چند ماہ پہلے دفعہ 35-A عدالت عظمیٰ میں جنوری 19؍کی تاریخ اگلی پیشی کیلئے مقرر کی گئی تھی۔ سرینگر بار ایسوسی ایشن کے بعض لوگ اشارہ دے چکے ہیں کہ تادم تحریر 19؍جنوری کی پیشی ابھی تک لسٹ نہیں ہوئی ہے۔لسٹ میں وہ مقدمات آتے ہیں جن کی پیشی کسی روز کے لئے مقرر کی گئی ہو۔یہ اطلاع راقم الحروف کو ایتوار 13؍جنوری کو حاصل ہوئی تھی ۔ دو دن بعد 15جنوری کو جب اپنا یہ کالم قلم بند کر نا شروع کیا تو خبر آئی کہ دفعہ 35-A؍ کی پیشی ایک دن پہلے یعنی 18؍جنوری کے لئے لسٹ ہوئی ہے۔ تاہم اس خبرکی تصدیق ہوناباقی ہے۔عین ممکن ہے کہ سنچروار کو جب یہ کالم آپ کی نظروں سے گذرے ، تاریخ ِ پیشی کے بارے میں کوئی حتمی خبرسامنے آ گئی ہو۔بہر صورت مقررہ تاریخ یعنی 19؍جنوری سے ایک دو دن پہلے یا ایک دو دن بعد دفعہ 35-A کے ضمن میں عدالتی پیشی توجہ طلب ہے۔ اس اہم ترین دفعہ کے قانونی جائزے کے ساتھ ساتھ اس کے سیاسی مضمرات کی نکتہ رسی وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ قارئین کی یاد تازہ کی جائے۔ واضح رہے عوامی حلقوں میںدفعہ 35-A کے مستقبل کے متعلق کافی فکر وتشویش پائی جاتی ہے۔
دفعہ 35-Aسے متعلق آئینی معاملات کو پرکھا جائے تو عیاں یہ ہوتا ہے کہ آئین ہند کی اِس دفعہ کا اطلاق ریاست جموں و کشمیر پر دفعہ 370کی شق (1) کے وسیلے ہوا۔ دفعہ 370 (1) (d)کے بموجب ریاست جموں و کشمیر سرکارکی سفارش پہ صدر جمہوریہ ہند بھارتی آئین ہند کی کسی بھی دفعہ کا اطلاق ریاست جموں و کشمیر پہ ایک صدارتی حکم کے وسیلے سے کر سکتے ہیں جس میں وہ ترمیمات بھی شامل رہ سکتی ہیں جن کی سفارش ریاستی سرکار نے کی ہو۔دفعہ 35-Aکسی آئینی دفعہ یا شق سے مطابقت نہیں رکھتی بلکہ ایک علحیدہ آئینی دفعہ ہے جسے ریاستی سرکارکی سفارش پہ آئین ہند میں شامل کیا گیا۔ریاستی سرکار کی یہ سفارش کی بنیاد آئین ساز اسمبلی کی ڈرافٹ کمیٹی کا ڈرافٹ (مسودہ) تھا۔اِس ڈرافٹ میں آئین ہند کی دفعات و شقوں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا تھا اور کئی دفعات کو نا قابل قبول قرار دیتے ہوئے رد کیا تھا اور بعض دفعات کو ترمیمات کے ساتھ قبول کر لیا تھا۔آئین ہند کی دفعہ 35 کو رد کرتے ہوئے اُس کے بجائے ایک نئی دفعہ کو لاگو کرنے کے لئے کہا گیا تھا جس کا عنوان 35-Aتجویز ہوا۔ دفعہ 35کے تحت کسی بھی بھارتی شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ بھارتیہ حدود کے تحت کہیں بھی سکونت اختیار کر سکتا ہے اور اُسے بھارت کی کسی ریاست میں حق معاش اور حق سکونت میسر ہے، جب کہ نئی آئینی دفعہ 35-A میں یہ شرط رکھی گئی کہ ریاست جموں و کشمیر میں صرف اور صرف ریاست کے مستقل باشندوں کو حق سکونت ،حق معاش و سرکاری تعلیمی وظائف کے حصول کا حق حاصل رہے گا ۔حق سکونت کے ساتھ ساتھ غیر منقولہ جائداد کے حصول کا حق بھی صرف ریاست کے مستقل باشندوںکیلئے محفوظ رکھا گیا۔ پس یہ آئین ہند کی دفعہ 35-A کی اساس ہے۔
