سرینگر//مسلم دینی محاذ کے امیر ڈاکٹر محمد قاسم فکتو نے کہا ہے کہ ریاست میں یتیموں، بیواو¿ں اور غریب بالغ لڑکیوں کے مسئلے نے انتہائی تشویشناک صورتحال اختیار کی ہے۔ انہوںنے کہاکہ تقریباً ہرخاندان اور محلے میں کچھ لوگ معاشی طور آسودہ حال ہوتے ہیں ان پر یہ شرعی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ یہ دیکھیں کہ ان کے خاندان اور محلہ میں جو یتیم ہیں ان کی تعلیم وتربیت کا بندوبست ہو، بیوہ ہے تو اسکی کفالت کی جائے اور بالغ غریب لڑکیاں ہیں تو ان کا نکاح کیا جائے۔ انہوںنے کہاکہ اسلام میں بنیادی طور یتیم خانے اور بیوہ گھر وغیرہ قائم کرنے کا تصور نہیں ہے بلکہ قرآن مجید نے بیواو¿ں اور یتیموں کے مسلے کا حل یہ بیان کیا ہے کہ ان یتیم بچوں کی ماو¿وں کے ساتھ نکاح کئے جائیں،چونکہ کشمیر میں کئی سماجی مسائل پرہندوازم کا اثر ہے اس لئے آج بھی یہاں نکاحِ ثانی کومعیوب جانا جاتا ہے۔ ایسے میں اگر یتیم خانے اور بیواوں کےلئے کچھ ادارے قائم ہوتے ہیں وہ احسن طور کام کررہے ہیں تو ٹھیک ہے،مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ کشمیر میں 30,000 بیواوں، 225,000 یتیموں اور 250,000 کے قریب بالغ غریب لڑکیوں کی طرف تر جیحی بنیادوں پر توجہ کی جائے۔ جموں کشمیر کے معاشی طور آسودہ حال لوگوں اور کثیر رقم تنخواہ لینے والے حضرات بآسانی اپنے خاندان اور محلہ میں یتیموں ، بیواووں اور بالغ لڑکیوں کی ضروریات پوری کرسکتے ہیں۔میری ملت اسلامیہ سے گزارش ہے کہ وہ رمضان میں اپنی ساری توجہ ان ہی تین مستحقین پر دیں کہ کس طرح یتیموں کی تعلیم وتربیت کا مستقل بندوبست، بیواووں کی ماہانہ کفالت اور غریب بالغ لڑکیوں کے لئے سامانِ نکاح کا بندوبست ہوسکتا ہے۔معاشی طور آسودہ حال لوگوں سے میری یہ گزارش ہے کہ وہ ان تینوں کی مدد معاونت کو عبادت جان کر انجام دیں۔