اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوترس ماہ رواں اکتوبر مہینے کے ابتدائی دنوں میں بھارت کے دورے پر تھے۔یہ دورہ تین دنوں پہ محیط تھا۔بھارت کے دورے کے دوراںاُنہوں نے بظاہر عالمی سطح پہ جو موضوعات در پیش ہیں اُنہیں اپنے بیانات میں مد نظر رکھا ۔اِن موضاعات میں جہاں ماحولیات و موسموں میں تغیر منظر عام پہ رہے وہی دہشت گردی کے ضمن میں بھی باتیں ہوئی۔دہشت گردی بھارتی بیانات میں ہمیشہ ہی سر فہرست رہتی ہے ۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سمیت دیگر عالمی رہنما بھی بھارت کی ہاں میں ہاں ملاتے رہتے ہیں لیکن بھارتی چاہت کے باوجود یہ رہنما اکثر و بیشترپاکستان کو مورد الزام قرار دینے سے کتراتے ہیں۔عالمی رہنما جہاں بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات بنائے رکھنے کی سعی میں مشغول رہتے ہیں، وہیں پاکستان کے ساتھ بھی اپنے تعلقات قائم رکھنا چاہتے ہیں۔بھارتی رہنما دہشت گردی کے موضوع کو اپنے بیانات میں بڑھا چڑھا کے اس لئے پیش کرتے ہیں تاکہ کشمیر کی مزاحمتی تحریک کو سرحد پار کی دہشت گردی کا عنوان دیا جائے لیکن یہ بات چھپائے نہیں چھپتی کہ مزاحمتی تحریک میں اکثر و بیشتر مقامی عوامل شامل ہیں۔یہ بھی صحیح ہے کہ کشمیری مزاحمتی تحریک کو سرحد پار کی سیاسی و سفارتی پشت پناہی حاصل رہی ہے جس کی وجہ عیاں ہے کہ پاکستان مسلٔہ کشمیر کا ایک فریق ہے۔ماضی میں اگر گاہے بگاہے سرحد پار کے جنگجو بھی جنگجویانہ تحریک میں شامل رہے لیکن عصر حاضر میںمزاحمتی تحریک میں جنگجو عنصر مقامی پشت پناہی سے فروغ پا رہا ہے۔ سرحد پار جنگجوؤں کی حمایت سے پاکستان کی حکومت گر چہ ہمیشہ ہی انکار کرتی آئی ہے، البتہ کہا جا سکتا ہے کہ کم و بیش 750کیلو میٹر کی طویل حد متارکہ پہ آٹھوں پہر نظر رکھنا آر پار کی افواج کیلئے مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔
بھارت و پاکستان کی حکومتوں کے نکتہ نظر سے صرف نظر کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوترس کے بھارتی دورے کے پس منظر میں ایک ایسی رپورٹ اُبھرتی ہے جو 14 جون 2018ء میں منظر عام پہ آئی۔ 49 صفحات پہ مشتمل اِس رپورٹ میں یہ بات نمایاں ہے کہ کشمیر میں حقوق بشر کی خلاف ورزیاں وسیع پیمانے پر ہوئی ہیں ۔اگر چہ اِس رپورٹ کی توجہ اکثر و بیشتر بیشتر حقوق بشر کی خلاف ورز یوں پہ رہی ہے البتہ اِ س میں مسلٔہ کشمیر کے سیاسی پہلوؤں پر بھی بھر پور تبصرہ ہوا ہے۔ یہ رپورٹ اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن فار ہیومن رائٹس (حقوق البشر) کی شائع کی ہوئی ہے اور اِس کمیشن کے سابقہ چیرمین زید الراد الحسین کی سربراہی میں مرتب ہوئی ہے۔اس رپورٹ میں خصوصاََ یہ کہا گیا ہے کہ ’’انڈیا اور پاکستان کے بیچ تنازعے کا سیاسی عنصر عرصہ دراز سے مرکزی پہلو رہا ہے لیکن یہ تنازعہ وقت میں منجمد نہیں ہوا ہے بلکہ اِس نے ملین ہا افراد کے بنیادی حقوق کو لوٹا ہے اور آج کے دن تک یہ ایک ایسی مصیبت بنی ہوئی ہے جس کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا‘‘ ۔دیکھا جائے تو یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلٔہ کشمیر ایک ایسے تنازعے کی صورت میں اُبھر آیا ہے جہاں ہند و پاک اختلاف نے کشمیریوں کا سکھ و چین لوٹ لیا ہے۔