ریاست کی آئین ساز اسمبلی کی ڈرافٹ کمیٹی میں گردھاری لال ڈوگرہ، درگا پرشاد در، ہربنس سنگھ آزاد،سید میر قاسم اور غلام رسول رینزو شامل تھے۔ ڈرافٹ کمیٹی کا تیار کردہ ڈرافٹ 11فروری 1954کے روز آئین ساز اسمبلی میں پیش ہوا۔15فروری 1954کے روز اِسے آئین ساز اسمبلی نے قبول کیا اور پھر ریاستی حکومت نے اِسے صدر جمہوریہ ہند کے حکمنامے کے لئے پیش کیا۔دفعہ 35-Aاُس صدارتی حکمنامے کا حصہ ہے جو 14مئی 1954ء کو صادر ہوا۔اِس حکمنامے میں اِس دفعہ کے علاوہ متعدد بھارتی دفعات بھی شامل ہیں جنہیں ڈرافٹ کمیٹی کے جائزے میں یا تو رد کر لیا گیا یا ترمیمات کے بعد قبول کیا گیا۔ جیسا کہ پہلے ہی اِس تحریر میں نوٹ ہوا ہے یہ صدارتی حکم دفعہ 370 (1) (d)کے تحت اطلاع عام کیلئے شائع کر دیا گیا۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ دفعہ 370 ریاست جموں و کشمیر اور یونین آف انڈیا کے مابین ایک پل کا کام دیتی ہے البتہ ایک اور اصلاح بھی عام ہوئی جب 1963-64ء کے پارلیمنٹ سیشن کے دوراں بھارتی وزیر داخلہ گلزاری لال نندہ نے دفعہ 370 کو ایک ایسی سرنگ (Tunnel) سے تعبیر دی جسے بہت سارا ٹریفک گذر چکا ہے اور جہاں اور گذرنے کی گنجائش ہے۔ اِس کے بعد بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے یہ طرح بھی دی کہ دفعہ 370 ایک ایسا گولہ ہے جس کی بارود نکالی جا چکی ہے بہ معنی دیگر یہ بے جان چیز رہ گئی ہے ۔ جواہر لال نہرو کا یہ کلمہ کشمیروں کے زخموں پہ نمک چھڑکنے کے متراوف قرار دیا جا سکتا ہے۔
14مئی 1954ء کے صدراتی حکم کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے یہ حقیقت پائے اثبات تک پہنچتی ہے کہ دفعہ 370 کو ایک ایسی سرنگ کے طور پہ استعمال کیا گیا جس سے کافی آئینی ٹریفک کا گذر ہوا اور یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اِس حد تک آئینی ٹریفک کا گذر کبھی بھی نہیں ہوا تھا جتنا کہ 14 مئی 1954ء کے صدراتی حکم میں ہوا ۔اِس کے سیاسی پس منظر کو پرکھا جائے تو 1950ء کے دَہے کے ابتدائی سالوں میں ہی سنگھ پریوار سے وابستہ پرجا پریشد نے جموں میں ایک پردھان،ایک ودھان اور ایک نشان (ایک ہی سربراہ، ایک ہی قانون اساسی اور ایک ہی پرچم) کا نعرہ بلند کیا تھا جس کو سنگھ پریوار کی دیگر اکائیوں کی بھارت کے طول و عرض میں حمایت حاصل ہوئی چناچہ جموں و کشمیر کے پردھان ثانوی شیخ محمد عبداللہ کو اگست 1953ء میں پابند سلال کیا گیا ۔کہا جاتا ہے کہ پنڈت نہرو سیاسی دباؤ میں آ گئے ۔یہ تاریخ دانوں کیلئے تاریخ میں منعکس کرنے کیلئے قابل قبول ہو سکتا ہے لیکن سچ تو یہ ہے دفعہ 370 کو خالی گولہ و سرنگ بنانے میں جو ملوث ہوں وہ تاریخ کی ضرب کاری سے کیسے بچ سکتے ہیں؟سچ تو یہ ہے کہ بھارت کے سیاسی بازار میں سنگھ پریوار اور کانگریس کے راستے جدا ہو سکتے ہیں چونکہ وہاں سیاسی طاقت کے حصول کا معرکہ رواں ہے لیکن جہاں تک ریاست جموں و کشمیر کا سوال ہے یہ دونوں سیاسی دھڑے ہم قدم و ہم گام رہے ہیں۔کہا جا سکتا ہے کہ پنڈت نہرو کی سر براہی میں بھارتی کانگریس سرکار نے ایک پردھان،ایک ودھان اور ایک نشان کے نعرے کو پذیرائی بخشی۔14مئی 1954ء کا صدارتی حکم کوایک ہی ودھان عملیانے کی ایک بہت بڑی کو شش قرار دیا جا سکتا ہے ۔ اُس کو عملیانے کیلئے سیاسی مہروں کو جموں و کشمیر کی سیاسی شطرنج پہ حسب منشا خانوں میں نصب کیا جا چکا تھا۔یہ سچ ہے کہ دفعہ370 کے تحت صدر جمہوریہ ہند موظف ہیں کہ وہ ریاستی سرکار کی سفارش پہ آئینی امور طے کریں لیکن ریاست سرکار کی یہ سفارشیںاپنی مرضی کے حکمراں ریاست پہ مسلط کر کے وقت بوقت حاصل کی گئیں۔ 14مئی 1954ء کا صدارتی حکم بھی اِسی ترازو میں تولا جانا چاہیے۔
