ماسٹر طارق ابراہیم سوہل
ناظم کون ومکان ،خالق ارض و سماء اور رب کائنات کی تماتر مخلوق میں بنی نوع انسان کی تخلیق کا مقصد بھی اور منصب بھی عظیم ہے۔عناصر اربعہ کے خمیر سے تخلیق شدہ انسان اول، جسکی زندگی کا آغاز،تفکرات اور ہموم و غموم اور حزن و ملال ،یاس و حسرت کی آلائشوں سے پاک ماحول یعنی جنت میں ہوا ،جو مشیت ایزدی کے مطابق مسجود ساکنان ملائکہ کے اعزاز سے سر فراز ہوا اور یہ تفوق و امتیاز آدم کو اس علم کی بنیاد پے نصیب ہوا ،جو علم اسکو علیم و خبیر،الله رب العزت نے عطا کیا۔اس قدر فائز المرام حضرت آدم اپنے نفس میں بے چینی اور تنہائی کی خلش محسوس کر رہا تھا کہ خالق کائنات نےحضرت آدم کی بائیں پسلی سے حضرت حوا کو پیدا کیا اور جب آدم خواب سے بیدار ہوا تو پہلی نظر میں حضرت حوا کو دیکھ کر سکون و راحت کی سانس لی۔ مگر نفس کی لغزش نے ایک ابتلاء عظیم میں مبتلاء کر دیا اور اس کی پاداش میں اگلی منزل یہ سرائے فانی ٹھہری۔زمین پے اترتے ہی آدم اور حوا کی قربتیں طویل المدت فرقت میں بدل گئیں۔ رنجم و الم کے پہاڑ ٹوٹے،حزن و ملال کی آندھیاں چلیں،ندامت کے آنسوؤں کا سیلاب بہا۔ ادھر رحمت خداوندی جوش میں آئی اور حضرت آدم اور حضرت حوا کی فرقت پھر وصال میں بدل گئ ،دونوں نے بخشش طلب کی اور شرف قبولیت سے سرفراز ہوئے۔
حضرت آدم اور حضرت حوا کی اس مصیبت کا باعث و محرک ابلیس لعین تھا۔اس ملعون نے اول تو آدم کے سامنے سجدہ کرنے سے انکار کیا اور یہ سجدہ عبودیت نہیں تھا بلکہ سجدہ تعظیم تھا ۔ یہیں پہ اسکی شرارت اور حسد و عناد کا شعلہ نہیں بجھا بلکہ آ دم اور اولاد آدم کو گمراہ کرنے کی قسم کھائی اور پہلے ہی وار میں حضرت حوا کو شجرہ ممنوعہ کے پھل کی دل میں تحریص ڈالی اور پھر اس معصیت میں آدم بھی ملوث ہو گئے۔ البتہ آدم اور حوا اپنی خطاء پے نادم ہوئے لیکن ابلیس ملعون نے عقل کے گھوڑے دوڑائے اور بجائے ندامت کے اپنی برتری کی وکالت پے بضد رہا اور اسی وجہ سے ابدی لعنت کی آہنی زنجیروں میں جکڑ گیا۔
زندان ملامت میں پا بزنجیر ابلیس اور اسکی جنس، اولاد آدم کی تباہ حالی اور گمراہی کی تماتر کوششوں میں ہمہ تن ،شب و روزہر زماں و ہر مکاںاپنی مہم جوئی میں نہ صرف کارمگس انجام دے رہا ہے بلکہ اسکے تیر بہدف وارانسانوں کی ایک کثیر تعداد کو اپنی حرص و ہوس کا نرم نوالہ بنا کر تن من نگل رہا ہے اور اسکی اس مہم کو ہماری تن آسانی اور بہیمی خواہشات اور مادی جنون مقوی غذا فراہم کر رہے ہیں۔ کچھ اسی نوعیت کا متعفن اور مکدر ماحول ہر سماج کی ثقافت اور طرز حیات کا نہ صرف مستقل حصہ بنتا ہوا نظر آ رہا ہے بلکہ اس میں روز افزوں شدت نے انسانیت کے حصار کی اساسوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور گھر گھر شیطان کے دستور کا ایک بڑا حصہ نافذ العمل ہے۔