قومی اناکی تسکین کیلئے ریاست جموں و کشمیر کے عوام الناس کو مسلٔہ کشمیر کے سیاسی تصفیے میں اپنا بنیادی حق استعمال کرنے سے روکا جا رہا ہے۔ قومی انا مسٗلے کو اُس کے صحیح پس منظر میں پرکھنے کے مانع ہے اور حقوق بشر کی متعدد خلاف ورزیوں کی تحقیق میں بھی قومی انا مانع ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں اُن کالے قوانین کا ذکر ہے جو حقوق بشر کی عدالتی تحقیقات کے آڑے آتے ہیں ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’حقوق بشر کی خلاف ورزیوں سے تحفظ اور انصاف تک رسائی ریاست جموں و کشمیر میں حقوق البشر کیلئے چلینج بنے ہوئے ہیں‘‘جہاں حقوق البشر کی خلاف ورزیوں سے تحفظ کی بات ہوئی ہے وہ اس جانب اشارہ ہے کہ سیکورٹی فورسز کو حقوق بشر کی خلاف ورزیوں سے تحفظ حاصل ہے۔ نیز جہاں انصاف تک رسائی کی بات ہوئی ہے، وہاں مدعا یہ ہے کہ سیکورٹی فورسز کو جو خلاف ورزیوں سے تحفظ حاصل ہے وہ انصاف کے حصول میںعدم رسائی کا سبب بنتا ہے۔
اقوام متحدہ کے رپورٹ میں اُن کالے قوانین کا ذکر ہوا ہے جو انصاف کے حصول میںعدم رسائی کا سبب بنتے ہیں۔ رپورٹ میں افسپا اور پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کا ذکر ہوا ہے جہاں پی ایس اے1978 ء میں ریاست جموں و کشمیر میں لاگو ہوا وہی افسپا کو 1990ء میں لاگو کیا گیا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ’’ اِن قوانین سے ایک ایسی ساخت وجود میں آئی ہے جس سے قانون کی معمول کی روشِ کار میں رکاوٹ، احتسابی جانچ میں رخنہ اور جس فرد کے حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے، اُس کی حق تلفی ہوتی ہے‘‘۔رپورٹ میں افسپا کے بارے میں یہ بھی ذکر ہوا ہے کہ یہ قانون سیکورٹی فورسز کے اہلکاراں کے خلاف کسی بھی قانونی کاروائی کی ممانعت کرتا ہے جب تک کہ گورنمنٹ آف انڈیا سے قانونی چارہ جوئی کیلئے اجازت حاصل نہ کی جائے ۔ آگے یہ بھی ذکر ہوا ہے کہ پچھلے 28 برس سے جب سے یہ قانون ریاست جموں و کشمیر میں لاگو ہوا ہے گورنمنٹ آف انڈیا نے قانونی چارہ جوئی کی راہ فراہم نہیں کی جس سے کہ آرمڈ فورسز کے مجوزہ ملزمین کے خلاف کاروائی ہو سکے۔ اس کے علاوہ جنسی تشدد کے بارے میں بھی ذکر ہوا ہے۔کنن پوشپورہ کی اجتماعی عصمت دری کا ذکر کچھ یوں ہوا ہے’’ایک مثالی کیس کنن پوشپورہ کی اجتماعی عصمت دری کا ہے جو 27 سال پہلے وقوع پذیر ہوا اور جس میں اُن گواہ کنندگان کے مطابق جو اس کا شکار ہوئے 23 خواتین کی اجتماعی عصمت دری ہوئی‘‘۔اس کے علاوہ لا پتہ افراد کی وارداتیں ہیں اور اُن مقبروں کا ذکر ہے جن میں بے نام و نشاں قبریں ہیں ۔حقوق البشر کی ان خلاف ورزیوں کے بارے میں بھی آج تک کوئی قابل قدر تحقیق نہیں ہوئی ہے ۔رپورٹ میں یہ بھی آیا ہے کہ’’انصاف کے حصول کی کوششیں انکار سے دوچار ہوئی ہیںاور گزرتے ہوئے سن و سال کے ساتھ اُ ن میں مختلف سطحوں پہ رکاوٹیںڈالیں گئی ‘‘۔
