سرینگر// حریت (گ)چیرمین سید علی گیلانی نے انتظامیہ کی طرف سے انہیں سول سیکریٹریٹ مارچ کی اجازت نہ دینے اور گھر میں محصور رکھنے کی مذمت کرتے ہوئے کہاہے کہ ایک طرف ہمارے معصوم نوجوانوں کا قتل عام کیا جارہا ہے اور دوسری جانب ہمیں اس پر احتجاج کرنے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔ یہاں بربریت، سفاکیت اور فسطائیت کا مظاہرہ ہورہا اور بھارت کی فورسز اور مقامی پولیس نے کمر باندھ رکھا ہے تاکہ لوگوں کو آہستہ آہستہ صفحہ¿ ہستی سے مٹاکر یہاں کی زمین پر قبضہ کیا جائے۔ گیلانی نے وادی کو بالعموم اور جنوبی کشمیر کو بالخصوص خون میں ایک بار پھر نہلانے اور اس سرزمین کو 11سپوتوں کے گرم گرم لہو سے سیراب کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پچھلی 7دہائیوں سے بھارت ہمارے لہو سے اپنی پیاس بجھانے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے شہداءکو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ظالم اور جابر طاقت کو جب تک نہ مقامی سپورٹ مہیا ہو وہ ہمیں کسی بھی صورت میں زیر نہیں کرسکتے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ہمارے سرفروش جونہی کہیں جمع ہوجاتے ہیں تو پلک جھپکتے ہی بھارتی فوج کو بے ضمیر مخبروں کے ذریعے اطلاع ملتی ہے اور وہ اپنے جدید اسلحہ اور گولی بارود لیکر ان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یکسو ہوکر ایک ہی رنگ میں رنگنے کے بغیر کوئی چارہ¿ کار نہیں ہے۔ ہم ساتھ ساتھ مجاہد اور مخبر نہیں ہوسکتے۔ ہم آزادی کی لڑائی کے ساتھ ساتھ فوجوں کے مددگار نہیں ہوسکتے۔ جنازوں میں آزادی اور اسلام کے فلک شگاف نعروں کے ہوتے ہوئے ہندنواز مقامی غداروں کے آلہ¿ کار نہیں بن سکتے۔ یہ دوغلا پن ان مقامی غداروں کو ہی زیب دیتا ہے جو گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے میں دیر نہیں لگاتے۔ اقتدار میں رہ کر کشمیری نہتی قوم کا خون بہا کر اپنے اقتدار کی کرسی کو دوام بخشنے والے جب لیلیٰ اقتدار سے الگ ہوتے ہیں تو وہ اس خون خرابے پر مگر مچھ کے آنسو بہاکر ہمدردیاں بٹورنے کا منافقانہ کردار ادا کرتے ہیں، لیکن قوم کو کم سے کم ان شعبدہ بازوں سے قطع تعلق کرکے اپنے عزیزواقارب کے لہو سے مزین تحریک کے حوالے سے مخلص اور یکسو ہونا ہے۔ پھر بھارت کی دس لاکھ فوج اور اس کا جدید ترین گولہ بارود بھی ہماری تحریک کو کمزور نہیں کرسکتا۔اس دوران گیلانی نے گاندربل کے پروفیسر محمد رفیق کے تعزیتی جلسے اپنے ایک مختصر ٹیلیفونک خطاب میں انہیں شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ اس اعلیٰ تعلیم یافتہ اور نوکری پیشہ حساس جوان کا اپنی محکوم اور مجبور قوم کے لیے اتنی بڑی قربانی اُس سوچ اور ذہن کے لیے ایک زوردار طمانچہ ہے جو یہاں کی تحریک کو بے روزگاری اور اقتصادی مسئلہ سے جوڑ کر اصل حقائق سے چشم پوشی کرنے کا گھناو¿نا اور مکارانہ جرم کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چھتہ بل کے زخموں سے ابھی لہو ہی ٹپک رہا تھا کہ شوپیان کو پھر ایک بار لہولہان کیا گیا، لیکن سیاسی شطرنج کے یہ بے شرم کھلاڈی بڑی ڈھٹائی سے اسی لہو کو ہی اپنے آقاو¿ں کے ہاں پیچ کر اقتدار کی مسند پر قائم رہنے کے بزدلانہ مشن میں مصروف عمل ہیں۔ انہوں نے مصیبت کے گردآب میں پھنسی مظلوم قوم اور اس کے جوانوں سے دردمندانہ اپیل کی کہ وہ اپنی صفوں میں اتحاد اور اتفاق پیدا کرکے آپسی رنجشوں اور فروعی اختلافات کو پنپنے نہ دیں۔