اسد مرزا
جس اعتماد کے ساتھ ملک میں بی جے پی کی اعلیٰ قیادت وزیر اعظم نریندر مودی کی رہنمائی میں 2024 میں انتخابی میدان میں اتری تھی،اس غرور اور اعتماد کو عام ووٹروں نے توڑ دیا اور ساتھ ہی ملک کو مزید عدم برداشت اور اکثریت پرستی کی کھائی میں گرنے سے بچا لیا۔ یہ سب تب ہوا جب کہ ایک خدمت گزار میڈیا کے باوجود، جو پوری انتخابی مہم کے دوران حکمراں جماعت کا ترجمان بنا رہا اور جس نے ایک بار یہ انتخابی عمل ختم ہونے کے بعد، مودی کے نعرے ‘اب کی بار 400 پار’ کے مطابق بی جے پی کے لیے 400 سے زائد نشستوں کی پیشین گوئی کرنا شروع کردی تھی۔اور جب انتخابات کے حقیقی نتائج آنا شروع ہوئے تو اسی میڈیا نے محض چار گھنٹوں میں اپنے سُر بدلنے شروع کردیے۔ یہاں سب سے پہلے، ہمیں اس حقیقت کو نہیں بھولنا چاہئے کہ 2014 اور 2019 میں جو مرکزی حکومت بنی تھی وہ بی جے پی کی حکومتیں نہیں تھیں بلکہ این ڈی اے کی قیادت والی حکومتیں تھیں اور بی جے پی نے دانستہ طور پر سے اسے بی جے پی کی قیادت والی حکومت کے طور پر پیش کیا حالانکہ وہ این ڈی اے کی سب سے بڑی پارٹی تھی۔دوسری بات یہ کہنا کہ بی جے پی کو آنے والے نتائج کا کوئی اندازہ نہیں تھا، یہ بھی ایک غلطی ہوگی۔ یہ اس حقیقت سے ظاہر ہوتا ہے کہ انتخابی عمل کے پہلے دو مرحلوں کے فوراً بعد پی ایم مودی نے فوری طور پر اپنے سُر اور اپنی حکمت عملی بدل لی اور اپنی تقریروں کے ذریعے فرقہ پرستی کے بیج بونے کے اپنے پرانے طریقے کا سہارا لینا شروع کردیا، اپنی تقریروں میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا، روئے دھوئے اور خود کے بھگوان ہونے کا دعویٰ بھی کردیا تھا۔تاہم، انتخابی نتائج سے ثابت ہوتا ہے، ان کے سارے پینترے ان کے خلاف کام کرگئے۔ مزید برآں، یہاں زیادہ ضروری بات یہ ہوگی کہ ان عوامل کا تجزیہ کیا جائے، جو بی جے پی کی شکست کے ذمہ دار ہیں، اور جو درحقیقت اس حقیقت کو بھی ثابت کریں کہ ہندوستانی مسلمان یکساں طور پر ووٹ نہیں دیتے ہیں۔مزید یہ کہ 2024 میں 78 مسلم امیدوار میدان میں تھے جن میں سے 26 مسلم امیدواروں نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی جبکہ 2019 کے انتخابات میں 115 مسلم امیدواروں نے انتخابات میں حصہ لیا تھا اور 26ہی فتح یاب ہوئے تھے۔
2024 میں جیتنے والے مسلم امیدواروں کی جیت کی ایک وجہ کانگریس کی رہنمائی میں انڈیا نامی اتحاد تھا۔ پچھلے انتخابات میں مسلمانوں نے عام طور پر سماج وادی پارٹی یا کانگریس کو ووٹ دیا تھا۔ لہٰذا، 2019 لوک سبھا میں، مسلم ووٹ کانگریس اور ایس پی کے درمیان تقسیم ہوئے، کیونکہ وہ الگ الگ لڑے تھے۔ لیکن اس بار ایس پی اور کانگریس ساتھ رہے، اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ مسلم ووٹ منقسم نہیں ہوا اور با اثر رہا۔لیکن اس کے باوجود ایسے 24 انتخابی حلقے ہیں جہاں پر کہ مایاوتی کی بی ایس پی نے انتخابات کا فیصلہ بی جے پی کے حق میں کروایا۔
2024 میں مسلمانوں کے ایک ساتھ آنے کی وجوہات ایسے دور میں تلاش کرنا زیادہ مشکل نہیں ہے جس کی علامت رام مندر کی تقدیس اور تمام شعبوں میں ہندوتوا کے بیانیے کے غلبے کی بنیاد بنا۔ پالیسی کی سطح پر، شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) پر مودی حکومت کے اقدامات کے بارے میں خدشات پیدا ہوئے تھے۔ بہت سے لوگوں نے ان اقدامت کے ذریعے مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے کی سرکاری چال کے طور پر دیکھا۔ اس کے علاوہ،اس دور میں اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف ہونے والے لنچنگ کے واقعات نے بھی بی جے پی کے خلاف ہوا بنانے میں کام کیا۔
چوٹ اور بیگانگی کا نتیجہ واضح طور پر ووٹنگ کے انتخاب کو متاثر کر تا ہے۔ مثال کے طور پر، مغربی بنگال میں، سی اے اے کے نفاذ سے بی جے پی کو ہندو پناہ گزینوں کی اکثریت والے سرحدی اضلاع میں اپنے ووٹ کی بنیاد کو مضبوط کرنے میں مدد ملی، لیکن اس کے نتیجے میں ممتا بنرجی اور ٹی ایم سی کے پیچھے مسلم ووٹوں کی اکثریت نے مستعدی سے انہیں حمایت دے کرٹی ایم سی کو فتح دلائی۔ مہاراشٹر میں، خاص طور پر ممبئی میں، مسلمان شیو سینا کے ادھو ٹھاکرے دھڑے کی طرف جھکتے نظر آئے، جو اس کے پرانے دشمن کی میراثی پارٹی ہے،لیکن اس مرتبہ وہ بی جے پی کے اتحاد میں شامل نہیں تھی اس لیے مسلمانوں نے اس کے امیدواروں کی حمایت کی ۔
