سرینگر// شہر خاص کے زالڈگر علاقے میںزائد از150برس قبل داغ شالوں پر اضافی ٹیکس کے اطلاق نے شالبافوں کی ایک منظم تحریک کو جنم دیا اور ڈوگرہ فوج کی فائرنگ سے28افراد جان بحق ہوئے،وہی ڈیڑ صدی گزر جانے کے بعد اس کاروبار سے جڑے لوگوں کا کہنا ہے کہ اشیاء و خدمات ٹیکس کے زمرے میں لانے سے اس صنعت کا آج بھی وہی حال ہے۔وادی میں ڈوگرہ فوج اگر چہ موجود نہیں ہے،تاہم انکے ساتھ جڑی ہوئی تلخ یادیں آج بھی موجود ہیں،کم از کم شہر خاص کے زالڈگر علاقے کے قلوب اور اذہان میں یہ یادیں آج بھی موجود ہیں۔1865میں ذالڈگر میں ڈوگرہ فوج کے ظلم و جبر کی داستان اس وقت بھی ان لوگوں کے قلب و جگر میں تازہ ہے،جب دن دھاڈے28شالبافوں کو گولیوں سے بھون ڈالا گیا۔ اس تحریک میں جان بحق شالبافوں اور جلائے وطن کئے گئے دستکاروں کو انکی154ویں برسی پر یاد کرتے ہوئے۔ کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹرئز نے شالباف تحریک کو موجودہ جی ایس ٹی نظام سے جوڑتے ہوئے کہا کہ اشیاء و خدمات ٹیکس کے زمرے میں لانے کے بعد یہ صنعت ختم ہوگئی ہے۔سرینگر میں 1865میں جان بحق28شالبافوں کو خراج عقیدت ادا کرنے سے متعلق سمینار کے دوران چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹرئز کے صدر شیخ عاشق نے بتایا کہ جی ایس ٹی نظام نے جہاں وادی میں مجموعی طور پر ہر کاروبار پر کاری ضرب لگا دی،وہی شالباف صنعت کی تابوت میں آخری کیل بھی ٹھونک دی۔انہوں نے کہا کہ حال میں یہ معاملہ انہوں نے متعلقہ مرکزی ادارے کے نوٹس میں لایا،جنہوں نے اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ پشمینہ اور شالوں کو صفر فیصد ٹیکس زمرے میں لانے کیلئے معاملہ جی ایس ٹی کونسل میں اٹھایا جائے گا۔اس سے قبل چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹرئز کے سابق صدر محمد ابرہیم شاداد نے شالباف تحریک کے خد و خال اور تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس وقت بھی یہ صنعت اسی دور سے گزر رہی ہے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ شال انڈسٹری کو صفر فیصد جی ایس ٹی زمرے میں لانا چاہے،تاکہ یہ صنعت بھی بچ جائے اور اس سے منسلک دستکاروں کو روزگار بھی محفوظ ہو۔انہوں نے کہا کہ 29اپریل1865میں ڈوگرہ سرکار کے داغ محکمہ شال کی طرف سے سخت ٹیکس نظام رائج کرنے کے خلاف شہر خاص میں شالبافوں نے سخت احتجاجی مظاہرے کیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس دوران منظم احتجاج کا سلسلہ شروع کیا گیا جس کو تواریخ نے بعد میں’’شالباف تحریک‘‘ کا نام دیا۔پشمینہ یونین کے سنیئر عہدار روف قریشی ’’قلیل تنخواہوں ، سخت ایام کار اور ٹیکسوں میں بے حد اضافہ کے علاوہ ان شالبافوں پر پابندی عائد کرنے کا مقصد تھا کہ یہ شالباف کشمیر چھوڈ کر چلیں جائے‘‘۔ان کا کہنا تھا کہ خام مال اور لداخ سے درآمد شدہ اون میں ٹیکسوں کی عائدگی کے علاوہ تیار شدہ موضوعات کی کسٹم ڈیوٹی میں بھی ٹیکس عائدکی گئی۔ روف قریشی نے مزید کہا کہ1865میں2لاکھ54ہزاربرطانوی پونڈ کے شال برآمد کئے گئے تاہم شالبافوں کو اس رقم میں سے کچھ کم و قلیل دیا گیا۔