سرینگر //70برسوں سے ریاست بدترین لوڈ شیڈنگ کے گھیرے میں ہے،اگر یوں کہا جائے کہ متواتر مرکزی سرکاروں نے یہاں کے آبی وسائل کو لوٹ کر دیگر ریاستوں کو فائدہ پہنچایا تو بیجا نہ ہوگا۔قابل غور بات یہ ہے کہ یہاں اضافی بجلی حاصل کرنے کیلئے بنیادی ڈھانچہ تک دستیاب نہیں ،ٹرانسمیشن کی صلاحیت بڑھانے کیلئے رقوم دستیاب نہیں اورگرڈ اسٹیشنوں میںبنیادی ڈھانچے کو مربوط بنانے کیلئے کوئی پالیسی نہیں بنائی جاتی۔یہ وہ بنیادی عوامل ہیں جنکی وجہ سے وادی میں بالخصوص سردیوں کے ایام میں ناک میں دم کرنے والی لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔بجلی کی فراہمی ریاست کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، لیکن کسی بھی حکومت نے اسکی طرف کبھی توجہ نہیں دی۔حال ہی میں مرکزی سرکار نے اس بات کا اعلان کیا کہ ناردرن گرڈ سے ریاست کو اضافی 792میگاواٹ بجلی فراہم کی جائے گی۔لیکن یہ بجلی کیسے آئے گی اسکے بارے میں حقائق کو چھپایا گیا۔محکمہ بجلی کے سرکاری اعدادوشمار اس بات کا آشکارا کررہے ہیں کہ ناردن گرڈسے فراہم ہونے والی بجلی کیلئے یہاں سہولیات ہی نہیں ہیں کیونکہ بنیادی ڈھانچہ ہی موجود نہیں ہے ۔محکمہ کے حکام نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ وادی میں انکے پاس صرف 12سو میگاواٹ بجلی فراہم کرنے کی صلاحیت ہے جو وہ دے رہے ہیں جبکہ اکتوبر کے آغاز سے 16سو سے17سو میگاواٹ بجلی کی ضرورت ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ٹرانسمیشن میں صلاحیت نہ ہونے اور دیگر بنیادی ڈھانچہ کی عدم دستیابی کی وجہ سے محکمہ اس پوزیشن میں ہی نہیں کہ اضافی بجلی کی فراہمی کو یقینی بناسکے۔حکام کا کہنا ہے کہ ریاست میں ٹرانسمیشن میں صلاحیت بڑھانے کیلئے ہزاروں کروڑ روپے کی ضرورت ہوگی جبکہ ایک گرڈ سٹیشن تیار کرنے کیلئے 70کروڑ سے زیادہ کی رقوم کی ضرورت ہوتی ہے ۔محکمہ کے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ محکمہ بجلی کی پروکروٹمنٹ ونگ P&MM Wing) )کو سال میں 11سوکروڑ روپے کا بجٹ دیا جاتا ہے اور اس کم بجٹ سے بجلی کے ڈھانچے کو تعمیر نہیں کیا جا سکتا ۔ اضافی بجلی کی فراہمی کے حوالے سے چیف انجینئر کمرشل مسٹر کول نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ اضافی بجلی کا مرکزی سرکار نے ا علان تو کیا تاہم ابھی تک انہوں نے ریاست کو اس بارے میں کوئی جانکاری نہیں دی ہے ۔انہوں نے کہا کہ اگراضافی بجلی دی بھی جاتی ہے تو اس کو لوگوں میں تقسیم کرنے کیلئے محکمہ کے پاس وہ بنیادی ڈھانچہ ہی نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ اگر اس وقت کشمیر وادی میں بجلی کی مشکلات ہے تو وہ ٹرانسمیشن اور مینٹینس(Transmission & maintenence) میں صلاحیت کی کمی کی وجہ سے ہے اور اسی وجہ سے لوگوں کو پوری بجلی فراہم نہیں ہورہی ہے جس کی انہیں ضرورت ہے ۔انہوں نے کہا ’’ اگر ہم ریاست کو اضافی بجلی دے نہیں سکتے تو لینے کا کیاجواز ہے‘‘ ۔انہوں نے مزید کہا ’’ جتنا ہمارے پاس بنیادی ڈھانچہ موجودہے اسی حساب سے بجلی کی فراہمی کی جارہی ہے ‘‘ ۔تاہم ان کا کہنا تھاکہ ریاست بھر میں بجلی ڈھانچے کو تعمیر کرنے کیلئے اس وقت بہت سی سکیموں پر کام چل رہا ہے اور اُن کی تعمیر کے بعد ہی اضافی بجلی لوگوں کو فراہم کی جا سکتی ہے ۔کول نے مزید کہا ’’ بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے بعد اگر ہم مرکز سے بجلی کی مانگ کریں گے تو وہ ٹھیک ہے ،ایسے میں بجلی مانگنے کا کوئی مقصد نہیں ہے ‘‘۔انہوں نے کہا کہ ریاست میں اس وقت 18سو میگاواٹ بجلی استعمال ہورہی ہے جس میں سے 9سو میگاواٹ شمالی گرڈسے لائی جاتی ہے ،6سو میگاواٹ بینکنگ کے ذریعے لائی جاتی ہے ،100میگاواٹ بغلیار سے آتی ہے،50میگاواٹ لوکل جنریشن ہے اور باقی کم زیادہ جو ہوتا ہے وہ ہم ایکسچینج سے لیتے ہیں ۔