۱۸؍ اپریل ۱۹۸۶ء جمعہ کے روز شارجہ میںآسٹریلیا کپ ٹورنامنٹ میں بھارت اورپاکستان کے مابین کرکٹ کا فائنل میچ کھیلا جا رہا تھا۔بھارت اور پاکستان ٹیم نے بالترتیب سری لنکا اور نیوزی لینڈ کو سمی فائنل میں ہراکر فائنل میں اپنی جگہ بنائی تھی۔ ہمیشہ کی طرح لوگ اس میچ کا بے صبری سے انتظار کر رہے تھے۔ ہمارے محلّے کے نوجوانوں نے پاکستان کی سمی فائنل میں شاندار جیت کے بعد ہی چندہ کر کے پٹاخے خرید لئے تھے۔اس سے ایک سال قبل ہمارے محلے کی مسجد کے احاطے میں ٹی وی لگاکرپورے محلے نے اکٹھے ہندوستان اور پاکستان کے مابین شارجہ کپ کا ابتدائی میچ دیکھا ۔گو کہ اس میچ میں عمران خان نے زبردست باؤلنگ کرتے ہوئے بھارت کو ۱۲۵ کے قلیل اسکور پر ڈھیر کر دیا تھا اور لوگ پاکستان کی یقینی جیت کا بے صبری سے انتظار کر رہے تھے لیکن کپل دیو، سوا راما کرشنن او ر روی شاستری کی عمدہ باؤلنگ کی وجہ سے پاکستان کی ساری ٹیم ۵۔۳۲؍ اوؤرز میں آؤٹ ہو گئی تھی اورمحلے کے سبھی لوگ مایوس ہو گئے تھے۔نتیجتاًاس سال پاکستان کی بھارت کے خلاف جیت اورٹورنامنٹ کی ٹرافی حاصل کرنا لوگوں کے تصور میں ہی نہیں تھا اور یوں مسجد کے احاطے میںٹی وی پر میچ دیکھنے کا کوئی پروگرام ہی نہیں بنا۔ہم حسب معمول صبح سویرے شہر خاص عالی کدل سے چلتے ہوئے راجویری کدل میں واقع اپنے اسکول چلے گئے۔جگہ جگہ پر لوگوں نے اپنی دوکانوں پر ٹی وی لگا رکھے تھے اور لوگ ان دکانوں کے باہر کھڑے ہو کر میچ کا مزہ لے رہے تھے۔اس روز اسکول میں تعلیم سے زیادہ ہمیں اسکور کی فکر تھی۔ہم باری باری باتھ روم جانے کی غرض سے اسکول کے احاطے میں جاکر اسکول میں مامور سیکورٹی گارڑ سے میچ کی جان کاری حاصل کر کے سارے کلاس کو اسکور سے با خبر کرتے۔مجھے یاد ہے کہ کلاس میں ہونے کے باوجود ہم نے اُس دن اساتذہ سے درس لیا لیکن ذہن میں میچ کی دُھن سمائی تھی۔اس میچ میںپاکستان نے ٹاس جیت کربھارت کو پہلے بلے بازی کی دعوت دی۔شارجہ کا اسٹیڈیم تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا تھا۔سنیل گواسکر اور شری کانتھ نے اننگز کا آغازکیا۔انہوں نے جاحانہ کھیل کھیلتے ہوئے ۱۱۷؍ رن کی شاندار پارٹنرشپ بنائی ۔عبدالقادر نے شری کانتھ کو وسیم اکرم کے ہاتھوں کیچ کروا کے اس مضبو ط شراکت کو ختم کر دیا۔شری کانتھ نے دو چھکوں اور آٹھ چوکوں کی مدد سے ۸۰ ؍ بالوں میں ۷۵؍ رن بنائے۔اس کے بعد وینگ سرکار اور سنیل گواسکر نے ایک اور مضبوط شراکت کھڑی کر کے اسکور ۲۱۶؍ تک پہنچا دیا۔