مختار خان
ہرسال یکم مئی کو پوری دنیا یوم مزدور کے طور پر مناتی ہے۔ اس دن کو منانے کی شروعات 1890 میں شکاگو سے ہوئی تھی۔ تب سے لے کر آج تک پوری دنیا میں یکم مئی بطور یوم مزدورمنایا جاتاہے۔یومِ مزدورمنا نے کی شروعات کب اور کیسے ہوئی۔۔۔؟
صنعتی انقلاب اور مزدور طبقہ : یورپ میں صنعتی انقلاب کا آغاز اٹھارویں صدی سے پہلے ہی ہو چکا تھا۔ اسٹیم انجن کی ایجاد کے بعد کارخانوں میں بڑے پیمانے پر مشینوں کا استعمال شروع ہوا ،اس کے بعد یورپ اور امریکہ کے صنعتی شہروں میں بڑے بڑے صنعتی کارخانے قائم ہوئے ۔ اسی کے ساتھ کارخانوں میں کام گاروں اورمزدوروں کی مانگ بڑھنے لگی۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے گاؤں اور قصبوں سے مزدور بلائے گئے۔ بہترمستقبل اور روزگار کے لیے ایسے مزدور جن کی اپنی ملکیت کی زمین نہیں تھی۔ سب سے پہلےانہوں نے شہروں کا رخ کیا۔
جب یہ مزدور شہر پہنچے تو یہاں انہیں نامناسب حالات میں معمولی اُجرت پربندھوا مزدور کی طرح دن رات کام کرنا پڑتا۔ زائد منافع کی غرض سے مالکان انکا خوب استحصال کیا کرتے۔ اس وقت کارخانوں میں کام کے اوقات متعین نہیں تھے، اُنہیں گھنٹو ں محنت کرنی پڑتی، مالکان مزدوروں کے ساتھ غلامانہ برتاؤ کرتے، صبح سے لیکر دیر رات تک مزدوروں سے کڑی مشقت کروائی جاتی، دن کے 18 گھنٹوں تک کام لیا جاتا، اس دوران کسی دن کوئی چھٹی یا تعطیل جیسی کوئی رعایت تک نہیں تھی۔ کام کے دوران گرکوئی حادثہ پیش آتا تومالکان کی طرف سے کسی طرح کا معاوضہ تک نہیں دیا جاتا۔ غرض یہ کہ مزدوروں کو کسی طرح کے کوئی انسانی حقوق حاصل نہیں تھے، اُن کا جیون نہایت ہی اذیّت ناک بنارہتا۔
دوسری طرف بازار میں کارخانوں سے تیارشدہ مال کی مانگ بڑھنے لگی تھی۔ تیارشدہ اشیاء بھاری منافع کے ساتھ بازار میں فروخت ہونے لگی۔ 19ویں صدی کے آتے آتے صنعت کاروں کے پاس منافع کی شکل میں زائد سرمایہ اکٹھا ہونے لگا ۔ اس طرح معاشرہ میں ایک نیا سرمایہ دار، طبقہ وجود میں آ نے لگا ۔ یہ سرمایہ دارطبقہ اخلاقی اعتبار سے ماضی کےزمینداراورجاگیردارطبقہ سے کہیں زیادہ بےحس اورظالم ثابت ہوا۔ صرف منافع کمانا ہی انکا مقصد ہوا کرتا تھا ۔ مزدوروں کی محنت کا استحصال کر مالکان خوب منافع بٹورنے لگے۔ مزدوروں کی حفظان صحت کا بھی یہاں کوئی خیال نہیں رکھا جاتا ۔ شہروں کی تا ریک اور تنگ بستیوں میں اُنہیں اپنے دن گزارنے پڑتے۔ اکثر کامگار بہت جلد بیمار ہو جاتے، اس کے با وجوداُنہیں لگاتار غلاموں کی طرح کام کرنا پڑتا۔ غرض یہ کہ مزدورطبقہ غلامانہ زندگی جینے پر مجبور تھا، دن بہ دن مزدوروں کی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی تھی۔
طبقاتی شعور کے فقدان کے سبب پہلے پہل مزدوراپنی بدحالی کے لیے مشینوں کو ہی ذمہ دار ٹھہراتے ۔ انکو لگتا کہ مشینوں کی ایجاد کے چلتے انکی یہ حالت ہوئی ہے۔ لیکن جیسے جیسے ان میں (Class Conscious) طبقاتی شعور بیدار ہوا، اُنہیں یہ بات سمجھ میں آنے لگی کہ در اصل اُنکی بد حا لی کے لیے مشینیں نہیں بلکہ یہ مالکان ذمہ دار ہیں، یہی اُنکی محنت کا استحصال کر رہے ہیں، بلکہ استحصال پر مبنی معاشی نظام کی وجہ سے ہیں ۔ اُنہیں یہ احساس ہونے لگا کہ اُنہیں بھی ایک انسان کی طرح زندگی جینے کا حق حاصل ہے۔ اس احساس کے جاگتے ہی مزدوروں میں ما لکان کے خلاف بے چینی بڑھنے لگی۔مالکان اور حکمران طبقہ کی ملی بھگت کے چلتے مزدوروں کی پریشانیوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔
