ڈاکٹر عریف جامعی
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ انسان کو گمراہی کی تاریکی میں پیدا کیا گیا اور نا ہی اسے تاریکیوں میں بھٹکنے کے لئے بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا۔ دراصل تخلیق آدم کے ساتھ ہی انسانیت کی ہدایت کا بھرپور انتظام کیا گیا۔ ایک طرف عقلی اور اخلاقی شعور انسان کے اندر ودیعت کیا گیا اور دوسری طرف پیغمبران کرام کا طویل سلسلہ سیدنا آدم علیہ السلام سے ہی شروع کیا گیا، تاکہ انسان کے لئے داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر رشدوہدایت کا انتظام ہوسکے۔ ہدایت کا یہ ارفع اور اعلی انتظام اس لئے کیا گیا تاکہ انسان قیامت کے روز یہ معذرت نہ کرسکے کہ ’’ہم تو اس (آپ کے رب ہونے) سے محض بے خبر تھے۔‘‘ (الاعراف، ۱۷۲)
جب انسانی تہذیب کی سطح بلند ہوتے ہوئے عالمگیریت کے پہلے درجے پر پہنچ گئی تو رب تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم ؑ کو ایک بڑی تہذیب یعنی سمیریا کے شہر ’’ار‘‘ (موجودہ عراق) میں مبعوث کرکے اس نور ہدایت کی عالمگیر ترسیل کا انتظام فرمایا۔ اپنے ہم وطنوں اور ہم عصروں کے ہاتھوں کئی طرح کے مصائب کا سامنا کرکے ابراہیمؑ نے خدا کے حکم پر اپنے وطن مالوف کو خیرباد کہا۔ اس کے بعد آپ نے توحید کے کئی مراکز قائم کئے، جن میں ارض شام (فلسطین) میں سیدنا اسحٰق ؑ جبکہ مکہ المکرمہ میں سیدنا اسمٰعیلؑ کو بسایا گیا۔ واضح رہے کہ جہاں مکہ المکرمہ میں کعبہ کی دیواریں بلند کرتے ہوئے باپ بیٹے نے قبولیت کی دعا کی تھی (البقرہ، ۱۲۷) وہیں آخری رسولؐ کی بعثت کے لئے سیدنا ابراہیم ؑ اس طرح دعا گو ہوئے تھے: ’’اے ہمارے رب! ان میں انہیں میں سے رسول بھیج۔‘‘ (البقرہ، ۱۲۹)
۲۵۰۰ سال بعد اس دعا کی قبولیت کا ظہور نبیؐ کی بعثت کے طور پر ہوا تو آپؐ کے ساتھ انسانیت کی ہدایت کے لئے قرآن کے نزول کا اعلان کچھ اس طرح سے کیا گیا: ’’ماہ رمضان وہ (مہینہ) ہے جس میں قرآن اُتارا گیا جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت کی اور حق و باطل کی تمیز (فرقان) کی نشانیاں ہیں۔‘‘ (البقرہ، ۱۸۵) ظاہر ہے کہ رسول اللہؐ کی سعی و جہد سے قرآن نے جب ہدایت اور گمراہی کو الگ کرنا شروع کیا، تو اہل مکہ، اس کے باوجود کہ وہ خود کو فخر سے سیدنا ابراہیم ؑکے ساتھ منسوب کرتے تھے، حق کی آواز سن کے بپھر گئے۔ نتیجتاً انہوں نے اہل ایمان سے مکہ میں رہنے کا حق چھین لیا۔ تاہم ان تیرہ سالوں میں بنواسماعیل کا اصل جوہر نبی ؐ کے دست پاک پر ایمان لاکر حلقہ بگوش اسلام ہوچکا تھا۔ بنواسماعیل کے انہی گلہائے سرسبد کے ساتھ رسول اللہ ؐ نے یثرب ہجرت کرکے اس شہر کو مدینہ النبی کا درجہ عطا کیا۔
سرداران قریش نے بہت جلد اہل مدینہ کو یہ انتباہ (الٹمیٹم) دیا کہ ’’محمد کو (نعوذ باللہ) خود قتل کریں یا ان (قریش) کے حوالے کریں۔ تیسری صورت میں مکہ کی طرف سے یلغار کے لئے تیار رہیں!‘‘ ظاہر ہے پہلی دو صورتیں انصار کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں تھیں، کیونکہ انہوں نے بیعت عقبہ ثانیہ کے موقعے پر یہ بات قبول کی تھی کہ انہیں اپنے بچوں کا یتیم ہونا اور اپنی خواتین کا بیوہ ہونا تو قابل قبول ہوگا، لیکن محمد ؐ کا وہ ہر صورت میں دفاع کریں گے۔ اب مکہ والوں کا یہ انتباہ اس وعدے کو وفا کرنے کی طرف اشارہ کررہا تھا۔ چونکہ نبی ؐ کو مکہ والوں کے ردعمل کا پیشگی اندازہ تھا، اس لئے آپؐ نے مدینہ منورہ سے ملحقہ قبائل کے ساتھ معاہدے کیے اور انہیں غیر جانبدار رہنے اور حملے کی صورت میں اپنے قبائل کی خود حفاظت کرنے کے لئے آمادہ کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ ؐ نے میثاق مدینہ (چارٹر آف مدینہ) کے ذریعے مدینہ کو ایک ایسی دولت مشترکہ (کامن ویلتھ) میں تبدیل کیا جہاں کے قبائل ادیان کے اختلاف کے باوجود مدینہ کا تحفظ ایک قومی فرض کے طور پر ادا کریں گے۔
