سرینگر// شہر کے گائو کدل علاقے میں28برس قبل پیش آئے سانحہ نے جہاں کئی خاندانوں کو خون کے آنسوں رلا یا،وہاں واقعہ کے ایک چشم دید گواہ اور کمسن نوجوان کے دل و دماغ پر اس قدر گہرا اثر چھوڑا ہے کہ اس نے کمر عمری میں ہی سرحد کو عبور کیا،اور عسکری صفوں میں شمولیت کی۔ گائو کدل میں28برس قبل خونین قتل عام کے متاثرین تلخ یادوں کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں جبکہ یہ سانحہ ان کیلئے کسی ڈراونے خواب سے کم نہیں ہے ۔ 21 جنوری 1990 کو اس واقعہ سے صرف2روز قبل جگموہن کو دوسری مرتبہ جموںکشمیر میں بحثیت گورنر بنا کر بھیجا گیا،تاکہ وادی کے جنوب و شمال میں جو آزادی کے حق میں جو جلوس برآمد ہو رہے تھے،ان پر قابو پایا جائے۔جگموہن کی طرف سے ریاستی اقتدار کی کمان سنبھالنے کے صرف2روز بعد سرینگر میں گائو کدل علاقے کو خون سے نہلایا گیا۔اس سانحہ میں بچنے والے لوگوں کا ماننا ہے کہ21جنوری1990کا وہ دن شائد کوئی ہی بھول سکتا ہے،جب سرینگر کے قلب میں واقع معروف و مصروف علاقے گائو کدل میں52 شہریوں کو گولیوں سے بھون ڈالا گیا،جبکہ250کے قریب زخمی ہوئے۔ یہ جموں کشمیر میں1989میں مسلح جدوجہد شرع ہونے کے بعد پہلا قتل عام تھا۔اس قتل عام کو ’’سانحہ گائو کدل‘‘ سے یاد کیا جاتا ہے۔گائو کدل پل کے نزدیک نیم فوجی دستوں نے براہ راست شہریوں پر بندوقوں کے دہانے کھول دیئے،اور پل بھر میں ہر سو لاشوں کے ڈھیر نظر آئے۔ ارشد نامی ایک چشم دید گواہ نے بتایا کہ وہ اس واقعے کو کھبی بھی فراموش نہیں کرسکتے کیونکہ جب بھی انہیں سانحہ گائو کدل کی یاد آتی ہے تو ان کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہے۔ماضی کے جھروکوں میںجھانکتے ہوئے ارشد حسین بٹ ساکن بسنت باغ نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ وہ ان دنوں نویں جماعت کے طالب علم تھے۔انہوں نے بتایا کہ واقعے کے روز کرفیو کا نفاذ عمل میں لایا گیا تھا اور وہ گھر ہی میں تھے،جبکہ باہر سے جب انہوں نے نعرہ بازی کا شور سنا تو وہ دیگر دوستوں کے ہمراہ سڑک پر جمع ہوئے۔ارشد نے کہا’’اسی اثناء میں گولیوں کی گن گرج شروع ہوئی اور اہلکاروں نے گائو کدل اور بسنت باغ پر ایل ایم جی نصب کر کے اندھا دھند گولیاں چلائیں اور لوگ پکے ہوئے آموں کی طرح گرنے لگے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ بھاگم دوڑ میں لوگ ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوششوں میں گر بھی گئے اور چونکہ وہ مقامی علاقے میں ہی رہائش پذیر تھے،اس لئے انہیں گلیوں اور کوچوں کی خبر تھی اور وہ ان سے محفوظ مقامات کی طرح بھاگنے لگے۔ارشد نے بتایا کہ قریب15منٹوں تک فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا،اور جب وہ دیگر دوستوں کے ساتھ واپس آئے تو انہوں نے ہر سو لاشوں کا بازار دیکھا۔ارشد نے کہا’’ میں نے صرف لاشیں ہی لاشیں دیکھیں،لوگ خون میں لت پت تھے،زخمی درد سے کرا رہے تھے،سینکڑوں لوگ زمین پر گرے تھے،جوتے اور چپلوں کے علاوہ کانگڑیوں کے ڈھیر لگے تھے،جبکہ کئی لوگ اگر چہ جان بچانے کیلئے دکانوں کے تھڈوں میں بھی چھپے تھے،ان پر وہیںگولیاں برسائی گئیں تھی‘‘ارشد کا کہنا تھا کہ کچھ دیر بعد پولیس کی گاڑیاں نمودار ہوئیںاور انہوں نے لاشوں اور زخمیوں کو بھیڑبکریوں کی طرح گاڑیوں میں لاد دیا۔