یہاں تک کہ مزدوروں کو اپنی تنظیم بنا نے کا بھی حق حاصل نہیں تھا ۔ مزدوروں کی تنظیم نہ ہونے کی وجہ سے اجتماعی طور پر احتجاج یا اپنی مانگیں منوانے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔ منافع پر مبنی استحصالی نظام کے بڑھتے ظلم و جبر سے مزدوروں اور ما لکان کے درمیان طبقاتی کشمکش پیدا ہوتی گئی اوردیکھتے ہی دیکھتے یورپ اور امریکہ میں شہری معاشرہ دو علاحدہ طبقوں میں بٹ گیا۔ ایک طرف بڑے بڑے صنعت کار ، تاجر اور کارخانوں کے مالکان تو دوسری طرف اپنے حقوق کے لیے کوشاں کارخانوں میں کام کرنے والے مزدور۔اپنی قسمت کا رونا چھوڑکر اَب مزدور اپنے حقوق پانے کے لئے متحد ہونے لگے، طبقاتی سطح پران میں بیداری آنے لگی۔
یورپ کے ساتھ ساتھ امریکہ میں بھی مزدور اجتماعی طور پراپنی آواز اٹھانے لگے۔ تنخواہ میں اضافہ کے لیے انہوں مالکان کے سامنے اپنی مانگیں رکھنے کی شروعات کی۔
پندرہ سے سولہ گھنٹے تک کام کے بعد اُنہیں بہت کم اُجرت دی جاتی۔ سال میں 365 دن کام کرنا پڑتا تھا،اپنے کام سے غیر حاضر رہنے پر پیسے کاٹ دیے جاتے، اس کے علاوہ ان پر طرح طرح کی شرائط اور پابندیاں بھی عائد تھیں۔ مزدوروں کو کارخانوں میں بنےاسٹور سے ہی مہنگے داموں میں سامان خریدنا پڑتے ۔کام کے دوران اگرکسی مزدور کی موت ہوتی یا اس سے چوٹ لگتی تو اس کا کوئی معاوضہ نہیں دیا جاتا۔
اپنی اس بد حالی کو بدلنے کی خاطرمزدور اکٹھا ہونے لگے۔ لیکن اب بھی اجتماعی شکل میں انکی طرف سے کوئی کڑا قدم نہیں اٹھا یا گیا تھا۔ ما لکان کو جہاں کہیں مزدوروں کے باغی سر نظر آتے اسے نوکری سے نکال دیا جا تا۔ صنعتی انقلاب کے اس دور میں پہلی بار 1824 میں انگلینڈ میں مزدوروں نے اپنے حقوق حاصل کرنے کی غرض سے پہلی مزدوروں کی تنظیم بنائی، اس کے بعد یورپ اورامریکہ میں بھی ٹریڈ یونین کا قیام عمل میں آیا۔ ٹریڈ یونین بننے کے بعد مزدور اپنی مانگووں کے لیے جلوس نکالنے لگے۔ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند ہو نے لگی۔ مزدوروں کے درمیان بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔ یورپ کی طرح ہی امریکی مزدوروں میں بھی مالکا ن کے خلاف غصہ بڑھنے لگا تھا۔
یکم مئی 1886سن 1886 کی بات ہے ۔پہلی مئی کو امریکہ کے سبھی بڑے شہروں میں مزدوروں نے ایک ساتھ ہڑتال کااعلان کردیا۔ پہلی باراتنے بڑے پیمانے پر مزدوروں نے کام پر سے غیر حاضر رہنےکا فیصلہ کیا۔مزدوروں نے اس دن جگہ جگہ جلوس نکالے۔ ہے مارکیٹ شکاگوشکاگو میں ہڑتال کے اعلان کے بعد ‘ ہے مارکیٹ ‘ چوراہے کے پاس ہزاروں کی تعداد میں مزدور جلوس کی شکل میں اکٹھا ہوتے گئے۔ مزدورو کی زبان پر ایک ہی نعرہ گونج رہا تھا، جس کے بول تھے Eight hours work day