جہاں تک افسپا کی بات ہے تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ پہلی بار نہیں جب اقوام متحدہ کی رپورٹوں میں اُس کاذکر ہوا ہو بلکہ موجودہ رپورٹ سے پہلے بھی اُس کا ذکر ہوا ہے ،البتہ اس شدت و تفصیل سے نہیں جو کہ موجودہ رپورٹ کا خاصہ ہے ۔2009 ء میں اقوام متحدہ کے کمشنر فار ہیومن رائٹس نو نیت ہم پلے نے افسپا کو ایک نو آبادیاتی قانون سے تشبیہ دی جس کے جواب میں بھارت کے اٹارنی جنرل نے یہ کہا کہ بین الاقوامی قانون میں علحیدگی پسند تحریکوں کی اجازت دینا فرائض میں شامل نہیں۔بہ الفاظ دیگر بھارت کے اٹارنی جنرل کا مدعا شاید یہ تھا کہ کشمیر میں علحیدگی پسند تحریک کو کسی بھی قسم کی قانونی مراعات دینا بین الاقوامی فرائض میں شامل نہیں ہے۔بھارت کے اٹارنی جنرل کے نکتہ نظر کے جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ مزاحمتی تحریکوں کو علحیدگی پسند کہنا وہاںواجب ہے جہاں ریاستی ادغام ہوا ہو جب کہ ریاست جموں و کشمیر یونین آف انڈیاکے ساتھ ایک عارضی و با شرائط الحاق میں بندھی ہوئی ہے جو مسلٔہ کشمیر کے حتمی حل سے مشروط ہے۔کشمیر کی مزاحمتی تحریک کا یہ ماننا ہے کہ جہاں ادغام نہیں وہاں علحیدگی پسندی کا لیبل چسپاں نہیں ہو سکتا۔ 2009ء سے پہلے بھی 1991ء میں بھی اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن نے بھارتی آئین کے دائرے میں افسپا کے آئینی جواز پہ سوالات اٹھائے تھے لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس شدت سے 14 جون 2018ء کی رپورٹ کی پشت پناہی ہوئی ہے ، وہ آج تک دیکھنے میں نہیں آئی۔ یہ رپورٹ نہ صرف بر صغیر کے آر پار کے ممالک میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے بلکہ عالمی سطح پہ بھی اقوام متحدہ کے اہلکاراں اُس پہ نگاہ جمائے ہوئے ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اُس کا بار بار تذکرہ بھی ہو رہا ہے۔
گذشتہ ماہ ستمبر 2018ء میںاقوام متحدہ کے کمیشن آف ہیومن رائٹس کے سابقہ کمشنر زید الراد الحسین کی خاتون جانشین میشل بیشلیٹ ، نے بار دیگر 14 جون 2018ء کی رپورٹ پہ بھر پور تبصرہ کیا۔موصوفہ جنیوا میں ہیومن رائٹس کونسل کے 39ویں سیشن سے مخاطب تھیں۔اُن کا یہ ماننا رہا کہ ’’کمیشن کی رپورٹ سے صورت حال میں واضح بدلاؤ نہیں آیا ہے اور اس بات پہ بھی بحث و مباحثہ نہیں ہوا ہے کہ سنگین حالات کو کیسے ایڈرس کیا جا سکے۔کشمیر کے عوام کو انصاف کے حصول و شخصی وقار کا حق اُسی حد تک حاصل ہے جس حد تک دنیا میں اور لوگوں کوحاصل ہے اور ہم اہلکاران سے کہتے ہیں کہ وہ اُن کے انسانی حقوق کی عزت کریں ۔یہ دفتر حد متارکہ کے طرفین سے درخواست کرتا رہتا ہے کہ ہمیں دونوں طرف رسائی حاصل ہو سکے ،البتہ تب تک ہم صورت حال کا جائزہ لیتے رہیں گے اور رپورٹننگ کرتے رہیں گے‘‘۔یہ بیان اس حقیقت کا گواہ ہے کہ اقوام متحدہ کے کمیشن آف ہیومن رائٹس اپنے ابتدائی رپورٹ کو آگے کی منازل کی طرف بڑھانا چاہتے ہیں۔اس جہت میں بھارت و پاکستان دونوں حکومتوں سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ کمیشن کو مزید تحقیقات کیلئے کشمیر کے اُن حصوں میں جانے کی اجازت دیں جو اُن کی انتظامیہ میں شامل ہیں۔جہاں بھارت اس موضوع میں کسی اظہار خیال سے بدستور کتراتا ہوا نظر آتا ہے وہیں پاکستان نے رضامندی کا اظہار کیا ہے بشرطیکہ بھارت بھی ا س کی اجازت دے دے ۔فی الحال سفارتی گیند بھارت کے میدان میں ہے اور یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ انجام کار بھارت اِس سفارتی بازی کو کیسے کھیلتا ہے۔ یہ امر بعید ازامکان نہیں کہ اپنے بھارتی دورے کے دوراں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے یہ موضوع پس پردہ بھارتی رہنماؤں سے چھیڑا ہو ،اگر چہ وہ کھلے عام اپنے میزبانوں کو ہوم ٹرف یعنی گھرمیں کسی سفارتی مشکل میں مبتلا نہیں کرنا چاہیں گے۔عالمی سفارت کاری کے اپنے آداب ہوتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوترس اس موضوع کے بارے میں کتنے سنجیدہ ہیں اُس کااندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ رواں سال 2018ء کے جولائی کے مہینے کی 13تاریخ کو پریس ٹرسٹ آف انڈیا (PTI) کی ایک نیوز رپورٹ میں یہ خبر آئی کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوترس نے حد متارکہ کے دونوں طرف ایک غیر جانبدار بین الاقوامی تحقیق کی بات کی ہے۔اُن سے یہ بیان منسوب کیا گیا ’’جیسا کہ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مطلوبہ ضمن میں ہیومن رائٹس ہائی کمیشنرکا ہر اقدام اقوام متحدہ کی آواز کی نمائندگی کرتا ہے‘‘۔جولائی کے مہینے میں سیکرٹری جنرل کا بیان اور اُس کے بعد ستمبر کے مہینے میں ہائی کمشنر میشل بیشلیٹ کا اپنے پیشرو زید الراد الحسین کے اقدامات کی تائید میں جنیوا میں ہیومن رائٹس کونسل کے 39ویں سیشن میں دیا ہوا بیان اس بات کا عندیہ دیتے ہیں کہ جون 2018ء کے رپورٹ کی پشت پناہی معنی خیز انداز میں ہو رہی ہے ۔14 جون 2018ء کو شائع شدہ بیاں کو دراصل اُن دلدوز واقعات سے شہ ملی ہے جو کہ جولائی 2016ء سے پیش آئے۔ جولائی 2016ء کی 8تاریخ کو جنگجوؤں اور فورسز کے درمیان ایک تصادم میں برہان وانی جان بحق ہوئے۔برہان وانی جنگجویانہ مزاحمت کی ایک علامت بن چکے تھے۔ایسا کیوں اور کیسے ہوا، یہ ایک طویل موضوع ہے جس کی تجزیہ کاری کے بارے میں یہ کالم اس تفصیلی بحث کا متحمل نہیں ہو سکتا۔اس ایک اہم واقعہ کے مضمرات میں جیسا کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں ذکر ہوا ہے کہ’’ موج در موج مزاحمت معرض وجود میں آئی جس کو دبانے کیلئے ریاستی طاقت کا حد سے زیادہ استعمال کیا گیا، جس سے انسانی جانوں کے زیاں کے علاوہ مبینہ طور پہ حقوق البشرکی بے شمار خلاف ورزیاں ہوئیں اور 2016 ء کے موسم گرما سے 2018ء تک چلتی رہیں‘‘۔رپورٹ میں بھارتی کشمیر میں ماضی کی افتاد کا موازنہ عصر حاضر سے کیا گیا ہے اور یہ ذکر ہوا ہے کہ مزاحمت کا حجم بڑھ گیا ہے اور اس میں طبقۂ متوسط کے جواں سال افراد کے علاوہ خواتین بھی شامل ہو گئی ہیں جو ماضی میں کم دیکھنے کو ملتا تھا۔ کشمیر میں تحریک مزاحمت میں شدت اور ایسے طبقات کا مزاحمت میں شامل ہونا جو ماضی میں کنارے کے تماشائی تھے عالمی توجہ کا موضوع بنتا جا رہا ہے اور یہی اقوام متحدہ کی تفصیلی رپورٹ کا سبب بھی بن گیا، لیکن آگے چل کے یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اِس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا کیونکہ مسٔلہ کشمیر فریقین کی متضاد ومتخالف عندیوں کا شکار ہو چکا ہے اور اقوام متحدہ کو رپورٹیں مرتب کرنے کے علاوہ آگے کے کئی اور اقدامات کرنے پڑیں گے۔
Feedback on: [email protected]