ان کا کہنا تھا چونکہ وہ اور اس کے دوست کمسن تھے ا اس لئے وہ بھی سڑک پر آئے اور زخمیوں کو اسپتال پہنچانے میں مدد کی۔ارشد کے مطابق ہر سو شور محشرتھا،جبکہ سردی کی کپکہاٹ میں بھی یہ جگر کو چیرنے والا منظر پسینے چھوٹنے پر مجبور کر رہا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ اس طرح کا سما ں انہوں نے زندگی میں کھبی نہیں دیکھا ہے۔ بسنت باغ سے تعلق رکھنے والے ارشد حسین نے مزید کہا کہ گائو کدل کا پل،جس کو وہ اگرچہ گھر سے باہر نکلتے ہر روز دیکھتے تھے،تاہم اس روز وہ پل انہیں بھیانک نظر آرہا تھا کیونکہ وہ خون سے تر بہ تر ہوچکا تھا۔انہوں نے کہا کہ ثونٹھ کوہل پر واقعہ یہ پل ایسا ثابت ہوا،جس کا کوئی کنارہ نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ اس واقعے نے انکی زندگی میں یکایک تبدیلی لائی اور وہ مایوس و غمزدہ رہنے لگے۔انہوں نے کہا’’ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا،میں کم عمر اور کم سن تھا،کھبی اس طرح کا واقعہ نہیں دیکھا تھا، گائو کدل میں لاشوں کا منظرمجھے سونے نہیں دیتا،میں اداس اور خود سے خفا رہنے لگا‘‘۔انہوں نے کہا کہ آخر کار اس صورتحال نے انکے دماغ اور ذہن پر منفی اثرات مرتب کئے اور انہوں نے سخت فیصلہ لیا۔ارشد حسین نے کہا’’ میں نے آخر کار فیصلہ لے ہی لیا،اور اگر چہ یہ آسان نہیں تھا،تاہم اس کے سوا میرے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا،میں نے سرحد پار کرنے کا فیصلہ لیا‘‘۔انہوں نے کہا کہ فروری1990میں انہوں نے کم عمری میں، جب وہ نویں جماعت کے طالب علم تھے، لبریشن فرنٹ میں شمولیت اختیار کی اور سرحد عبور کیا۔‘‘ان کا کہنا ہے کہ آج بھی گائو کدل سانحہ جب انہیں یاد آتا ہے تو انہیں وہ لاشیں،وہ جوتے،وہ زخمیوں کی چیخیں اور وہ ہر سو آہ و بکا کی فضا یاد آتی ہے۔پولیس کے انسپکٹر جنرل نے22نومبر2017کو انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن کے سامنے ایک رپورٹ پیش کی۔پولیس رپورٹ میں کہا گیا’’یہ بات واضح کرنی ضروری ہے کہ ایس پی انسانی حقوق کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اتھارٹی اس روز گائو کدل علاقے میں مجسٹریٹ سے متعلق تفصیلات فراہم کرنے میں ناکام ہوئی،مکمل طور پر نادرست اور غلط فہمی پر مبنی ہے‘‘۔مختلف اسپتالوں،جن میں صورہ میڈیکل انسٹی چیوٹ، صدر اسپتال،بون اینڈ جوائنٹ اسپتال و غیر شامل ہیں،کے ریکارڑ کے مطابق فورسز کی فائرنگ میں زخمی ہونے والوں کی تعداد42 بتائی گئی،تاہم اسپتال انتظامیہ نے زخمیوں میں سے مرنے والوں کی تعداد اور جسمانی طور پر ناکارہ ہونے والوں کی تفصیلات فراہم نہیں کی۔انٹرنیشنل فورم فار جسٹس نے آئی جی پی کشمیر کی طرف سے پیش کی گئی رپورٹ کے خلاف ایک اور جوابی دعویٰ انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن میں پیش کرنے جا رہا ہے،جس میں اسپتال میں داخل کرنے کے بعد مرنے والوں کے علاوہ زخمیوں اور جسمانی طور پر معذور ہونے والوں کے نام اور تعداد کے علاوہ دیگر کوائف و تفصیلات طلب کی جائیں گی۔