اُن دنوں مزدوروں کو 16 گھنٹے تک کام کرنا پڑتا تھا، جس کی وجہ سے اُنہیں ہر طرح کی سماجی ، ثقافتی، یا ادبی سرگرمیوں سے محروم رہنا پڑتا۔مزدوروں کی مانگ تھی، آٹھ گھنٹے کام ،آٹھ گھنٹے آرام اور باقی ماندہ 8 گھنٹے اپنی سماجی، ثقافتی، ادبی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے یعنی بطورِ انسان جینے کے لئے۔ اسی کے ساتھ ایسی دیگر مانگیں لیکر مزدور یہاں اکٹھا ہوتے گئے۔ٹریڈ یونین بنانے کا حق، مزدوروں کے معاملات کو حل کرنے کے لیے علاحدہ لیبر کورٹ کا انتظام، خواتین ورکرس کو دوران حمل آرام دیا جائے۔
مالکان کو مزدوروں کی یہ مانگیں قطعی منظور نہیں تھیں۔ وہ اپنا استحصالی نظام چلائے رکھنا چاہتے تھے، اس میں حکمران طبقہ اُنکے ساتھ کھڑا تھا۔ مزدور اپنی ان مانگوں کو قانونی جامہ پہنانا چاہتے تھے۔مالکوں نے مزدوروں کی اس بغاوت کو کچلنے کے لیے ہر طرح کے حربے اپنائے، پولیس اور حکومت سے سانٹھ گانٹھ کی ۔ مالکان کسی بھی صورت میں مزدوروں کی آواز کو دبانا چاہتے تھے۔
یکم مئی کا وہ تاریخی دن ۔ اس دن مزدور رہنماؤں کی جلسے میں پُر جوش تقاریر شروع تھیں، ہزاروں کی تعداد میں مزدور اکٹھا تھے۔ سبھی آزادی کے گیت گا رہے تھے، نعرے لگائے جا رہے تھے۔ شکاگو کی سڑکوں پر ہر جگہ مزدورہی مزدور نظر آ نے لگے۔ پہلی بار مزدور طبقہ نے اس طرح اجتماعی طور پر احتجاج کیا تھا ۔ سرمایہ دار پولیس کی مدد سے اس تحریک کو کچلنا چاہتی تھی ۔ کہا جاتا ہے کہ حکمران طبقہ کی سازش کے چلتے پُرامن جلوس پر اچانک خود دستی بم پھینکے گئے۔ اس سانحہ میں کچھ پولس اہلکار زخمی ہوگئے اور ایک پولیس افسر کی موت واقع ہوگئی۔ اس پورے سانحہ کے لیے مزدوروں کوذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ مالکان کی شہہ پر بدلے کی کاروائی کرتے ہوئے پولیس نے مزدوروں پر فائرنگ شروع کردی۔ جس سے کئی مزدور ہلاک و زخمی ہوئے۔ کہتے ہیں کہ انہی زخمی مزدوروں میں سے کسی مزدور نے اپنی خون آلود قمیض کو ہوا میں لہرا لہرا کر نعرے لگائے۔ یہیں سے سرخ رنگ مزدوروں کی جدوجہد کا علامتی رنگ بن کر اُبھرا ۔ اس سانحہ کے بعد باقاعدہ منظّم طریقے سے مزدور تحریک کا آغاز ہوا۔حکمران طبقہ کی طرف سے سیکڑوں مزدوروں کو جیلوں میں ٹھوس دیا گیا۔ کئی مزدور لیڈروں پر مقدمے چلائے گئے ، انہیں میں سے کچھ مزدور لیڈروں کو عدالت نے مجرم مان کرانہیں پھانسی کی سزا سنائی۔ پوری دنیا میں اس مقدمے کی اوردی گئیں سزاؤں کی مخالفت ہوئی۔ مشہور ادیب جارج برناڈشا نے بھی اس مقدمہ اور سزا کی کھل کرمذمت کی تھی۔
11 نومبر 1887 کو مزدور رہنما اینجل ، فشر ، پارسن اور اسپائز کو پھانسی دے دی گئی۔ لیڈران نے مزدوروں کے حقوق کے لیے پھانسی کے پھندے کو گلے لگایا ۔پھانسی سے پہلے اسپائز نے کہا ،’’غریب انسانوں کی آواز بلند ہونے دو ،ورنہ ان کی تلواریں بلند ہوں گی۔‘‘فشر نے کہا،’’ہم خوش ہیں کہ ہم ایک اچھے مقصد کے لئے جان دے رہے ہیں۔‘‘
اس طرح انسانی حقوق کے لیے ان لیڈران نے اپنی جان دیکر ایک مثال قائم کی۔1889 میں ریمنڈ لیون کی تجویز پر ان شہیدوں کی یاد میں پہلی مرتبہ یکم مئی مزدوروں کی قربانیوں کو یاد رکھنے کے لیے منایا گیا۔ اس کے بعد دنیا بھر میں یوم مزدور منایا جا نے لگا۔ یہ واحد دن ہے ، جس دن دنیا کی اکثریت بلا تفریق مذہب ، رنگ و نسل ، مزدوروں کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرتی ہے۔