بہر حال، اگرچہ آپ کو خوشی محسوس ہو سکتی ہے کہ اتنے سارے مسلم امیدوار جیت گئے، لیکن یہ لمحہ نام نہاد مسلم مذہبی، سیاسی اور سماجی رہنماؤں اور یہاں تک کہ عام مسلمانوں کو بھی توقف اور غور و فکر کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے، چاہے بی جے پی کا نقصان ان کی وجہ سے ہوا ہے یا نہیں ۔
اس بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ غیر بی جے پی پارٹیوں نے بی جے پی کے پیچھے ہندو ووٹروں کے اکٹھے ہونے سے بچنے کے لیے مسلمانوں کو بہت زیادہ انتخابی ٹکٹ دینے سے گریز کیا۔مزید برآں، کانگریس پارٹی، سماج وادی پارٹی، راشٹریہ جنتا دل، ترنمول کانگریس پارٹی، دراوڑ منیترا کزگم اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) – تمام بڑی اپوزیشن پارٹیوں کے انتخابی منشور کا تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر نے لفظ ’مسلمان‘ اپنے منشوروں میں استعمال نہیں کیا۔ساتھ ہی وہ مسلمانوں کو درپیش مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے بھی نظر آئے۔ سماج وادی پارٹی نے انتخابی مہم کے لیے ایک نئی کیچ لائن بنائی: پچھڑا، دلت اور الپاسنکھیک یعنیPDA اور اپنی مسلم نواز تصویر سے چھٹکارا پانے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ کانگریس پارٹی، جو ہندوستانی اتحاد کی قیادت کرتی ہے، نے بھی اپنے منشور میں لفظ’ مسلم‘ استعمال کرنے سے گریز کیا۔ اس کا فوکس سماجی مساوات اور ملازمتوں اور دیگر سرکاری اداروں میں غیر مراعات یافتہ ذات کے ہندوؤں کی نمائندگی کرنے پر رہا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے ہندو اکثریتی دباؤ نے مسلم مسائل کو عوامی گفتگو اور منظر نامے سے یکسر غائب کر دیا ہے۔
میں مختلف سیاسی پارٹی کے امیدواروں اور رائے دہندگان کی حیثیت سے مسلمانوں سے بی جے پی کی نفرت کے زیادہ واضح سوال میں نہیں جانا چاہتا، لیکن نتائج سے ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ملک کی آزادی کے 77 سال بعد ہندوستانی مسلمان کہاں کھڑا ہے؟کیا وہ سیاسی، معاشی، تعلیمی یا سماجی طور پر کامیاب ہوئے ہیں یا سیڑھی پر مسلسل نیچے کی طرف جارہے ہیں؟درحقیقت وہ مسلم قوم کے لیے مثبت اقدامات یعنی کہ Affirmative Actionکی تلاش میں یکے بعد دیگرے حکومتوں کو تشکیل دینے میں نمایاں کردار ادا کرتے رہے ،لیکن ایک قوم کے طور پر دوسری قوموں کے مقابلے ترقی حاصل کرنے کے لیے اپنے طور پر وہ کچھ کرتے نظر نہیں آ رہے ہیں اور اسی میں ان کی زبوں حالی کا راز چھپا ہے۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ سیاسی طور پر مسلمانوں کو کل ہند سطح پر ایک سیاسی پارٹی کی شکل میں ایک مضبوط اور مربوط آواز نہیں مل سکی ہے۔ ناقدین ایسے کسی اقدام کو یہ کہہ کر مسترد کرتے ہیں کہ 20-15 سیٹیں جیت کر بھی آپ کو کیا ملے گا۔لیکن ان لوگوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس وقت 16 سیٹوں کے ساتھ چندرابابو نائیڈو، 13 سیٹوں کے ساتھ نتیش کمار اور 7 سیٹوں کے ساتھ ایکناتھ شندے مرکزی حکومت بنانے کے کام میں کنگ میکر کا کردار ادا کر رہے ہیں۔تو کیا مسلمانوں کو ایک توقف اختیار کر کے ایک مضبوط سیاسی قوت کے طور پر ابھرنے کی ضرورت پر غور کرنا چاہیے یا نہیں؟ لیکن اس سے پہلے ہمیں بحیثیت مسلم امہ ایک مشترکہ تشخص اور سوچ بنانی ہوگی، بجائے اس کے کہ ہم اپنے مقامی مسائل کو حل کرنے کے لیے مختلف لیڈروں اور سیاسی جماعتوں کی پیروی علاقائی اور صوبائی سطح پر کرتے رہیں۔اور صرف یہ سوچ کر کہ اس سے کیا ہوگا کوئی بھی مثبت حکمت عملی نہ اپنائیں اور نہ ہی کوئی عملی کاوش کریں اور دوسروں کے مرہونِ منت رہیں۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)