یومِ آئین اور ہم

26نومبر کو ملک بھر میں یوم آئین منایا گیا۔ اس سلسلے میں ہائی کورٹوں اور تقریباً تمام چھوٹی بڑی عدالتوںمیں کانفرنسوں اور جلسوںکا انعقاد ہوا ،جن میں ملک کے آئین کی تمہید پڑھی گئی اور وضع شدہ قوانین کی مختلف دفعات پر روشی ڈالی گئیں۔شعبۂ قانون سے منسلک کئی معتبر شخصیات نے یوم ِ آئین کی اہمیت اور افادیت کو اْجاگر کرکیااور اس بات پر تاسف کیا کہ اپنے اس ملک میں بسنے والے کروڑوں لوگ اکیسویں صدی کے اس دور میں بھی اپنے وطن کے دستورو آئین سے بالکل بے خبر ہیںاور اس ملک کے شہری ہونے کے ناطے اُن کے کیاکیا حقوق حاصل ہیں،اْن کی بھی انہیں کوئی جانکاری نہیں،جبکہ بیشتراعلیٰ پڑھے لکھے لوگ بھی اس سے لاعلم ہیں۔جموں و کشمیر خصوصاً وادیٔ کشمیر میں بھی ملک کا 73واںیوم آئین ہائی کورٹ کی سرینگر ونگ اور وادی کے تمام ضلعی عدالتوں میں منایا گیا۔متعلقہ اضلاع کے پرنسپل ڈسٹرکٹ و سیشن ججوں نے آئین کی تمہید کو پڑھا اور یوم آئین کی اہمیت پر مختصر تقاریر کرکے آئین کی خصوصیات کو اْجاگر کیااور کہا کہٓئین محض دستاویز نہیں بلکہ اْمید کی مشعل ،مشترکہ اقدار کا گواہ اور مبنی بر عدل سماج کے ضابطہ کی کتاب ہے۔بلا شبہ ملک کے آئین سے باخبر ہونا ملک کے ہر شہری کے لئے ضروری ہے۔کسی بھی ملک کو چلانے کے لئے اور ملک کا نظم و نسق برقرار رکھنے کے لئے کسی قانون و آئین کی ضرورت ہوتی ہے اور آئین کسی بھی مملکت کا وہ اساسی قانون ہوتاہے ،جس کے بنیادی نظریات ،تصورات ،اندورنی نظم ونسق کے بنیادی اصولوں اور مختلف شعبوں کے درمیان ا ن کے فرائض اور اختیارات کی حدود متعین کرنا ہوتاہے۔ شہری ،سیاسی اورانسانی حقوق کے تحفظات کے لئے بھی کسی آئین کی ضرورت ہوتی ہے جو مملکت اور شہریوں کے حقوق کی پاسداری کر سکے اور ملک کے لئے جو بھی قوانین وضع کئے جائیں،وہ اْسی دستور کی روشنی اوردائرہ میں ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک کے دستور کا نام ’’بھارت کاآئین‘‘ہے۔ دستور کی دفعہ 393میں جس کا ذکر ہے۔جسے اب ہم دستور کے بجائے ’’آئین‘‘ کے نام سے ہی استعمال کرتے چلے آرہے ہیں۔یہ آئین اْس مسودے پر مشتمل ہے جو26نومبر1949 ء کوڈاکٹر امبیدکر صاحب کی چیئرمین شپ میں ایک سات رکنی آئین سازکمیٹی ،جس میں محمد سعد نامی ایک مسلمان بھی شامل تھے،نے حکومت کو سونپااورجس کا نفاذ 26جنوری 1950 ء سے عمل میں آیا۔بھارت کے باشندوں میں آئین کے تعلق سے بیداری پیدا کرنے کے لیے اس دن کو یعنی 26نومبرکو ’’یومِ آئین بھارت‘‘کے طور پر منایاجاتاہے۔بھارت کے آئین کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ بھارت کے تقسیم کے بعد ملک کی 552ریاستیں بھارت میں شامل کر لی گئیں۔جبکہ ملک کے آئین کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ دنیا کا سب سے طویل آئین ہے۔قانونی ماہرین کے مطابق دستور ہند میں 395دفعات (articles)،22 ابواب (chapters)،12ضمیمے(schedus)،اور 02تتمے (appndix) ہیں۔اس میں شامل الفاظ کی تعداد 1,17369ہیں۔آئین اپنی 73 سالہ سفر میں کئی مرتبہ ترمیم ترامیم کے مراحل سے گزرا ہے ۔ ملک کا یہ دستوراپنی اکثر خوبیوں اور کچھ خامیوں کے باوجود دنیا کے بہترین دستور میں شما ر کیا جا سکتا ہے۔لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جتنی پائمالی و بے حرمتی دستو ر ہند کی کی گئی شاید ہی دنیا کے کسی دستور کی گئی ہو اور جتنا اس دستور کے ا لفاظ ومعنی،مطالب و نتائج سے کھلواڑ کیا گیا ہے، دنیا کے کسی ملک میں نہیں کیا گیا ہے۔پچھلے 73سال کے دوران ملک حکمراں طبقوں نے عوام کو آئین کی طاقت اور اس کی اہمیت سے واقفیت ہی نہیں ہونے دیا اور عوام نے بھی کبھی دستور کے مکمل نفاذ کے بارے میں کوئی جانکاری حاصل کرنے کوئی پْرزور کوشش کی ہو، کہیں نظرنہیںآتی ،خصوصاً مسلمانوں نے تواس سلسلہ میں کافی کوتاہی برتی ہے۔بجا طور پرہمارے ملک آئین میں انسانی حقوق کے تحفظ کے سلسلہ میں کافی گنجائش رکھی گئی ہے۔ چونکہ انسانی حقوق کو آج آفاقی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے باوجود بڑے پیمانے پر انسانی بنیادی حقوق کی پامالی ملک میں ہور ہی ہے۔ملک میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کو دستورو آئین کیا ہے پتہ ہی نہیں اوراس ملک کے شہری اور مسلمان ہونے کے ناطے انہیں کیاکیا حقوق حاصل ہیں، اْس سے اچھے اچھے پڑھے لکھے لوگ بھی غافل ہیں۔ انہیں اس کی خبر ہی نہیں کہ آئین نے اْنہیں کیا دیا ہے۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارا پرھا لکھا طبقہ آئین کا مطالعہ کرے، اس کو عام کریں ،عام مسلمانوں میں اس تعلق سے بیداری پیداکرے، چھوٹے چھوٹے پروگرام منعقد کریںاور جہاں اس طرح کے پروگرام ہوں ،اْن میں شرکت کریں۔