فہم و فراست
محمد الطاف
یوم اساتذہ ہر سال 5 ستمبر کو ڈاکٹر سروپالی رادھا کرشنن کے جنم دن پر منایا جاتا ہے ۔ اس دن بچے اپنے اساتذہ کو بہت ہی خوش اسلوبی کیساتھ نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں، انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔ یہ دن ملک بھر کے تمام اساتذہ کے لیے خوشی اور طلباء کیلئے باعث رحمت ہوتا ہے ۔ہم بچپن سے سنتے اور پڑھتے آرہے ہیں کہ کچھ نامور مضامین کبھی بھی پرانے نہیں ہوئے،جو مضامین ہمارے اجداد سے چلے آرہے ہیں وہ آج بھی نصاب کا حصہ ہیں ۔جن میں میرا پسندیدہ استاد سر فہرست آتا ہے ۔ان دیگر نصاب سےنہ مٹنے والے مضامین میں میرا پسندیدہ دوست، گائے اور میرا پسندیدہ کھیل شامل ہیں ۔ جب ہم بچپن میں میرا پسندیدہ استاد لکھتے تھے تو کچھ اساتذہ کا بالخصوص ذکر کر کے ان کی شان میں قصیدہ گوئی کرتے تھے ۔ آج بھی جب ہم پڑھانے کے منصب تک پہنچ چکے ہیں تو اپنے طلباء کو جب یہ مضمون لکھنے کو کہتے ہیں تو وہ بھی ویسا ہی کرتے ہیں ۔یہ در حقیقت ایک شاگرد کی اُستاد سے بے پناہ محبت کا ثبوت ہے اور حقیقت میں اُستاد وہی ہے جو اُس کے شاگردوں کی نظر میں ہو ۔
ظاہر ہے کہ ایک استاد کی خوبیاں شاگرد کی عینک سے ہی دیکھی جا سکتی ہیں اور یوم اساتذہ ہوتا بھی طلباء کے لئے ہی ہے ۔ لیکن یہ مضمون روایت سے ہٹ کر ہے ، کیونکہ اس میں، میں بطور ایک استاد اس دن کی مناسبت سے استاد اور شاگرد کے خوبصورت تعلق پر روشنی ڈالنے کی کوشش کر رہا ہوں اور یہ بھی کہ اُستاد کو کمرہ جماعت میں کیسا سلوک رکھنا چاہئے ۔ یہاں ان چیزوں کا ذکر ہے جو میں نے بی۔ایڈ کورس میں تدریسی مشق کے دوران سیکھی ہیں ۔ میرا بھی درس و تدریس سے مسلسل چھ خاندانوں سے تعلق ہے ۔ میر ببر علی انیس نے اپنے لئے کہا تھا کہ :
عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں
پانچویں پشت ہے شبیرؔ کی مداحی میں
یہ شعر انہوں نے حضرت امام حسین ؑ کے لئے کہا تھا کہ وہ پانچویں نسل ہیں جو مسلسل مرثیہ خوانی کر رہے ہیں ۔ یہ شعر مجھے اس لئے یاد آگیا کہ میں بھی اپنے اجداد کی چھٹی پشت ہوں جو مسلسل درس و تدرس کے پیشے سے وابستہ ہے۔خیر!آجکل ٹیکنالوجی کا دور ہے، بیشتر بچے اس جدیدیت کا استعمال بخوبی کر رہے ہیں ۔ آج کے دور میں ایک استاد کو ذہنی طور پر اتنا ہوشیار ہونا چاہئے کہ وہ مصنوعی ذہانت کے ساتھ آگے چل سکے ۔ دور حاضر میں کمرۂ جماعت کے اندر ماحول پرانے زمانے سے بالکل مختلف ہے ۔پرانے وقتوں میں گھر سے جب بچے کو اسکول داخل کر دیا جاتا تھا تو اُستاد کی اس پر مکمل گرفت ہوتی تھی، وہ مار پیٹ بھی کرتے تھے، شدید سختی بھی کر دیتے تھے اور کسی حد تک جسمانی اذیت دینے کابھی اختیار رکھتے تھے، یعنی وہ سسٹم اُستاد کی مرکوزیت ہوتا تھا ۔ آجکل یہ سسٹم تبدیل ہو کر ، طلباء کی مرکوزیت ہو گیا ہے ۔ طلباء کی مرکوزیت کا مطلب کہ ہر ایک چیز یعنی اسکول کی ہر ایک سرگرمی بچوں کے مطابق ہو ۔ ایسے میں بہت سارے ایسے طریقۂ کار ہیں جو کہ ہر ایک اُستاد اپنے اعتبار سے اپنا کر بچوں کا دل جیت سکتا ہے ۔ ان طریقوں میں سے کچھ ایک مثالیں اسطرح ہیں۔ اول: اہم نصابی سرگرمیاں۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کو کرنے میں بچے زیادہ خوش ہوتے ہیں اور کرکے بچے سیکھتے ہیں ۔جیسے، ڈرائنگ، گروپ میں ساتھیوں سے بحث، کویز وغیرہ ۔ دوم: تدریسی اشیاء ۔ اساتذہ کو اس پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ مظاہراتی وضاحت کرتے وقت تدریسی اشیاء کی سخت ضرورت ہے کیونکہ بچوں کو جو پڑھا رہے ہیں ،وہ سامنے رکھ کر دکھا کر پڑھانے سے بچہ زیادہ سیکھتا ہے اور ان کا دھیان بھی اِدھر ُادھرکی باتوں میں نہیںبھٹکتا ۔ جیسا کہ کنفوسیوس جو کہ ایک ماہر فلسفی اور ماہر تعلیم ہیں، کا کہنا ہے کہ ’’میں سنتا ہوں تو میں بھول جاتاہوں، میں دیکھتا ہوں تو مجھے یاد رہتا ہے اور جب میں کرتا ہوں تو میں سمجھ جاتا ہوں‘‘ یعنی کسی بھی سبق کو مظاہرہ کے ساتھ پڑھانے سے بچہ بہت زیادہ سیکھتا ہے، اسے ہم آڈیو ویذول بھی کہتے ہیں ۔ سوم: سوالات و جوابات کا طریقہ۔ سوال کرنے سے اُستاد اور بچے کے تعلقات مضبوط ہوتے ہیں اور نالج بھی بڑھ جاتی ہے ۔ اس طریقے سے بچوں کا ذہن کھلتا ہے اور تخلیقی و تنقیدی صلاحیتوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے ۔ سوال پوچھنے سے تصور کی صفائی(concept clearity) ہوتی ہے ۔ ایسے ہی اور بھی بہت سارے عوامل ہیں جو بچوں اور استاد کے بیچ تعلق کو مضبوط کرتے ہیں ۔ وہ اُستاد جنہوں نے بی۔ایڈ کی ہوتی ہے ،وہ ان سب سے آشنا ہوتے ہیں، جنہوں نے کوئی ٹیچر ٹریننگ پروگرام نہیں کیا ہو، اُن کیلئے بھی درس تدریس کے متعلق کتابیں دستیاب ہیں ۔
آخر میں یہ بات بھی جاننا ضروری ہے کہ اُستاد تو صرف ایک گائیڈ کا کام کرتے ہیں لیکن جو اصل تربیت سکھاتے ہیں ،وہ بچوں کے والدین ہیں ۔ جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے کہ پرانے زمانے میں بچے کی تربیت کرنے میں اُستاد کا بھی بڑا ہاتھ ہوتا تھا لیکن دورِ حاضر میں اس کی ذمہ داری والدین کے سر جاتی ہے ۔ اُستاد کا کام نصاب مکمل کرنا ہے ، باقی استاد اخلاقیات و دیگر سماجی موضوعات پر صرف ہدایت ہی دے سکتا ہے ۔ اس لئے بچوں کے اخلاقیات کی ذمہ داری والدین کی ہوتی ہے ۔ ماں باپ کو چاہیے کہ وہ اولاد پر اپنی کڑی نظر رکھیں کہ بچہ سماج میں کس کے ساتھ اُٹھ بیٹھ رہا ہے۔ بچہ جتنا غلط صحبت میں ہو گا اُتنا ہی خراب اور والدین و اُستاد کا نافرمان ہو گا ۔ بچے کی نگرانی جتنی اچھی ہو گی اُتنا ہی بچہ کمرہ ٔجماعت کے اندر با ادب ہوگا، جس سے اُستاد کے پڑھائے ہوئے سبق کے ثمرات حاصل کر سکے گا ۔ اس کے بر عکس بد تہذیب بچہ کلاس روم کی باتوں سے استفادہ نہیں کر پائے گا ۔
(مضمون نگار، ایک سماجی کارکن ہیں اور بابا نظامی پبلک ہائر اسکینڈری اسکول میں استاد ہیں)
[email protected]