ریحانہ کوثر۔منڈی پونچھ
کسی بھی علاقہ کی ترقی میں سڑک کا اہم کردار ہوتا ہے۔دریائوں اور ندی نالوں کے آر پار علاقوں اور بستیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملانے کے لئے پلوں کا ہونا بھی لازمی ہوتا ہے ،خصوصاً دور دراز پہاڑی علاقوں میںدریائوں اور ندی نالوںکی کثرت ہوتی ہے،جس کے نتیجے میں ان علاقوں کو ایک دوسرے سے ملانے میں پلوں کا اہم کردا ر ہوتا ہے تاکہ پہاڑی علاقوں میں آباد بستیوں میںزندگی کا رابطہ برقرار رہ سکے اور انہیں بھی روز مرہ کے کاموں کو انجام دینے میں آسانیاں فراہم ہوسکیں۔گویا اکثر دو گاؤں یا دو علاقوں کو جوڑنے کے لئے جو رابطہ پل بنے ہوتے ہیں ،وہ اُن علاقوں کے لئے لائف لاین کی حیثیت رکھتے ہیں،جس کے سبب زندگی کا کاروبار اور رنگینیاں برقرار رہتی ہیں۔ اس اعتبارسے اب اگر جموں کشمیر کے ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی کے بلاک ساتھر کی بات کریں تو وہاں کے کئی علاقوں کو ایک دوسرے سے ملانے کے لئے ایک لوہے کا ایک پل بنا ہوا ہے ،جو کہایک لمبے عرصے سے عوام کے لئے خوف و ہراس اور پریشانیو ں کا سبب بنا ہوا ہے۔ مقامی لوگوں اور متعلقہ سرپنچ کے مطابق اگرچہ اس معاملہ کو کئی بار انتظامیہ کے سامنے اٹھایا گیا ہےلیکن اس پُل کی خستہ حالت آج بھی جوں کی توںہے۔
اس حوالے سے مقامی باشندہ بشارت حسین شاہ بتاتے ہیں کہ یہ پُل سات گاؤں کو شہر کے ساتھ جوڑتا ہے۔ ساتوں گاوئوں کے لئے یہ پُل ریڈھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہےاوراسی لوہے کے پل سے ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کے لئے منڈی یا پونچھ کا رُخ کرتے رہتےہیں۔ مقامی لوگوں کے کاروبار زندگی اور طلباء و طالبات کی حصولِ تعلیم میں بھی اس پُل کی ایک خاص اہمیت ہے لیکن اس کی خستگی عوام الناس کے انتہائی تشویش ناک بنی ہوئی ہے۔اس پُل کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ انتظامیہ فوری حرکت میں آتا لیکن ہوتا بالکل اسکے برعکس ہے۔ اس معاملے کوکئی بار انتظامیہ کی نوٹس میں لانے کے باوجود کوئی بھی اقدام اٹھایا نہیں جارہا ہے۔گاؤں والوں کے لئے زندگی کی دوڑ دھوپ کا انحصار اسی واحد پُل پر ہے۔ اس کے علاوہ اگر ان علاقوں میں کوئی بیمار ہوجائے تو مریض کو چارپائی پر اُٹھا کر اسی پل سے گزرنا پڑتا ہے۔ لیکن اس جھولہ پُل کی ابتر حالت سے عوام کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ گاؤں والوں کے مطابق2014 میں جو سیلاب آیا تھا جس میں کافی مالی و جانی نقصان ہوا تھا۔ اُس سیلاب نے اِس رابطہ پل کو بھی کافی نقصان پہنچایا تھا۔ چنانچہ کئی رابطہ راستے اور پُل ٹوٹ پھوٹ کر بہہ گئے تھے،اُنہیں آج تک مثبت طریقے پر بحال نہیں کیا گیا ہے۔جبکہ یہاں کے لوگوں نے اپنے اخراجات سے نالوں کے اوپر عارضی پُل بنا ئے جو کسی بھی وقت طرح محفوظ نہیں اور کسی بھی وقت گر سکتاہے۔جس انسانی جانوں کو بہت بڑاخطرہ لاحق ہے۔ مقامی باشندگان کے بقول لوہے کا یہ پُل بالکل بوسیدہ ہو گیا ہے۔ لوگ بہت مشکل سے اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر اس پُل کے اوپر سے گزرتے ہیں۔
