اپریل میں جموںوکشمیر یوٹی حکومت نے یومیہ اجرت والوں کی کم از کم اجرت میں اضافے کو منظوری دینے کا اعلان کیا تھاجس میں تمام سرکاری محکموں میںکام کررہے کیجول لیبروں کو شامل کیاگیاتھا اور یہ اضافہ 225 روپے یومیہ سے 300 روپے یومیہ تک کیاگیاتھا۔کہاگیاتھا کہ یہ ایک عبوری اقدام ہے جب تک کہ لیبر اینڈ ایمپلائمنٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے کم سے کم اجرت کی شرحوں پر نظر ثانی نہیں کی جاتی اور اس کیلئے محکمہ محنت وروزگار کو تین ماہ دئے گئے تھے۔گوکہ تین ماہ ہونے کو ہیں تاہم اب تک اس ضمن میں نیا کچھ سننے کو نہیں ملا ہے اور نہ ہی متعلقہ محکمہ کی جانب سے اجرت کی نئی شرحیں مقرر کی گئی ہیں جو مزدور طبقہ کیلئے مسلسل پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے کیونکہ آج کے مہنگائی کے دور میں اب سرکاری محکموں میں کام کررہے یومیہ مزدوروں کیلئے اپنے عیال کیلئے دو وقت کی روٹی بھی جٹاپانامشکل ہوچکا ہے۔ کم از کم اجرت کا خیال مزدوری سے متعلق قوانین اور قواعد کے تعین میں رہنما قوت بنناچاہئے۔یہ صرف معیشت اور غریبوں کی مدد کرنے کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ بنیادی طور پر انسانی وقار کے خیال سے جڑا ہوا معاملہ ہے۔ایک ایسا نظام جہاں انسانوں کا احترام نہیں کیا جاتا اور یہ احترام اس بات سے عیاں نہیں ہوتاکہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے،ایسا نظام یقینی طورپر استحصال کو ہی جنم دیتا ہے۔یہ بالکل یہی استحصال ہے جو یہاں اب طویل عرصے سے ہو رہا ہے اور المیہ یہ ہے کہ مہذب اور جمہوری سماج ہونے کے باوجود یہاں اس کو استحصال کا نام نہیں دیاجاتا ہے بلکہ یہاں یہ احسان کے زمرے میں آتا ہے اور اکثر بابوئوں و حکمرانوں کا خیال یہ ہے کہ سرکاری محکموں میں قلیل اجرتوں پر لوگوں کو لگا کر وہ اُن کا استحصال نہیں کررہے ہیں بلکہ ان پر احسان کررہے ہیں۔ایک ایسے وقت جب مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، اس طبقے کے لوگوں کو دی جانے والی اجرت نہ صرف ناکافی ہے، بلکہ ذلت آمیزبھی ہے۔ہمارے نظام کا المیہ یہ ہے کہ ہم ان لوگوں کے لئے وسائل وافر مقدار میں محفوظ رکھتے ہیں جن کی پہلے سے اچھی اجرت ہے۔سرکاری نظام کے بالائی تہہ کے ملازمین کے لئے تنخواہوں میں اضافے کا ایک جھٹکایقینی طور پرمزدور طبقے کی ماہانہ اجرت سے کہیں زیادہ ہوتا ہے اور المیہ یہ ہے کہ کبھی مہنگائی بھتہ تو کبھی کسی اور بہانے سرکار ایسے ملازمین کو نوازتی رہتی ہے لیکن ان بیچارے یومیہ اجرت والے ملازمین پر کسی کو ترس نہیں آتا ہے۔جمہوری اور فلاحی ریاست میں یہ سراسر استحصال ہے۔ اس صورتحال میں حکومتوں کے سربراہان پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ یومیہ اجرت والے ملازمین اور مزدوروں کے معاملے کو سنجیدگی سے لیں۔کم از کم اجرت کیلئے ایک معیار قائم کرنے کا خیال صرف اس کی شروعات ہے۔ متعلقہ محکمے کو یہ اجرت طے کرتے وقت باوقار زندگی کے تمام عناصر کو مدنظر رکھنا چاہئے۔اس طبقے کے لوگوں کے پاس کھانے کیلئے اچھا کھانا، پہننے کے لئے اچھا لباس، رہنے کے لئے ایک اچھا گھر، اپنے بچوں کو تعلیم دینے کے لئے کافی وسائل ہونے چاہئیں اورہنگامی حالات سے نمٹنے کیلئے کم از کم کچھ بچت بھی ہونی چاہئے۔انسان ہونے کے ناطے ان کی وہی ضروریات اور خواہشات ہیں جیسے مہینے کے آخر میں موٹی تنخواہ لینے والے لوگوں کی ہوتی ہیں اور یہ کیسے یہ ممکن ہے کہ یکساں ضروریات والے افراد کے لئے اجرتوں میں اس قدر تفاوت ہو۔بلا شبہ گریڈنگ کے لحاظ سے تنخواہ اور اجرت ملنی چاہئے لیکن کم سے کم اجرت یا تنخواہ اتنی بھی ہونی چاہئے کہ ایک شخص کو دو وقت کی روٹی کیلئے ہاتھ پھیلانا یا چوری نہ کرنا پڑے۔ایک آخری بات،جب ہم کم از کم اجرت مقرر کریں گے تو ہمیں ایک جامع سماجی تحفظ کے نظام کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے جو اس طبقے کے لوگوں کا خیال رکھ سکے ۔ساتھی ہی سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ کا احترام کیاجاناچاہئے جس میں واضح کیاگیا ہے کہ ایک عارضی ملازم یا یومیہ اجرت والے ملازم کو نکال کر اس کی جگہ کوئی دوسرا عارضی ملازمین یا یومیہ اجرت والا مزدور نہیں لگایاجاسکتا ہے ۔چونکہ کچھ لوگوںکا خیال ہے کہ کم سے کم اجرت میں اضافہ صرف اس لئے کیاجارہا ہے کیونکہ سرکار کو اس طبقے کی نوکریاں مستقل کرنے کا فی الحال کوئی ارادہ نہیں ہے ،اگر ایسا ہے تو سپریم کورٹ کے حکم نامہ کومدنظررکھا جاناچاہئے اور قطعی انہیں ناامید نہیں کیاجاناچاہئے بلکہ ان کی مستقلی کا بندو بست کیاجاناچاہئے کیونکہ انہوںنے اپنی زندگی کے قیمتی بیس تیس سال سرکار کو چند کوڑیوںکے عوض اب تک دئے ہیں اور اب انہیں مستقل طور یونہی استحصال کی بھٹی میں نہیںجھلسایا جاسکتا ہے بلکہ ان کی دادرسی لازمی ہے اور فوری طور ان کی باوقار زندگی کا بندوبست کیاجانا چاہئے اور جب تک وہ ہوتا ہے ،اُس وقت تک معقول اور باعزت و باوقار اجرت ملنی چاہئے تاکہ انہیں بھی لگے کہ و ہ ایک استحصالی نظام کا نہیںبلکہ ایک جمہوری اور فلاحی نظام کا حصہ ہے اور ان کے کام کا وقار بھی مجروح نہیں ہورہا ہے۔