بھارت میں یوم مئی کی شروعات سن ۱۹۲۰کے بعد ہوئی۔ اسی سال آل انڈیا ٹریڈ یونین کا قیام عمل میں آیا۔ان دنوں یوم مزدور منانے پر حکومت کی طرف سے پابندی عائدتھی۔اسی سبب مظفر احمد، کامریڈ ڈانگے، اور فلپ نمبکر کو جیل بھی جانا پڑا۔آج کے دور میں یو م مئی کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے، گلو بلائزیشن اور پرائیوٹائزیشن کے تحت لگاتار مزدوروں کے حقوق چھینے جا رہے ہیں۔ کانٹریکٹ سسٹم کے آجانے کی وجہ سے وہ سارے حقوق دھیرے دھیرے چھینے جا رہے ہیں ،جن حقوق کو حاصل کرنے کے لیے لمبی جدو جہد کرنی پڑی تھی۔ مزدوروں نے جو مرا عا تیں حاصل کیں تھیں، ان پرآج دو بارہ خطرہ لاحق ہے۔ لیبر قانون میں ترمیم کر آج کل چھوٹی یونٹ میں تنظیم بنانے پر روک لگا دی گئی ہے۔کنٹریکٹ سسٹم کے بڑھتے چلن کے تحت آج کسی طرح کی سکیورٹی کی گارنٹی بچی نہیں ہے۔مالک جب چاہے تب آپ کو نوکری سے برطرف کر سکتا ہے۔ ایک معاہدہ کے تحت کام کرنے کی وجہ سے بہت سے مزدوروں کے معاملات پر لیبرلا کا نفاذ نہیں ہو پا تا۔یوں لگتا ہے جیسے ہم دھیرے دھیرے استحصال پرمبنی اسی دور کی طرف گامزن ہو رہے ہیں۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ دنیا کے محنت کش عوام نے ایک لمبی جدوجہد کے بعد مزدور ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کو استحصال پر مبنی نظام سے چھٹکارا دلا نے کی پہل کی تھی۔
آج کارپوریٹ اور نجی کمپنیوں کا استحصالی چکر دوبارہ اپنا سر اٹھا رہا ہے۔ آج سرمایہ داروں کی طاقت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اکیلے ایلن مسک جیسے اکیلے شخص کی دولت کسی ملک سے بھی زیادہ ہے ۔ وہیں آج مزدوروں کی طاقت کمزور نظر آرہی ہے۔ مزدوروں سے انکے حقوق چھینے جا رہے ہیں۔ مزدوروں کی آواز کو دبانے کا کا م بھی ہو رہا ہے۔دنیا میں نا انصافی کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں ۔ کسان تحریک اس کی مثال ہے۔ جہاں سیکڑوں کی تعداد میں کسانوں نے قربانیاں دی آخر حکمرانوں کو قانون بدلنے پر مجبور ہونا ہی پڑا۔ اس ناانصافی کے خلاف لڑنے اور احتجاج کرنے کا حوصلہ صرف محنت کش عوام کے پاس ہی ہے۔ مزدوروں کے مسیحا کارل مارکس نے کہا تھا کہ ’’سرمایہ داروں اور مزدورطبقہ میں جدّو جہد لگاتار چلتی رہتی ہے۔ پر حالا ت ضروربد لینگے، کیونکہ وقت کا پہیہ کبھی پیچھے نہیں مڑتا ۔‘‘ شکاگو میں دی گئی مزدوروں کی قربانیاں ہو یا کسانوں کی جددوجہد ہمارے لیے یہ تحریکیں مشعلِ راہ کی طرح ہیں۔ ان مزدوروں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیگی ۔ بہاریں ایک دن ضرورلوٹ آئیںگی ۔ اسی لیے ہمیں مزدوروں کی جدّوجہد کو سدا یاد رکھنا چاہیے۔ یکم مئی ہمیں اپنے حقوق کے لیے لڑی گئی اس لڑائی کی یاد دلاتا ہے۔
(رابطہ۔9867210054)
[email protected]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یکم مئی۔ اپنے حقوق کے لئے لڑی گئی لڑائی کا دن