Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

یوکرین کی تباہی ۔عالمی طاقتوں کی عیاری

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: March 1, 2022 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
11 Min Read
SHARE
یوکرین کے ساتھ روس کی جنگ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے ۔یوکرین کو جنگ کے لیے اُکسانے والوں میں عالمی طاقتیں شامل تھیں ،مگر جیسے ہی روس نے یوکرین پر حملہ کیا ،کسی نے ساتھ دینے کی زحمت نہیں کی ۔امریکہ نے جنگ کے بعد واضح کردیا ہے کہ وہ روس کے خلاف یوکرین کاساتھ نہیں دیں گے ۔امریکی صدر نے یوکرین میں اپنی فوجیں بھیجنے سے بھی انکار کردیا اور کہاکہ ہم فقط اُن ممالک کی حمایت میں اپنی فوجیں بھیج سکتے ہیں جو’ نیٹو‘ میں شامل ہیں ۔سوال یہ ہے کہ پھر امریکہ اور اس کے اتحادی یوکرین کو جنگ پر کیوں اُکسا رہے تھے ؟ انہیں چاہیے تھاکہ روس اور یوکرین کے مابین صلح کی کوشش کرتے اور نوبت جنگ تک نہ پہونچتی ۔جنگ سے پہلے ’نیٹوممالک‘ پوری توانائی کے ساتھ یوکرین کی حمایت کررہے تھے ،مگراب کسی نے آگے بڑھ کر یوکرین کی کھل کر حمایت کو ترجیح نہیں دی ۔امریکہ سمیت دیگر ممالک فقط روس کے حملوں کی مذمت کررہے ہیں اور اس پر اقتصادی پابندیاں عاید کی جارہی ہیں ۔مگر کیا روس ان اقتصادی پابندیوں سے خوف زدہ ہے ؟ کیاروس نے حملے سے پہلے عالمی رائے کا جائزہ نہیں لیا ہوگا ؟اس لیے موجودہ صورتحال میں اُن پابندیوں کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی ۔
روس کے حملے کے بعد عالمی طاقتوں کی طرف سے مضحکہ خیز بیانات سامنے آرہے ہیں۔امریکی صدر نے کہاکہ ہم یوکرین کی فوج کو جنگی تربیت دینے کے لیے آمادہ ہیں ۔جس وقت یوکرین جنگ کی آگ میں جھلس رہا ہے ،امریکی صدر اس کے فوجیوں کو جنگی تربیت دینے کی بات کررہے ہیں،یہ استعماری سیاست کا ایک نمونہ ہے ۔ روس کی فوجیں یوکرین کی سرحدوں میں داخل ہوچکی ہیں اور اس کے پایۂ تخت کی طرف کوچ کررہی ہیں ،ایسے ناگفتہ بہ حالات میں عالمی طاقتوں کے غیر ذمہ دارانہ بیانات مضحکہ خیز ہیں ۔یوکرین کو جنگ کی بھٹی میں جھونک کر عالمی طاقتوں نے اسے تنہا چھوڑ دیا ۔اس کی بنیادی وجہ روس کی فوجی طاقت اور عالمی بازار میں اس کی موجودگی ہے ۔روس تنہا نہیں ہے اور نہ کسی ملک میں اس پر حملہ کرنے کی طاقت موجود ہے ۔روس کے حلیف ممالک ظاہری طورپر ابھی تک خاموش ہیں اور مذاکرات کے ذریعہ اس تنازعہ کا حل تلاش کرنے کی بات کررہے ہیں ۔لیکن اگر عالمی طاقتیں یوکرین کی حمایت میں میدان جنگ میں اتریں گی تو کیا روس کے دوست اُسے تنہا چھوڑ دیں گے ؟ یہی وجہ ہے کہ عالمی طاقتیں یوکرین کی حمایت میں روس کے خلاف میدان میں اترنے سے بچ رہی ہیں ۔ امریکہ اور اس کے اتحادی جو مختلف محاذوں پر روسی اتحادیوں سے منہ کی کھاچکے ہیں ،وہ روس پر براہ راست حملہ کرنے کی جرأت کیسے کرسکتے ہیں۔روس اور اس کے اتحادیوں نے شام ،یمن ،عراق ،افغانستان اور فلسطین جیسے ملکوں میں امریکی اتحادی افواج کو دھول چٹائی ہے ،لہٰذا ’نیٹوافواج‘ کبھی روس کی طرف نظریں اٹھاکر نہیں دیکھ سکتیں ،یہ دنیا جانتی ہے ۔
بعض افراد کا یہ دعویٰ کہ روس اور یوکرین کی طاقت آزمائی تیسری جنگ عظیم کا شاخسانہ تو نہیں ،ایک بے تکا دعویٰ ہے ۔اول تو یوکرین ابھی ’نیٹو ممالک ‘ میں شامل نہیں ہے ۔اگر ایسا ہوتا تو ’نیٹو افواج ‘ کو اپنے حلیف کے وقار کی حفاظت کے لیے میدان جنگ میں اتر نا پڑتا ۔نیٹو معاہدے کے آرٹیکل پانچ کے تحت اگر کوئی اس کی حلیف ریاست پر حملہ ور ہوتا ہے تو نیٹو میں شامل تمام ممالک کو اس کے دفاع کے لیے آنا ہو گا۔اگرچہ یوکرین کا کہنا ہے کہ وہ نیٹو کا حصہ بننا چاہتا ہے لیکن وہ ابھی تک نیٹو اتحاد کا حصہ نہیں ہے اور صدر پوتن یوکرین کی نیٹو اتحاد میں شمولیت کے سخت مخالف ہیں۔البتہ چار ایسی ریاستیں نیٹو اتحاد میں شامل ہو چکی ہیں جو ماضی میں سوویت یونین کے وقت ماسکو کے دائرۂ اثر میں تھیں۔ ان میں پولینڈ، ایسٹونیا، لٹویا اور لیتھونیا شامل ہیں،جو روس کے لیے باعث تشویش ہے ۔ماضی میں ماسکو کے دائرہ ٔاثر میں رہنے والے ممالک کو خدشہ ہے کہ روس یوکرین تک محدود نہیں رہے گا اور وہ ان ممالک میں بسنے والے روسی نسل کے باشندوں کی مدد کے بہانے ان پر بھی حملہ آور ہو سکتا ہے،جیساکہ یوکرین جنگ کے موقع پر روسی صدر کے بیانات سے اندازہ ہوتاہے۔اسی وجہ سے نیٹو نے حالیہ دنوں میں بالٹک ریاستوں میں اضافی فوجی تعینات کیے ہیں۔