ایک مقامی خاتون گلناز اختر کہتی ہیں کہ’’ہم نے کئی بار متعلقہ محکمہ سے گزارش کی کہ اس پل کو محفوظ بنانے کا اقدام کیا جائے تاکہ لوگوں کی تشویش دور ہوسکے اور اُنہیں ایک محفوظ رابطہ کاری پُل ملے،لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی ،جس کے نتیجے اس پل پر کبھی بھی کوئی بڑاحادثہ ہو سکتا ہے۔ اسکولی بچوں کو اس پُل سے گزرنے میں کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ اس پُل کے نیچے جو نالا بہتا ہے وہ بہت گہرا ہے اورپانی کا بہاؤ بھی بہت تیز ہے، ساتھ میں دو نالے اور بھی ہیں، جنکے اوپر پُل کا نام و نشان تک نہیں ہے۔جب لوگ اس پل سے گزرتے ہیں تو پھر انکو ساتھ میں ہی دوسرا نالا پُل کے بغیر پار کرنا پڑتا ہے۔ جبکہ بارشوں کے دوران اس نالے کو پار کرنا موت کو دعوت دینے کے برابر ہوتا ہے۔چنانچہ بارشوں کے دوران اکثر بچے اسی خستگی کا شکارپل سے گزرتے ہیں، جو بہت خطرناک ہے،پھر بھی وہ ایسا کرنے کے لئے مجبور ہوتے ہیں۔ اگر ان کے ساتھ کو حادثہ پیش آتا ہے تو اس کا ذمہ داری کس پر ڈالی جائے گی؟ مقامی فریلانس جرنلسٹ شیراز احمد میر بتاتے ہیں کہ’’یہاں کی پوری آبادی ماہی گیر طبقہ سے وابستہ ہے اور لوگ کافی غریب ہیں شائد اسی لئے سرکار توجہ نہیں دے رہی ہے۔اگرچہ اس سلسلے میں سرکار اور متعلقہ محکمہ کے افسران سے کئی بار گزارشیں کیں کہ اس پل کو پختہ طریقے سے محفوظ بنایا جائے لیکن ہماری بات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے عوام کو دن بہ دن خوف و ڈر اور تشویش میں مبتلا ہورہے ہیں۔ پل کی خستہ حالت سے عوام کو دن رات اندیشہ رہتا ہے کیونکہ اس کے نیچے سے جو نہر بہتی ہے ، اکثر اُس میںپانی کا بہاؤ کافی تیز رہتا ہے۔ اگر خدا نخواستہ کبھی حادثہ پیش آجائے تو برے پیمانے پر نقصان ہو سکتا ہے۔ کیونکہ جہاںیہ لوہے کا پُل بوسیدہ ہوچکا ہے وہیں اس کے دونوںا طراف کے بھاند کی دیواریں گرنے والی ہیں۔ جب اسکولی بچے یہاں سے گزرتے ہیں تو انہیں آنے جانے میں کافی دشواری پیش آتی ہے۔ بچوں کے والدین سہمے ہوئے رہتے ہیں اور وہ محسو س کرتے ہیں کہ شاید انتظامیہ نے یہاں کے لوگوں کو بے سہارا چھوڑ دیا ہے۔ یا وہ کسی بڑے حادثہ کا انتظار کر رہے ہیں تب جاکر کہیں ان کی نیند کھلے گی۔
اس پُل سے روزانہ گذرنے والے طلباء علم افزا، الطاف، علینہ، رُتبہ اور راحت کا کہنا ہے کہ’’جب ہم اسکول جاتے ہیں تو ہمیں اس پُل کو پار کرنے کے لئے ایک دوسرے کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ کیونکہ یہاں پانی کا بہاؤ بہت تیز ہے۔ہم یہاں سے آنے جانے میں بہت ڈرتے ہیں۔ تیز بارش میں ہم سب پریشان جاتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس گھر جانے کے لئے اس کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل راستہ نہیں ہے۔بارش کے مہینے میں کئی کئی دنوں تک ہم اسکول ہی نہیں جاتے جسکی وجہ سے ہماری پڑھائی بھی چھوٹ جاتی ہے۔’’کئی سال سے ہم لوگ یہاں ایک مضبوط پُل کی تعمیر کی مانگ کر رہے ہیں تاکہ لوگوں کی پریشانیاں ختم دور ہوسکیں لیکن آج تک کسی افسرکے کان میں جوں تک نہیں رینگی۔ طلباء اور لوگوں کی یہی گزارش ہے کہ اس پُل کی تعمیر کی جائے تا کہ لوگوں کو آنے جانے میں کسی بھی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔اگر یہ ایسے ہی نظر اندازی کا شکار ہوتا رہا تو کسی نہ کسی دن یہ پل موت کا جھولا ثابت ہوسکتا ہے۔(چرخہ فیچرس)