عظمیٰ نیوز سروس
نئی دہلی //ایک 13 سالہ لڑکا افغانستان کی کام ایئر ایئر لائنز کی پرواز سے کابل سے دہلی ایئرپورٹ پہنچا وہ لینڈنگ گیئر میں چھپکر دہلی پہنچا۔ سیکیورٹی عملے نے اسے صبح 11:10 پر دیکھا، مزید پوچھ گچھ پر معلوم ہوا کہ وہ افغانستان کے شہر قندوز سے ہے۔21 ستمبر کی صبح دہلی ایئرپورٹ پر ایک چونکا دینے والا واقعہ سامنے آیا۔ ایک لڑکا، جس کی عمر تقریباً 13 سال تھی، لینڈنگ گیئر میں چھپ کر کابل سے کام ایئر ایئر لائنز کی پرواز RQ-4401 پر دہلی پہنچا۔ 11:10 بجے کے قریب، ایئر لائن کے سیکورٹی عملے نے لڑکے کو جہاز کے ارد گرد گھومتے ہوئے دیکھا اور اسے پکڑ لیا۔معلومات کے مطابق پوچھ گچھ کے دوران پتہ چلا کہ بچے کا تعلق افغانستان کے شہر قندوز سے ہے۔ اس نے بغیر ٹکٹ کے سفر کیا تھا اور خود کو جہاز میں چھپا لیا تھا۔ طیارے کی مکمل تلاشی کے دوران، ایئر لائن کی سیکیورٹی اور انجینئرنگ ٹیم کو لینڈنگ گیئر کے علاقے میں ایک چھوٹا سرخ آڈیو اسپیکر بھی ملا۔اس کے بعد مختلف متعلقہ ایجنسیوں نے بچے سے تفصیلی پوچھ تاچھ کی۔ اس عرصے کے دوران، بچے کی حفاظت اور بہبود کو یقینی بنانے کے لیے انتہائی احتیاط برتی گئی۔ تمام طریقہ کار کے بعد، اسے اسی دوپہر کام ایئر لائنز کی پرواز RQ-4402 سے کابل لے جایا گیا۔ہوائی اڈے کے حکام نے کہا کہ یہ واقعہ سیکورٹی چیک اور ہوائی جہاز کے آپریشن کی ذمہ داری کے نقطہ نظر سے سنگین ہے۔ ہوائی اڈے اور ایئر لائن دونوں مستقبل میں ایسے واقعات کو روکنے کے لیے حفاظتی اقدامات کو مزید مضبوط کریں گے۔ واضح رہے افغانستان میں طالبان کی حکومت کی جانب سے اس خبر پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ افغان عبوری حکومت میں سرحدی پولیس کے ترجمان نے بتایا ہے کہ وہ اس واقعے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ انھوں
نے مزید بتایا کہ ’ایئر پورٹ کے رن وے کی 24 گھنٹے کی سخت نگرانی کی جاتی ہے اور کسی بھی صورت میں کوئی اہلکار بھی رن وے پر تک نہیں پہنچ سکتا ہے اور خدانخواستہ اگر غلطی سے کوئی اہلکار رن وے تک پہنچ جائے تو فلائٹ منسوخ کر کے سرچ آپریشن شروع کیا جاتا ہے۔‘ مسافر طیارے تک اس لڑکے کی رسائی نے کابل ہوائی اڈے کی سکیورٹی پر کئی سوالات اُٹھائے ہیں لیکن انہوں نے بتایا کہ ’ایئرپورٹ پر سکیورٹی اہلکار ہائی الرٹ ہیں اور کسی کو غیر قانونی طور پر سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔‘ اس خطرناک حرکت کے بعد لڑکے کا زندہ بچ جانا ایک معجزہ ہے لیکن یہ پہلا موقع نہیں ہے جب کوئی شخص ہوائی جہاز میں چھپ کر اپنی منزل تک پہنچا ہو۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اتنی بلندی پر آکسیجن کی کمی اور شدید سردی کی وجہ سے زیادہ دیر تک زندہ رہنا ممکن نہیں ہے۔