چونکہ یوکرین نیٹو میں شامل نہیں ہے اس لیے نیٹو ممالک کبھی براہ راست روس کے ساتھ پنجہ آزمائی نہیں کرسکتے ،لہٰذا تیسری جنگ عظیم کا کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے ۔جس وقت روس نے یوکرین کی سرحدوں پر اپنی فوجوں کو تعینات کیا اسی وقت امریکہ اور اس کے حلیف ممالک نے اپنے سفیروں ،مشیروں اور فوجی تربیت کاروں کو واپس بلالیاتھا ۔فوجی تربیت کاروں کو واپس بلانے کے بعد امریکہ کا یہ کہنا کہ ہم یوکرین کی فوجوں کو تربیت دیں گے ،یوکرین کے ساتھ کھلا مذاق ہے ۔صدر بائیڈن نے واضح طور پر کہا کہ یوکرین میں صورتحال کتنی بھی سنگین کیوں نہ ہو ہم اپنی فوجوں کو یوکرین کی سرزمین پر تعینات نہیں کریں گے،اس سے امریکی منافقانہ سیاست کا اندازہ کیا جاسکتاہے۔
یوکرین پر روس کے حملے کے بعد جس طرح عالمی میڈیا نے یوکرین کو مظلومانہ حیثیت سے متعارف کروایا، وہ حیرت ناک ہے ۔خاص طورپر ہمارا قومی میڈیا یوکرین کے ساتھ کھڑا نظر آرہاہے ۔روسی صدر پوتین کو ہٹلر ،آمر یت پسند ،سنکی اور ظالم قرار دیا جارہاہے ۔یقیناً ہم روس کےحملوں کے حامی نہیں ہیں اور جنگ کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں لیکن عالمی میڈیا اور ہمارے قومی میڈیا کو یوکرین کی مظلومیت نظر آرہی ہے لیکن یمن ،شام اور فلسطین کے عوام کی مظلومیت پر انکی کبھی نگاہ نہیں گئی ۔کیا امریکہ اور اس کی اتحادی فوجوں نے بے گناہ انسانوں کو بیدردی کے ساتھ قتل نہیں کیا ۔کیا یمن کے عوام پر جنگ کے بعد وبائی امراض مسلط نہیں ہیں ؟ بچے غذائی قلت کا شکار ہیں اور عوام بے گھر صحرائوں اور کیمپوں میں رہنے کے لیے مجبور ہیں ۔یمن اِس وقت بدترین جنگی جرائم کا شکار ہے مگر عالمی میڈیا کے لیے یمن کے عوام کی مظلومیت قابل توجہ نہیں ہے ۔شام میں جس طرح اسرائیل اور اس کے اتحادی فوجیوں نے اس کی خودمختاری پر حملہ کیا ،عالمی اداروں اور میڈیا نے کبھی اس کی مذمت نہیں کی ۔عراق کو مفروضات کی بنیاد پر تباہ کردیا گیا ،جس کی رپوٹ منظر عام پر آچکی ہے ،مگر عراق کے مجرموں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی ۔فلسطینی آئے دن اسرائیلی فوجیوں کی جارحیت کا شکار ہوتے رہتے ہیں مگر عالمی میڈیا فلسطین کے ظلم اور اسرائیل کی مظلومیت کا اظہار کرکے اپنے ضمیر کو نیلام کرتارہتاہے ۔’صدی معاہدہ ‘ کے نفاذ کی مخالفت نہیں کی گئی اور نہ ’یروشلم ‘ کو اسرائیل کا پایۂ تخت تسلیم کرنے سے انکار کیا گیا ۔اسرائیل فلسطینیوں کی زمین پر فریب اور ظلم کی بنیاد پر مسلط ہے مگر عالمی رائے فلسطین کے خلاف ہے ۔حماس کے ساتھ اسرائیل کی گیارہ روزہ جنگ کے موقع پر عالمی رائے حماس کے خلاف تھی ۔ہمارا قومی میڈیا بھی فلسطین کے مظلوموں کا موافق نہیں رہا کیونکہ اب میڈیا کے ادارے استعمار کے زیر اثر ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ جب وزیر اعظم نریندر مودی 2017 میں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے،اس وقت ہمارا قومی میڈیا اسرائیل کی مظلومیت کا نوحہ پڑھ رہا تھا ۔میڈیا میں فلسطینی عوام کو ظالم کی حیثیت سے پیش کیا جارہا تھا ،جس نے اسرائیل جیسی عالمی طاقت کی اپنی دہشت گردانہ سرگرمیوں سے نیندیں اڑا رکھی ہیں۔اس کے بعد اسرائیل کو عالمی طاقت اور اسکی خفیہ ایجنسیوں کو دنیا کی سب سے خطرناک ایجنسیوں کے طورپر متعارف کروایا گیا تھا،اس سے میڈیا کے نفاق اور متضاد رویوں کو سمجھا جاسکتاہے ۔ظاہر ہے یہ پورا کھیل استعماری آلۂ کاروں نے کھیلا تھا ۔آج جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو استعمار زدہ میڈیا بلبلا اٹھا اور یوکرین کی مظلومیت پر ماتم کررہاہے ۔آخرمظلومیت پر آنسو بہانے کا دُہرا معیار کیوں ہے ؟ کیا یمن ،شام ،عراق ،افغانستان اور فلسطین کے عوام مظلوم نہیں ہیں ؟ کیا امریکہ اور اس کی اتحادی فوجوں نے مظلوموں کا خون نہیں بہایا ۔یوکرین کی مظلومیت پر مگرمچھ کے آنسو بہانے والے لوگ فلسطین ،یمن اور شام کی مظلومیت پر بھی دو آنسو بہالیتے تو شاید ان کے ضمیر کو سکون ملتا ۔
یوکرین تباہ ہوچکاہے ۔اس کی تمام تر ذمہ داری ان عالمی طاقتوں پر عاید ہوتی ہے جنہوں نے یوکرین کو جنگ کے لیے اُکسایا اور وقت پڑنے پر اسے تنہا چھوڑدیا ۔یوکرین کی موجودہ حالت زار سے ان ممالک کو سبق لینا چاہیے جو عالمی طاقتوں کے ہاتھوں کا کھلونا بنے ہوئے ہیں ۔امریکہ اور اس کے حلیف ممالک کسی کے سگے نہیں ہیں ۔انہیں اپنے مفادات سے مطلب ہے خواہ اس کے لیے کسی مظلوم ملک کو تباہ و برباد ہی کیوں نہ کرنا پڑے ۔
رابطہ۔7355488037
[email protected]
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