انہوںنے بتایا کہ تحقیق کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ16سے18گھنٹوں تک کام کرنے کے بعد بیشتر شالبافوں کو5سے7روپے ماہانہ دیا جاتا تھا،اور اس مین سے بھی انہیں قریب5روپے بطور ٹیکس ہی ادا کرنا ہوتا تھا۔محققین کے مطابق شالبافوں کی سب سے بڑی ستم ظریفی یہ تھی کہ وہ اپنا پیشہ تبدیل نہیں کرسکتے اور نہ ہی کام کرنا بند کر سکتے تھے۔ان محققین کا ماننا ہے کہ اضافی ٹیکسوں کی ادئیگی کے بعد کچھ شالبافوں نے لاہور نقل مکانی کی،اور جس نے آواز اٹھائی انہیں جیل بھیج دیا گیا ۔ سب سے پہلے افغان گورنر حاجی کریم داد خان نے ٹیکس عائد کیا اور اس کو داغ شال کا نام دیا گیا۔ محقق ڈاکٹر شبیر احمد راتھر کا ماننا ہے کہ1856 میںبہ یک وقت ٹیکسوں میں300فیصد اضافہ کیا گیا جبکہ داغ شال محکمہ میں پنڈت راج کاک دھر کو انسپکٹر تعینات کیا گیا تھا۔ان کاکہنا ہے کہ دھر نے ظلم وجبر اور تشدد کا سہارا لیکر شالبافوں سے ٹیکسوں کامحصول کرنا شروع کر دیا۔انہوں نے بتایاشالبافوں کو جب بھوک مری کا سامنا کرنا پرا تو انہوں نے جدوجہد کا راستہ اپنانے کا تہیہ کیا اور29اپریل1865 کو احتجاجی مظاہرہ برآمد کرنے کا فیصلہ لیا۔اس دوران احتجاجی مظاہرین نے ذالڈگر کے ایک میدان میں جمع ہونے کا فیصلہ کیا جبکہ احتجاج کے دوران پنڈت راج کاک دھر کے پتلے بھی نذر آتش کئے گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ دھر نے اس وقت کے گورنر کرپارام کو خبر بھجوائی کہ احتجاجی مظاہرین ا منصوبہ ہے کہ وہ اپنی رہاء ش گاہ کی طرف پیش قدمی کریں۔ عادل مظفر نامی ایک اور محقق کا کہنا ہے کہ شالبافوں کو سبق سکھانے کیلئے کرپا رام نے کرنل بجوائے سنگھ کی سربراہی میں فوج روانہ کی ۔ان کا مکہنا ہے کہ فوج نے کٹہ کل ذالڈگر کے نزدیک احتجاجی مطاہرین کو ایک تنگ پل پر گھیرے میں لیا اور مظاہرین میں افراتفری مچ گئی اور پل بھی ٹوٹ گیا،جس کی وجہ سے28مظاہرین غرقاب ہوئیں۔معروف معالج اور وونڈڈ پراڈائر کے مصنف کا کہنا ہے’’ فوج نے بندوقوں کے دہانے کھولیں اور28شالبافوں کو بھون ڈالا گیا۔‘‘ان کا کہنا تھا’’ انتظامیہ کی طرف سے بندشیں عائد کرنے کے باوجود لوگوں نے28نعشوں کو دریا سے باہر نکال کر مہاراجہ رنبیر سنگھ کے محل کی طرف لاشوںسمیت پیش قدمی کی۔‘‘کچھ مورخین کا کہنا ہے کہ لوگوں نے آئندہ صبح نہیں بلکہ اسی شام کو محل کی طرف مارچ کیا،جس کے دوران انکی جھڑپ فوج سے ہوئی اور درجنوں شالبافوں اور انکے لیڈروں کو حراست میں لیا گیا،جس کے دوران شیخ رسول اور ابلی بابا کو حراست کے دوران شیر گڑھی محل کے تہہ خانے میں تشدد ڈھایا گیا اور دونوں جانبحق ہوئے،اور اس طرح سے وادی میں پہلی مرتبہ دوران حراست قتل کا سلسلہ شروع ہوا۔یکم مئی 1865کو کچھ قیدیوں علی محمد پال،غلام رسول شیخ،قد لالہ اور سُنہ شاہ سمیت دیگر لوگوں کو جموں روانہ کیا گیا جبکہ علی پال اور رسول شیخ رام نگر جیل میں تپ دق میں مبتلا ہوئے اور وہی فوت ہوئیں۔قدل لاہ اور سنہ شاہ کی تقدیر میں بھی اس طرح جان بحق ہونا تھا۔محققین کا کہنا ہے کہ کشمیر کے پہلے جان بحق ٹریڈ یونین لیڈروں سے کیا برتائو کیا گیا،جبکہ اس سلسلے میں کوئی چارج شیٹ کسی بھی عدالت میں داخل نہیںکی گئی اور نہ ہی تحقیقات کی گئی۔معروف تاریخ دان فدا محمد حسنین اس بات کے قائم ہے کہ شالبافوں کا احتجاج’’ بھارت کی تاریخ میں مطالابات کے حق میں غالباً پہلا منظم احتجاج ہے۔‘‘