قول و فعل کے تضاد کی روش سے رہبروں کے اذہان میں رہزنی کا نشہ سرایت کر چکا ہے۔ریاکاری کے مرض مہلک نے عمائدین و قائدین کے دل و دماغ پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے۔ہر شخص کے ذہن میں خود بینی و خود نمائی کا فتور ،جسمانی اور روحانی قوتوں کو مفلوج کر رہا ہے۔شرم و حیاء کو ایک فرسودہ خیالی تصور کیا جارہا ہے۔دوسروں کے حقوق پے شبخون کو اپنی لیاقت سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ حصول سیم و زر کو زندگی کی معراج سمجھا جا رہا ہے ۔ مرود و زن کے آزادانہ اختلاط کو جدیدیت اور ترقی کا نشان مانا جا رہا ہے۔والدین خالق کی رضامندی پہ اولاد کی رضامندی کو ترجیح دینے کے لئے بے بس و بے کس نظر آ رہے ہیں۔گویا انسانیت کی روح بہت نحیف و نژار اور لاغر و نیم جان ہو چکی۔حالات ہمیں للکار رہے ہیں مگر ہماری آنکھیں نہیں کھل رہی ہیں ،اس لئے کہ ہمارے دل بے نور ہو چکے ہیں۔سیاہ کاری کی مشق نے ہمارے دلوں کی حدود کو سیاہ داغوں سے لبا لب بھر دیا ہے۔جب تک ہم اپنی عقل و فہم سے نظام دنیا چلانے کی مذموم حرکات کرتے رہیںگے تب تک ہمارے گھروں کے اندر امن و سکون اور کامیابی و کامرانی کی راہیں کھل نہیں سکتیں۔اس لئے اپنی تخلیق کا عظیم مقصد اور اس عارضی سفر زندگانی کے حقائق کو سمجھنے کے لئے ہمیں رب کائنات کی وحدانیت اور حق عبودیت کو تسلیم کرنے کے لئے شمع رسالت کے لائق ہوئے، ضابط حیات کو سینے سے لگانے کی ضرورت ہے۔زمانے کی موجودہ روش اور مغربی ثقافت کی یلغار کا مردانہ وار مقابلہ کرنا ہوگا چونکہ ؎
حدیث بے خبراں ہے تو بہ زمانہ بساز
زمانہ با تو نہ سازد تو بہ زمانہ ستیز
یعنی جہلاء کا قول ہے کہ زمانہ تیرے ساتھ نہیں چلے گا بلکہ تو زمانے کے ساتھ چل۔لیکن علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ اگر زمانہ تیرے ساتھ نہیں چلتا ہے تو،توزمانے کے ساتھ جنگ کر۔اسی کو زندگی کی علامت سمجھا جاتا ہے اور یہی مقصد حیات انسانی ہے۔ چونکہ شعلہ نمرود کی حدت و شدت ،انسانیت کے گلشن کی کلیوں اور شگوفوں کی معتر نگہتوں کو خشک کر کے خس و خاشاک میں بدل رہی ہے اور ہماری جدوجہد کی مہلت کی سرحدیں سمٹ رہی ہیں اس لئے زندگی کے لمحات کو اس سے قبل کہ چراغ زندگی بجھ جائے،غنیمت جان کر
گھر گھر اور ہر در اخلاقی قدروں کو بحال کرنے میں وقف کیا جائے تاکہ ثریا نشان اولاد آدم اور باالخصوص خیر امت کے اعزاز سے سرفراز یہ امت عالمی امن کی بقاء اور ہر دو جہاں کی سیادت و قیادت اور امامت میں یکتا و بے مثل ثابت ہو۔یہی ہے اصل حیات اور عین حیا و دیگر ہیچ۔
پتہ۔نیل چدوس ، بانہال
رابطہ۔ 8493990216