جہاں دفعہ 370 کو کبھی سرنگ بنا کے اُس سے آئینی ٹریفک کو راہگذر فراہم کی گئی اور کبھی اُسے خالی گولہ کہہ کے اُسکا مذاق اڑا گیا وہی دفعہ دفعہ 35-A پہ مدت دراز تک پردہ پڑا رہا یہاں تک کہ عوامی حلقوں میں صرف و صرف دفعہ 370 کو ریاست کا آئینی محافظ مانا گیا حالانکہ اندر خانے اِس دفعہ کو کھوکھلا کیا گیا ۔یہ سب کانگریس سرکاروں کے پے در پے وار سے ہوا۔ 2014ء میں بھاجپا سرکار کے بر سر اقتدار آنے سے سال بھر پہلے 2013 ء میں ارون جیٹلی نے دفعہ 35-A کو حدف تنقید قرار دینا شروع کیا۔اُنہوں نے اِسے بھارتی شہریوں کی اہانت قرار دیا ازینکہ اُنہیں ریاست جموں و کشمیر میں حق سکونت و حق معاش حاصل نہیں۔ 2014ء میں بھاجپا کے اقتدار میں آنے تک یہ بات سنگھ پریوار کی مختلف اکائیوں تک پہنچ چکی تھی اور دفعہ 35-A کا گھیراؤ شروع ہو چکا تھا۔دفعہ 370 پہلے ہی نرغے میں تھی لیکن یہ احساس لئے ہوئے کہ اِس دفعہ کے ساتھ آئینی بندشیں وابستہ ہیںاور اُس پہ ہاتھ ڈالا جائے تو الحاق پہ سوالات اٹھ سکتے ہیں چناچہ دفعہ 35-A پر گھیرا تنگ کر دیا گیا جو سپریم کورٹ میں پے در پے عدالتی عرضداشتوں پہ منتج ہوا جن میں یہ مانگ کی گئی کہ اِس دفعہ کو کالعدم قرار دیا جائے ۔ عدالتی عرضداشتوں میں سنگھ پریوار سے منسلک یا پریوار کے نصب العین سے موافق تنظیموں کی عرضداشتیں بھی شامل رہیں ۔جموں کے عارضی ساکن جن میں مغربی پاکستان کے ریفوجی اور 1954ء سے مقیم صفائی کرمچاری شامل ہیں قطار در قطار شاکی بن کے عرضی کنندگاں کی صفوں میں شامل ہوئے۔
عدالتی محاذ کے علاوہ بھاجپا نے سیاسی محاذ پہ بھی گھیراؤ تنگ کرنا شروع کیا۔ دہلی سرکار تو بھاجپا کے بر سر اقتدار آنے کے بعد سنگھ پریوار کی باندی بن ہی چکی تھی جب کہ جموں و کشمیر میں پی ڈی پی نے بھاجپا کیلئے میدان کھول دیا۔ ریاست میں2014ء کے اواخر میں جو انتخابات منعقد ہوئے اُن میں کسی بھی سیاسی جماعت کو اکثریت حاصل نہیں ہوئی اگر چہ پی ڈی پی سب سے بڑی جماعت بن کے اُبھری ۔پی ڈی پی نے بھاجپا کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے نعرے پہ ووٹ مانگے چناچہ سادہ لوح افراد نے جھانسے میں آ کے پی ڈی پی کے حق میں اپنی آر کا استعمال کیا۔ان میں ایسے افراد بھی شامل رہے جنہوں نے پہلے انتخابی عمل میں کبھی بھی حصہ نہیں لیا تھا۔ انتخابی مہم کے دوران بھاجپا نے 44 سیٹوں کا حدف سامنے رکھا۔ یہ اسمبلی کے ممبراں کی وہ تعداد ہے جو سادہ اکثریت کے حصول کیلئے لازمی ہے جس سے بلا شرکت غیرے سرکار تشکیل دی جا سکتی ہے حتّی کہ ارون جیٹلی وادی کشمیر سے پانچ سیٹوں کے طالب رہے جن کو اُنہوں نے پانچ کنول کے پھولوں کے حصول سے تشبیہ دی۔ پانچ کنول کے پھولوں کی حسرت تو بھاجپا لیڈرشپ کے دل میں رہی لیکن پی ڈی پی کو شیشے میں اتارنے اور ایک مخلوط حکومت کی تشکیل میں بھاجپا کامیاب ہوئی ۔عوام الناس کی اکثریت دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی اور بقول مرحوم مفتی سید قطب شمالی اور قطب جنوبی آپس میں مل گئے جو کہ قدرتی نظام میں انہونی ہے۔ اِس اتحاد کا ایک منشور بھی طے پایا جسے ’ایجنڈا آف الائنس‘ کا عنواں دیا گیا۔اِس میں یہ قرار پایا کہ ریاست کے موجودہ آئینی ڈھانچے کو جوں کا توں رکھا جائے گا۔ یہ قول و قرار اُس کاغذ کے بھی قابل نہ تھا جس پہ یہ تحریر ہوا۔بھاجپا کے رہبر نہ ہی دفعہ 370 کو حدف تنقید قرار دینے سے باز آئے نہ ہی دفعہ 35-A کواور ایجنڈا آف الائنس کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔
جہاں تک سپریم کورٹ میںدفعہ 35-A کے دفاع کا سوال رہا وہاں بھاجپا کی دہلی سرکار نے سرد مہری کا ایسا لبادہ اوڑھا کہ الاماں و الحفیظ کہتے ہی بنی۔ سرد مہری کا رویہ ایجنڈا آف الائنس کے منافی رہا جس کے مطابق بھاجپا وعدہ بند تھی کہ ریاست کا آئینی ڈھانچہ جوں کا توں رکھا جائے گا۔ بھاجپا کی عیاں سرد مہری کے باوجود پی ڈی پی کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ حکومت سے الگ ہو جائیں بر عکس پی دی پی اقتدار سے تب تک چپکتی رہی جب تک کہ بھاجپا نے محبوبہ مفتی کو اقتدار کی گدی سے بے دخل کیا۔بیدخلی کے بعد محبوبہ مفتی نے اپنے دفاع میں بیان بازی شروع کی۔’’گریٹر کشمیر‘‘ کو اپنے ایک انٹرویو میں جو 2018ء میں 18 ؍ستمبر کے روز شائع ہوا محبوبہ مفتی نے انکشاف کیا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اُن کو یہ یقین دہانی کرائی کہ دفعہ 35-Aجو سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے کی سنوائی لارجر بنچ کو ریفر ہو گی اور اُس کے بعد یہ سرد خانے میں چلی جائے گی۔سرد خانے میں جانے کا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ اُس کے بعد اس پہ جرح و بحث کا امکان نہیں رہے گا اور یہ آئی گئی بات ہوکررہ جائے گی۔ ایسے آئینی معاملات میں بنچ کو یعنی جج صاحبان کی مجموعی تعداد کو بڑھانا پڑھتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ دفعہ 35-Aکے ضمن میں لارجر بنچ کی تشکیل بقول محبوبہ مفتی ہوتی ہے یا نہیں؟
دفعہ 35-Aسے وابستہ آئینی معاملات پہ بھارتی سپریم کورٹ میں پہلے بھی عرض داشتوں پہ بحث ہوئی ہے اور عدالتی فیصلے بھی صادر ہوئے ہیں۔1955ء میں لکھن پال بنام جموں و کشمیر سرکار اور 1968ء میں سمپت پرکاش بنام جموں و کشمیر سرکار میں ریاست جموں و کشمیر کے آئینی اختیارات کو چلینج کیا گیاجس میں عدالت عالیہ نے ریاست جموں و کشمیر کے آئینی اختیارات کے حق میں فیصلہ دیا اور لکھن پال اور سمپت پرکاش کی عرض داشتوں کو مسترد کیا گیا۔اگر سپریم کورٹ نے دفعہ 35-A پہ نظر ثانی کی ضرورت محسوس کی تو لارجر بنچ کی تشکیل ہو سکتی ہے جس میں پانچ جج صاحبان سے زیادہ بینچ تشکیل دیں گے لیکن ماضی کے عدالتی فیصلوں کو مد نظر رکھ کے بہترین صورت یہی ہو گی کہ دفعہ 35-A کی نفی میں کی گئی عرضداشتوں کو من جملہ مسترد کیا جائے۔
Feedback on: [email protected]