دشمن کی گولیوں کا سامنا کرنے والے ’’پونچھ ‘‘کو وزیر اعظم مودی بھول گئے: طارق حمید قرہ
پیر پنچال
ہندوستان نے 70 ممالک کے سفارت کاروں کو آپریشن سندور سے آگاہ کیا
برصغیر
پاکستان کے ساتھ حالیہ تصادم میں ہندوستان نے اپنی طاقت و صلاحیت کا بھر پور مظاہرہ کیا: ڈاکٹر جتیندر سنگھ
برصغیر
سرحدی کشیدگی سے عوام ذہنی تناؤ کا شکار، مستقل امن ناگزیر:ایم ایل اے سجاد شفیع
تازہ ترین

Related

کالممضامین

پونچھ اور پہلگام | درد کے سائے میں انسانیت کا چراغ صدائے سرحد

May 13, 2025
کالممضامین

جنگ بندی کمزوری نہیں ،طاقت کا ثبوت زاویہ نگاہ

May 13, 2025
کالممضامین

ہندوپاک کشیدگی اور بے پناہ تباہی | سرحد کے آرپارموت و تباہی کی المناک تاریخ رقم گردش دوراں

May 13, 2025

ان کی حفاظت کرنا ہر انسان کے لئے لازمی! ان کی حفاظت کرنا ہر انسان کے لئے لازمی!

May 12, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?