وسیم اکرم نے وینگ سرکار کو بولڈ کر کے بھارت کو ایک اور دھچکہ دیا۔ وینگ سرکار نے ۶۴؍ بالوں میں نصف سنچری بنا کر بھارت کی اننگز مزید مستحکم کی۔ سنیل گواسکر نے۹۲؍ رن بنائے لیکن عمران خان نے انہیں بولڈ کر کے سینچری بنانے سے روک دیا۔ پاکستان کی طرف سے وسیم اکرم نے عمدہ باؤلنگ کر تے ہوئے دس اوروں میں ۴۲؍ رن دے کر ۳ ؍ وکٹ حاصل کئے جب کہ عمران خان نے اتنے ہی اوؤروں میں چالیس رن دے کر ۲؍ وکٹ حاصل کئے۔البتہ مدثر نذراور منظور الٰہی کی بھارتی بلے بازوں نے کافی پٹائی کی۔پاکستان ٹیم کو اس میچ میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے مقررہ پچاس اوور میں ۲۴۵؍ رن کا ہدف ملا۔ اُن دنوں یہ ایک بڑا اسکور مانا جاتا تھااور یہ شارجہ میں کرکٹ کی تاریخ کا سب سے بڑا اسکور تھا۔ہمیںجمعہ کے روز نماز کی غرض سے آدھے دن کے بعد ہی چھٹی ہوتی۔ہم راجویری کدل سے عالی کدل تک جگہ جگہ رُکتے اور ٹی وی پر ایک دو اوؤر دیکھتے اور آگے بڑھتے۔جوں ہی پہلی اننگز ختم ہوئی ہم جلدی سے جمعہ نماز ادا کرنے اپنی مسجد چلے گئے ،جہاں امام صاحب کو پاکستان ٹیم کی فتح کیلئے دعا کرنے کی کئی درخواستیں آئی تھیں۔ امام صاحب نے پاکستان کی فتح کے حق میں دعائیں کیں اور لوگ زور زورسے آمین کہہ رہے تھے۔جوں جوں میچ کی دوسری اننگز کے آغاز کا وقت نزدیک آ رہا تھا توں توں سڑکوں سے ٹریفک اور لوگوں کی نقل و حرکت کم ہوتی جا رہی تھی۔ دریں اثناء میچ شروع ہو توا سڑکیں ویران دکھ رہیں تھیں۔
کھانے کے وقفے کے بعد پاکستان کے اوپنر مدثر نذر اور محسن خان اننگز کا آغاز کرنے میدان میں آئے لیکن اس بڑے اسکور کے تعاقب میںپاکستان کی شروعات کافی مایوس اور تباہ کن تھی۔صرف ۹ ؍ رن کے اسکور پر چیتن شرما نے مدثر نذر کو ایل بی ڈبلیو آؤٹ کر کے پاکستان کی اننگز کو لڑکھڑایا۔ رمیض راجہ صرف دس رن کے اسکور پر منندر سنگھ کی بال پر بولڈ ہوگئے۔ اس وقت اسکور صرف ۳۹ رن تھااور جاوید میانداد میدان میں آگئے۔ سب لوگ مایوس دکھ رہے تھے اور چہروں پر تنائو صاف دکھ رہا تھا۔پاکستان کی جیت کے آثار کم ہی نظر آرہے تھے۔ میرے چچا جان بڑے جذباتی آدمی تھے،گو کہ ان کو کرکٹ سے کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن ہاکی ہو یا کرکٹ، وہ ہمیشہ پاکستان کی فتح کے جذباتی طور پر متمنی ہوا کرتے تھے۔وہ اپنے کمرے کے ایک کونے میں بیٹھے اور کسی سے بات چیت کئے بغیر شاید پاکستان ٹیم کی پوزیشن مستحکم کرنے کی دعائیں کرر ہے تھے۔