ظاہر ہے کہ رسول اللہ ؐ نے مدینہ منورہ کے تحفظ کے لئے ہر ممکن قدم اٹھایا۔ مدینہ کے اطراف و اکناف میں مختلف اوقات میں مختلف مسلح دستے بھیجے گئے تاکہ قریش کی آمدورفت کی نگرانی کی جاسکے۔ اس سلسلے میں جب نبی ؐنے عبداللہ ابن جحش ؓ کی سرکردگی میں ایک دستہ اس ہدایت کے ساتھ بھیجا کہ نخلہ اور مکہ کے درمیان نخلستان میں خیمہ زن ہوکر قریش کی نقل و حرکت پر نظر رکھیں، تو مغاطلے سے عمرو ابن الحضرمی ان کے ہاتھوں مارا گیا اور قریش کے دو لوگ قیدی بناکر مدینہ پہنچا دیئے گئے۔ اس غیر ضروری کارروائی پر نبی ؐ نے عبد اللہ ابن جحشؓ سے اپنی ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ تاہم جب اس واقعے پر قریش نے واویلا مچایا تو ان کو قرآن نے اس طرح جواب دیا: ’’لوگ آپ سے حرمت والے مہینوں میں لڑائی کی بابت سوال کرتے ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ ان میں لڑائی کرنا بڑا گناہ ہے۔ لیکن اللہ کی راہ سے روکنا، ۔۔۔ اللہ کے نزدیک اس سے بھی بڑا گناہ ہے۔‘‘ (البقرہ، ۲۱۷)
رجب کی آخری تاریخ یا شعبان کی پہلی تاریخ کے اس واقعے کے بعد ماہ رمضان میں قریش کا ایک تجارتی قافلہ شام سے لوٹ رہا تھا۔ قافلے کے نگران، ابو سفیان کو یہ خدشہ لاحق ہوا کہ مسلمان اس قافلے پر حملہ آور ہوسکتے ہیں۔ اس لئے اس نے ایک شخص کو دوڑایا تاکہ مکہ سے مدد طلب کی جاسکے۔ اس سخص نے مکہ پہنچ کر کچھ اس طرح شوروغل مچایا کہ جیسے مسلمانوں نے قافلے کو لوٹ لیا تھا۔ مکہ والوں نے طیش میں آکر مدینہ پر ٹوٹ پڑنے کی تیاریاں کیں اور قافلے کی حفاظت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں سے دو دو ہاتھ کرنے کی ٹھان لی۔ اگرچہ رستے میں انہیں پتہ چلا کہ ابوسفیان بحیرۂ احمر کے ساحلی راستے سے قافلے کو نکال لایا ہے، تاہم انہوں نے واپس جانے کے بجائے مدینہ سے نپٹ لینا ہی مناسب سمجھا۔ اس لئے انہوں نے مدینہ کی طرف اپنی پیش قدمی جاری رکھی۔
ادھر رسول اللہ ؐ کو بھی اپنے خبر رسانی کے ذرائع سے معلوم ہوا کہ قریش مدینہ منورہ پر چڑھائی کرنے کے لئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس لئے آپ ؐ نے اپنے صحابہ ؓ سے مشاورت شروع کی۔ فیصلہ ہوا کہ مدینہ سے باہر نکل کر شہر کا دفاع کیا جائے۔ چونکہ قریش بدر کے نزدیک ایک وادی میں خیمہ زن ہوئے تھے، اس لئے مسلمانوں نے اسی وادی کی دوسری طرف اپنے خیمے نصب کیے۔ تاہم حباب ابن المنذر کے مشورے پر رسول اللہ ؐ نے ذرا دوری پر پانی کے نزدیک خیمے گاڑنے کا حکم دیا۔ ظاہر ہے کہ یہ جگہ جنگی نقطۂ نظر سے زیادہ بہتر تھی۔ اب مسلمانوں کو یہ مسئلہ درپیش تھا کہ ایک تو ان کی تعداد دشمن کے مقابلے میں ایک تہائی سے بھی کم تھی اور یہ قلیل جمعیت بھی سازوسامان کے اعتبار سے نہایت کمزور تھی۔ تاہم مسلمان اس بات پر مطمئن تھے کہ ان دو جماعتوں میں وہی حق پر ہیں۔ اس بات کی تصدیق قرآن نے اس طرح کی ہے: ’’یقیناً تمہارے لئے عبرت کی نشانی تھی ان دو جماعتوں میں جو گتھ گئی تھیں۔ ایک جماعت تو اللہ تعالی کی راہ میں لڑ رہی تھی اور دوسرا گروہ کافروں کا تھا۔‘‘ (آل عمران، ۱۳)
