بلال فرقانی
سرینگر// جموں کشمیر میں گزشتہ50برسوں کے دوران اگرچہ رائے دہندگان کی تعداد میں6گنا سے زائد اضافہ ہوا اور امیدواروں کی تعداد میں بھی غیر معمولی اضافہ ہواتاہم ووٹنگ کی شرح میں صرف5 فیصد اتار چڑھائو دیکھنے کو ملا۔10برسوں کے بعد جموں کشمیر میں ہوئے الیکشن پر ریکارڈ توڑ ووٹنگ کی امیدیں جا رہی تھیں تاہم زمینی سطح پر کوئی غیر معمولی اضافہ دیکھنے کو نہیں ملا۔1967میں ہوئے الیکشن میں جموں کشمیر میں رائے دہندگان کی تعداد14لاکھ19ہزار253تھی اور184امیدوار75نشستوں پر کھڑے تھے تاہم ووٹنگ کی شرح58.79 فیصدرہی اور2024میں جب ووٹروں کی تعداد88 لاکھ66ہزار704تک جا پہنچی اور873امیدوار90نشستوں پر اپنی سیاسی قسمت آزما رہے تھے تو پولنگ کی شرح بھی 63.5فیصدکے قریب رہی۔1983اور1987کے الیکشن کو چھوڑ کر جموں کشمیر میں ووٹنگ شرح کبھی70 پارنہیں ہوئی۔ مرحوم شیخ محمد عبداللہ کے انتقال کے بعد1983میں جب جموں کشمیر میں الیکشن ہوئے تو ریکارڈ توڑ رائے دہندگان نے ووٹ ڈالے اور512امیدوار پہلی مرتبہ انتخابی میدان میں کود پڑے۔ اس وقت جموں کشمیر میں رائے دہندگان کی تعداد31لاکھ ایک ہزار665تھی جبکہ ووٹنگ کی شرح73.24فیصد رہی۔1987کے الیکشن جموں کشمیر کی تاریخ کا ایک اہم باب ہے،جس پر40سال گزرنے کے بعد بھی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو کٹہرے میں کھڑا کر رہی ہیں۔1987کے الیکشن میں 35لاکھ55ہزار549ووٹروں کو اپنی رائے دہی کے حق کا استعمال کرنا تھا اور528 امیدوار بھی میدان میں کود پڑے اور پہلی مرتبہ ریکارڈ ووٹنگ کے دوران74.88فیصد لوگوں نے اپنا جمہوری حق ادا کیا۔0 یہ شرح جموں کشمیر کی ووٹنگ کی تاریخ میں اب تک کا ریکارڈ ہے،جو ابھی تک ٹوٹ نہیں پایا۔1972کے الیکشن میں جموں کشمیر میں رائے دہندگان کی تعداد22لاکھ97ہزار951تھی اور342امیدوار بھی میدان میں تھے تاہم ووٹنگ کی شرح بھی62.17فیصد ہی رہی۔ اندرا عبداللہ ایکارڈ کے بعد1977میں ہوئے الیکشن میں26لاکھ64ہزار992 رائے دہندگان میں سے صرف67.76فیصد رائے دہندگان نے 409امیدواروں کے حق میں ووٹ دیا۔پہلے5انتخابات میں جموں کشمیر میں ووٹنگ کی شرح میں سال در سال اضافہ دیکھنے کو ملا تاہم بعد میں ایک بار پھر تنزلی کا شکار ہوا۔1996میں جب جموں کشمیر میں9سال بعد الیکشن ہوئے تو ووٹروں کی تعداد47لاکھ61ہزار665تک جا پہنچی تھی اور الیکشن کا بگل بجتے ہی547امیدوار میدان میں اپنی سیاسی قسمت آزمانے کیلئے اتر گئے تاہم ووٹنگ کی شرح53.92 فیصدرہی جو ان حالات میں ایک بڑی شرح مانی جاتی ہے۔2002کے الیکشن میںمرحوم مفتی محمد سعید کی سربراہی والی پی ڈی پی سرکار پہلی مرتبہ الیکشن میں شریک ہوئی اور بدلائو کا نعرہ لگتے ہی لوگوں میں بھی انتخابی جوش و خروش دیکھنے کو ملا تاہم61لاکھ65ہزار108 ووٹروں میں سے صرف43.70فیصد رائے دہندگان نے709امیدواروں کے حق میں ووٹ دیا۔امرناتھ اراضی تنازعہ کے بعد2008کے الیکشن میں ریکارڈ توڑ1354امیدوار میدان میں اتر گئے اور ووٹنگ شرح بھی61.01 فیصد تک پہنچی جبکہ65لاکھ37ہزار821 رائے دہنگان کو رائے دہی کا حق حاصل تھا۔ وادی میں قیامت خیز سیلاب کے بعد2014میں ہوئے انتخابات میں جموں کشمیر میں73لاکھ16ہزار946 رائے دہنگان میں سے65.84 فیصد ووٹروںنے831امیدواروں کے حق میں ووٹ دیا۔2024کے الیکشن اس لئے بھی اہم ہیں کہ دفعہ370کی منسوخی کے بعد جموں کشمیر میں یہ انتخابات یو ٹی میں ہو رہے ہیںاور10سال بعد کرائے گئے تاہم ان انتخابات میں جہاں ووٹروں کی تعداد88لاکھ66ہزار704تک پہنچی وہیں873امیدوار میدان میں تھے اور ووٹنگ کی شرح63.45 فیصدرہی۔