ہماری والدہ اور چاچی ہمارے لئے چائے بھی لاتی رہیں اور ساتھ میں پاکستان کی جیت کا دلاسہ بھی دلاتی رہیں۔جاوید میانداد ایک عظیم بلے باز تھے۔انہوں نے محتاط انداز میں کھیلتے ہوئے ایک ایک، دو د و رن جوڑے۔ البتہ بھارت کی طرف سے پہلے فاسٹ باؤلرز کپل دیو، چیتن شرما اور مدن لال وقفے وقفے سے وکٹیں لیتے رہے اور بعد ازاں منندر سنگھ او ر روی شاستری کی اسپن باؤلنگ نے پاکستان کوجکڑ کے رکھ دیا ۔پاکستان کی بظاہر مایوس کن کارکردگی سے سارے کشمیر میں سناٹا چھا گیا تھا۔البتہ ۱۱۰؍ کے مجموعی اسکور پر سلیم ملک کے رن آؤٹ ہونے کے بعد عبدالقادر کے میدان میں آتے ہی میچ کی ہیّت بدل گئی۔ انہوںنے جارحانہ کھیل کی شروعات کرتے ہوئے ایک چھکے اور ایک چوکے سے صرف ۳۹؍ گیندو ںمیں ۳۴؍ رن جوڑے۔اس سے میچ میں دلچسپ گہما گہمی شروع ہو گئی اور جوں ہی کوئی چھکہ یا چوکا پڑتا لوگ زور زور سے تالیاں اور سیٹیاں بجا کر اپنی بے پناہ خوشی کا اظہار کرتے لیکن کپل دیو نے جلد ہی عبدالقادر کو کیچ کرا کے اس شاندار بیٹنگ کا خاتمہ کیا۔اس سے لوگ پھر مایوس ہو گئے۔ اب آخری دس اووروں میں ۹۰؍ رن جیت کے لئے درکار تھے۔جاوید میانداد نے اس کے بعد میچ کو اپنے کنٹرول میں لیا اور مسلسل تیز ی تیزی رن بناتے رہے۔ البتہ دوسری طرف سے وکٹیں لگاتار گرتی رہیں۔عمران خا ن اور منظور الٰہی آؤٹ ہوکر پیاؤالین لوٹ گئے۔یہ میچ تب اوردلچسپ بن گیا جب آخری اوور میں پاکستان کو جیتنے کیلئے گیارہ رن درکار تھے جب کہ سات کھلاڑی آؤٹ ہوگئے تھے۔میرے بھائی اورچچا زاد بھائی میچ کے ان آخری لمحات کا اور زیادہ لطف اُٹھانے ایک ہمسایہ کے گھر ٹی وی دیکھنے گئے، جہاں محلّے کے کئی اور لوگ جمع ہوئے تھے۔وہ ریڈیو پاکستان سے اردو کمنٹری سے بھی لطف اندوزہو رہے تھے۔میں اپنے گھر میں ٹی وی کے سامنے ایک اکیلا بندہ موجود تھا۔ پاکستان کی پتلی حالت دیکھ کرمیرے ہاتھوں سے پسینے چھوٹ رہے تھے۔دل زور سے دھڑک رہا تھا۔جیت کی خواہش اور ہار کا خوف ذہن پر بری طرح طاری تھا۔ٓخری اوؤر کیلئے کپل دیو نے چیتن شرما کے ہاتھ میں بال تھما دی ۔ میانداد پہلی ہی گیند پر ہٹ مار کرجب دوسری رن کیلئے دوڑے تو وسیم اکرم رن آؤٹ ہو گئے۔اگلی بال پر میانداد نے مڈ وکٹ کی طرف سے چوکا مار کر شائقین کے جوش و خروش میں اضافہ کیا۔اب چار گیندوں پر چھ رَن کی ضرورت تھی۔تیسری گیند پر میانداد کو صرف ایک رن ملا اور اب ذوالقرنین اسٹرائیک پر تھے۔ چوتھی گیندپر چیتن شرما نے ذوالقرنین کو بولڈ کر دیا۔ اب دو گیندوں پر پانچ رن درکار تھے۔ توصیف احمد بلے باز تھے، وہ آخری بال کیلئے جاوید میانداد کو دوسری طرف لانے کیلئے ایک رن کیلئے دوڑے۔ اظہر الدین نے توصیف احمد کو رَن آؤٹ کرنے کا ایک آسان موقعہ نہ صرف گنوادیا بلکہ جاوید میانداد کو اسٹرائک پر لا کھڑا کیا۔اب آخری بال پر ۴ رن درکار تھے۔بھارتی ٹیم کافی دیر تک مشورہ کرتی رہی۔ بالآخر چیتن شرما نے آخری گیند پھینکی جولو فُل ٹاس تھی۔ جاوید میانداد، جو کہ پہلے ہی ایک بڑی ہٹ مارنے کیلئے تیار تھے، نے زوردارچھکا مارکر مطلوبہ ہدف حاصل کیا۔سارا اسٹیڈیم مسرت اور تالیوں سے جھوم اُٹھا۔جاوید میانداد اد اور توصیف احمد ا پنا بیٹ لہراتے ہوئے میدان سے دوڑتے ہوئے باہر جارہے تھے جب کہ ہزاروں پرُجوش شائقین پولی سے اُلجھتے ہوئے میدان میںجیت کی مبارک باانہیں دینے کیلئے دیوانہ وار دوڑرہے تھے۔ کسی کو اپنے جذبات پر قابو نہ رہا ، ہر طرف مسکراہٹیں بکھر رہی تھیں، قہقہوں کی بارش ہورہی تھی اوراور شائقین ایک دوسرے کے بغل گیر ہو کر پاکستان کی تاریخی جیت کا جشن منارہے تھے لیا ۔ جاوید میانداد کرکٹ کی تاریخ میںہمیشہ کیلئے ایک ہیرو بن کر رہ گئے۔ ۱۱۶؍ رن کے انفرادی اسکور سے وہ مردِ میدان قرار پائے۔اس پُرجوش جیت سے پاکستان نے پہلی بار کسی کرکٹ ٹورنامنٹ کو جیتنے کا اعزاز حاصل کیا۔جوں ہی جاوید میانداد نے چھکا مارا ہر طرف سے بیک وقت چلّا کر، سیٹیاں اور تالیاں بجا کر لوگوں نے اپنی خوشی کا بر ملا اظہار کیا۔ہمارے علاقے کی ویران سڑکیں اب لوگوں کے ہجوموںاور پٹاخوں نعروں سے بھر گئیں۔ لوگ ایک دوسرے کو گلے مل کر مبارک باد یاں دے رہے تھے اور جو زبردست پٹاخے بازی شروع ہو ئی وہ نہ پوری جاری رہی بلکہ کئے دن ہم وقتاً فوقتاً پٹاخوں کی آوازیں سنتے رہے۔کئی جگہوں پر پاکستان کے جھنڈے بھی لہرائے گئے۔ میچ میں پاکستان کی فتح ہوتے ہی میرے چچا جانی نے جلد ہی وضو بنا کر شکرانہ کی نماز پڑھی اور کرکٹ کے بارے میں ہم سے کوئی بات کئے بغیراپنے کمرے میں خاموش بیٹھ کر گویا یہ عندیہ دے رہے تھے جیسے ان کو کرکٹ سے کوئی دلچسپی نہیں لیکن ہم تاڑ رہے تھے کہ ان کا دل کس قدر مسرور وشاداں تھا۔ یہی حال کشمیر کے پیر وجواں کاتھا۔کئی ماہ بعد جب ہم صبح اسکول آتے جاتے تو شہر خاص کے وازہ پورہ اورعالی کدل میں ایک الیکٹرانک دکان سے یہ نغمہ زور سے چل رہا ہوتا ؎
آخری بال پہ جو چھکا مارے
بولو ہے وہ کون؟
۔۔۔جاوید میانداد۔۔۔۔جاوید میانداد!
نوٹ : مضمون نگار سے [email protected] پر
رابطہ کیا جاسکتا ہے۔