مشتاقؔ فریدی
قریباً تیس چالیس سال قبل بزرگ حضرات ہی نمازیں پابندی سے پڑھا کرتے تھے۔ علم کے مقابلہ میں اس کا سرمایہ تقویٰ ہوا کرتا تھا۔ اس خدا ترسی کے جذبے سے یہ بزرگ حضرات مساجد کو آباد رکھتے تھے۔آج اللہ کا کرم ہے ، دینی ہَوا نوا نے ماحول کو دین بیندی سے جلا بخشی ہے۔ دینی مدرسوں کے علاوہ نجی طور بھی والدین اپنے بچوں کو دینی تعلیم دینے کیلئے کوشاں رہتے ہیں۔ ائمہ مساجد بھی مساجد میں ناظرہ پڑھانے کا معقول اہتمام کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ مساجد میں بچوں کی اچھی خاصی تعداد ہوتی ہے۔آج ہمارا نوجوان طبقہ مساجد میں ذوق و شوق سے آتا ہے۔ ان کو دیکھ کر دل شاد ہوتا ہے لیکن اکثر نوجوان نماز کی روح سےنابلد ہو تے ہیں۔ نماز کے روحانی تقاضوں کے علاوہ ظاہرہ تقاضے بھی ہیں۔ اولاً نماز کے لئے مسنون لباس لازمی ہے۔ مغربی تہذیب کا شاخسانہ ہے کہ ہماری نئی پود خصوصاً نوجوان ایسا لباس زیب تن کرتے ہیں کہ بقول غالب ؔمرحوم ؎
ڈھاپنا میرے عیوب کو آخر کفن نے ہی
ورنہ میں ہر لباس میں بدن ہی تھا
نجی اور معاشرتی زندگی میں جیسا بھی پہناوا پسند ہو چلتا ہے، مگر نماز میں ایسا لباس زیب تن کرنا لازمی ہے جو نمازی کے دین پسندی کے جذبے اور انداز فکر کا عکاسی ہو۔
ملازمین حضرات دفتروں سے اور طلبہ اسکولوں سے اُٹھ کر ظہر و عصر کی نمازوں کیلئے مساجد میں آتے ہیں، ان کیلئے سرکاری لباس تبدیل کرنا قدائے مشکل ہوتا ہے۔ یہ شرٹ اور پتلون پہنتے ہوئے ہی مساجد میں تشریف لاتے ہیں۔ قمیض کے بازو کہنیوں تک ہی ہوتے ہیں اور پتلوں Skin tight ہوتی ہے ۔اس چاک و چوبند لباس میں دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ یہ مساجد میں نہیں بلکہ کرکٹ کے میدان میں کرکٹ کھیلنے تشریف لائے ہیں۔ نماز کے روحانی تقاضوں کے ماوریٰ یہ نوجوان حضرات نماز کے ظاہری تقاضوں کو بھی نظر انداز کرتے ہیں۔ اس نیم برہنہ لباس کو دیکھ کر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ایسے نمازیوں پر رحمت باراں کی طرح برسیں گی یا ان کو دیکھ کر منہ موڑ کے دربار خدا وندی میں شرمسار ہو کر واپس جائیں گی۔
یہ بات وضاحت طلب نہیں ہے کہ مسجد صرف عبادات، ذکر و افکار ،وعظ و تبلیغ، دینی اجتماعات کے لئے ہی مخصوص ہے۔ مساجد کے تقدس کا تقاضا ہے کہ نمازی میں مسجد میں داخل ہوتے ہی اپنے آپ کو ربّ کریم کےحضور روح کے ساتھ پیش کرے ،اپنی خطاوں، لغزشوں اور گناہوں کا شدید احساس سے بید لرزاں کی طرح کانپتا رہے۔ اللہ کی گرفت کے احساس سے نمازی کی آنکھوں سے اشک سیل رواں طوفان کی طرح امڈ آئے اور ربّ ذوالجلال بھی وجد میں آئے اوررحمتوںو برکتوں کے سارے پٹ ایک دم کھول دے، مگر اسکے بر عکس نمازی مسجدوں میں ٹولیاں بنا کر گپ شپ میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔ لگتا ہے یہ نمازی اپنی شان بے نیازی کی سرحدوں کو پھلانگ کر کسی اسٹیڈیم یا سرکس کے کھیل سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
دورِ رحمت یعنی دور صحابی کرام میں صحابہ کرام مساجد کو لوبان اور دیگر خوشبوں سے معطر رکھتے تھے، حالانکہ وہ Smoking اور دیگر نشوں کی لذشوں سے دور ہوتے تھے ۔آج کل نمازی مسجد کیلئے گھروں سے نکلتے ہیں تو سگریٹ کے کش لگاتے رہتے ہیں، نہ صرف ماحول کو بدبو سے گندہ کرتے ہیں بلکہ مساجد کو بھی اپنی متعفن سانسوں سے بھر دیتے ہیں ۔حدیث پاک میں فرمایا گیا ہے کہ مسجد کی ہر اینٹ روح رکھتی ہے۔ گویا جس طرح انسانی روح اور تن و بدن خوشبو سے حظ محسوس کرتے ہیں اور بدبو سے منتفر ہوا کرتے ہیں، اسی طرح مساجد بھی عطر و خوشبو سے حث محسوس کرتی ہیں، ماہ صیام میںتو smoking اور دیگر نشہ آور اشیا کے لگانے سے بدبو کا طوفان جادو کی طرح سر اُٹھاتے رہتا ہے۔ماہ صیام میں وعظ وتبلیغ کا سلسلہ زوروں پر ہوتا ہے ۔ ایسے واعظین کرام جن کا ظاہر و باطن کے مبغتہ اللہ کے رنگ میں رنگاہوتا ہے ،اُن کا ہر ایک لفظ سامعین کے دل و دماغ میں شبنم کے قطروں کی طرح ٹھنڈک پہنچاتا ہے۔ ایسے بھی واعظین بن بلائے مہمان کی طرح نہیں بلکہ بَلانا گہانی کی طرح محراب و منبر پر ریش مبارک کو کھجلاتے ہوتے گہر فشانی کرتے ہیں جن کے دل سیاہ ہوتے ہیں ،جن کے دامن ہی نہیں داڑھیاں بھی خون سے تر ہوتی ہیں۔ لیکن ان کی حرماں رضی یہ ہے کہ انہیں اپنی سیاہ کاریوں کا احساس ہی نہیں ہوتا ہے۔ایسے ہی اک امام ِذیشان کے بارے میں مصدقہ اطلاع ہے کہ ان کے بحیثیت امام جامعہ پہچہتر کے قریب رقم بسم اللہ پڑھ کے با وضو ہڑپ کر لئے اور دعویٰ ہے کہ ’دامن نچوڑ دوں تو فرشتے وضو کریں‘۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ملتِ محبوب کو ایسے اماموں کے خیر و شر سے محفوظ رکھے۔
تتمہ تحریر:
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں
ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبین نیاز میں
وما علینا الا ابلاغ
(رابطہ۔9596959045)
[email protected]>