سی فیکس مشین ہے جو اشارے سے خراب ہوجاتی ہے، اور پھر اشارے پر چلنا شروع ہو جاتی ہے ، ایسا ہے کہ حکومت بنانے کیلئے جو لیٹر بھیجی جاتی ہے وہ پہنچتی نہیں اور اسمبلی تحلیل کرنے والا آڈر اسی مشین سے آجاتا ہے، یہ فیکس مشین یکطرفہ ہے ،اس میں آئوٹ گوئینگ ہے ،ان کمنگ نہیں،اس خاص فیکس مشین کے بارے میں تحقیقات ہونی چاہئے‘‘۔ان کا کہنا تھا کہ جو پیش رفت آج ہم کر رہے تھے وہ 2015میں کی ہوتی تو آج یہاں ایسے حالات نہ ہوتے ۔
پی ڈی پی فیصلہ کرے
عمرعبداللہ کاکہناتھا ’’یہ فیصلہ پی ڈی پی کولیناہے کہ وہ گورنرکی جانب سے حکومت سازی کاموقعہ دینے کے بجائے اسمبلی تحلیل کئے جانے کے اقدام کیخلاف عدالت میں جاتی ہے یا نہیں ۔عمرعبداللہ کاکہناتھا’’گورنر کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا فیصلہ پی ڈی پی کو ہی لینا ہے‘‘۔انہوں نے کہاکہ اگرپارلیمانی انتخابات سے قبل اسمبلی انتخابات کراناممکن نہیں توکم سے کم آئندہ پارلیمانی(لوک سبھا)انتخابات کے ساتھ ہی ریاستی اسمبلی کیلئے بھی انتخابات کرائے جائیں ۔پریس کانفرنس میں علی محمد ساگر چودھری رمضان کے علاوہ دیگر اعلی افسران بھی وہاں موجود تھے ۔