غلام محمد
سوپور // 28سال کے طویل عرصے کے بعد شمالی کشمیر کے ایک بہت بڑے سیاسی گھرانے کا کوئی شخص اسمبلی یا پارلیمان کے ایوان تک پہنچ گیا ہے لیکن اس بار کانگریس کا جھنڈا لیکر نہیں بلکہ این سی کا جھنڈا تھامے ہوئے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ کار فیملی کانگریس کیساتھ 40سال کے طویل عرصے تک وابستہ رہی ہے۔کشمیر کے ایک معروف سیاسی خانوادے ’ سوپور کی کار فیملی‘ کے جموں کشمیر کی سیاست میں گہرے نقوش ہیں۔ غلام رسول کارجموں کشمیر کی سیاسی افق پر بہت بڑی سیاسی شخصیت تھے۔جن کی سیاسی زندگی 1947سے قبل شروع ہوئی تھی۔ انہیں یہ اعزاز حاصل تھا کہ وہ 1951میں جموں کشمیر آئین ساز اسمبلی کے رکن بنے اور 2015میں فوت ہونے کے وقت وہ آئین ساز اسمبلی کے اُس وقت زندہ رہنے والے واحد رکن تھے۔غلام رسول کار 1957میں جموں کشمیر اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔وہ1965-71 اور 1972-75تک ریاسی وزیر بھی رہے۔انہیں 1984میں راجیہ سبھا کیلئے منتخب کیا گیا اور وہ 1987تک رکن رہے۔وہ 1996میں پارلیمنٹ کیلئے شمالی کشمیر سے رکن منتخب ہوئے۔وہ کئی برسوں تک جموں کشمیر پردیش کانگریس کے صدر بھی تھے۔غلام رسول کار کے خاندان میں اب 28سال کے بعد کوئی شخص ایوان اسمبلی میں داخل ہونے جارہا ہے، لیکن اس بار کانگریس کی میراث نہیں بلکہ نیشنل کانفرنس کی سیاست کو آگے بڑھانے کیلئے۔ نو منتخب رکن اسمبلی انکے فرزند ارشاد رسول کار دلی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔ ارشاد رسول کار نے سوپور علاقے میں کئی برسوں تک رضاکارانہ طور پر متعدد سماجی کام کئے اور ہر ایک طبقے کیساتھ منسلک رہے۔ بطور آزاد امیدوارپچھلے انتخابات میں صرف چند سو ووٹوں کی فرق سے کامیابی حاصل نہ کر سکے لیکن اس بار تاریخی فتح حاصل کی۔ارشاد رسول کار نے جموں کشمیر میں نیشنل کانفرنس کے کسی بھی امیدوار کی بہ نسبت سب سے زیادہ (20,000)سے زیادہ ووٹوں کے فرق سے جیت درج کی ہے، جو ایک ریکارڈ ہے۔جبکہ وادی میں وہ کانگریس کے غلام احمد میر کے بعد دوسرے نمبر پر رہے۔20ہزار ووٹوں کے فرق سے سوپور جیسی نشست،جہاں کم ووٹوں کی شرح رہی، بہت بڑی کامیابی تصور کی جارہی ہے۔ارشاد رسول کار کی کامیابی میں جہاں اہل سوپور کا بہت بڑا ہاتھ ہے، کہ قصبے کو 24سال بعد جموں کشمیر اسمبلی میں نمائندگی ملی ہے، وہیں انکی بہن مسرت رسول کار کا بھی کلیدی کردار رہا۔ مسرت کار سوپور میونسپل کمیٹی کی چیئر پرسن رہی، جس کے دوران انہوں نے سوپور کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کی انتھک کوششیں کیں۔