رسول اللہؐ، اس یقین کے باوجود کہ کتنی ہی قلیل جماعتوں کو رب تعالی کثیر جماعتوں پر فتح دیتا آیا ہے (البقرہ، ۲۵۹)، ۱۶ اور ۱۷ رمضان المبارک (۲ ہجری) کی درمیانی رات مسلسل ربّ تعالیٰ کے حضور دعا میں مشغول رہے۔ نبی ؐ کی اس کیفیت کو قرآن نے اس طرح بیان کیا ہے: ’’اس وقت کو یاد کرو جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کررہے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے تمہاری سن لی۔‘‘ (الانفال، ۹) ابن ہشام نے حضور ؐ کی اس وقت کی کیفیت اور اس حالت میں کی گئی دعا کو یوں نقل کیا ہے: ’’آپؐ یہ دعا کر رہے تھے اور اس الحاح کی کیفیت میں آپؐ کی چادر بار بار کندھوں سے گر جاتی تھی۔ (آپؐ دعا فرما رہے تھے): اے میرے خدا! اپنے وعدے کو، اپنی مدد کو پورا فرما۔ اے میرے اللہ! اگر مسلمانوں کی یہ جماعت آج ہلاک ہوگئی تو دنیا میں تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا!‘‘ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مؤمنین کے دل جم گئے اور فرشتوں نے رب تعالیٰ کے اذن سے ان کی نصرت کی: ’’اور اللہ تعالی نے (فرشتوں کی) یہ امداد محض اس لئے کی کہ بشارت ہو اور تاکہ تمہارے دلوں کو قرار ہوجائے اور مدد صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے۔‘‘ (الانفال، ۹۔۱۰) بقول مولانا ظفر علی خان:
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
بدر کے موقعے پر ائمہ الکفرجیسے ابوجہل، عتبہ، شیبہ، ولید، امیہ، وغیرہ کا کھیت رہنا دراصل استکبار کے ان اساطین کا صفایا تھا جنہوں نے تیرہ سال تک مؤمنین کو اذیتیں دی تھیں اور اب قدسیوں کی اس مٹھی بھر جماعت کو ختم کرنے کے لئے میدان بدر میں جمع ہوئے تھے۔ مکہ سے نکلتے وقت ان کی نفسیات کو رب تعالیٰ نے اس طرح بیان کیا ہے: ’’ان لوگوں جیسے نہ بنو جو اتراتے ہوئے اور لوگوں میں خود نمائی کرتے ہوئے اپنے گھروں سے چلے اور اللہ کی راه سے روکتے تھے۔‘‘ (الانفال، ۴۷) ظاہر ہے تکبر کی اس حالت کو جہنم کی آگ ہی بھسم کرسکتی ہے، کیونکہ جنت ان متکبرین کے لئے بہرحال حرام ہے، کیونکہ انہوں نے حق کو ٹھکرایا تھا اور اللہ کے بندوں کو اللہ کے راستے سے روکا تھا۔ بفحوائے الفاظ قرآنی: ’’جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے تکبر کیا، ان کے لئے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے اور وہ لوگ کبھی جنت میں نہ جائیں گے جب تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے کے اندر سے نہ چلا جائے۔‘‘ (الاعراف، ۴۰)
بدر میں پکڑے گئے قریش کے قیدیوں کے ساتھ روا رکھا گیا سلوک سیرت رسول ؐ کا ایک روشن پہلو سامنے لاتا ہے۔ ان ستر قیدیوں میں نبی ؐ کے چچا، عباس بھی شامل تھے۔ قید خانوں کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے قیدیوں کو باندھ کر رکھا جاتا تھا۔ جب رات میں کئی قیدی درد سے کراہنے لگے، تو عین عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق عباس سے پہلے باقی قیدیوں کی رسیاں ڈھیلی کردی گئیں۔ اس کے بعد جب قیدیوں کو رہا کرنے کا مسئلہ سامنے آیا، تو ہر قیدی سے اس کی حیثیت کے مطابق ہی معاوضہ لیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کئی قیدیوں کی رہائی کا انتظام اس طرح کیا گیا کہ انہوں نے مدینہ منورہ کے دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھایا۔ یعنی ’’اقرأ‘‘ سے شروع ہونے والا انقلاب علم کی شمع کو ہر سطح پر فروزاں کرتا رہا۔ انہی قیدوں میں قریش کا ایک شعلہ بیاں خطیب، سہیل ابن عمرو بھی شامل تھا۔ اس کی استعداد خطابت کو ختم کرنے کے لئے جب یہ تجویز کیا گیا کہ اس کے سامنے کے دو دانت توڑ دیئے جائیں، تو حضور ؐ نے فرمایا: ’’مجھے خوف ہے کہ کہیں قیامت میں ہم اس کے لئے پکڑے نہ جائیں!‘‘ اس طرح بدر ہر لحاظ سے حق اور باطل کے درمیان فیصلے کا دن (یوم الفرقان، الانفال، ۴۱) ثابت ہوا۔
(مضمون نگار محکمۂ اعلی تعلیم میں اسلامک اسٹڈیز کے سینئر اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
(رابطہ۔ 9858471965)
[email protected]