سچ کہا ہے کسی نےبات سے بات نکلتی ہے اور پھر یوں ہی دراز ہو جاتی ہے۔انگریز شاعر تھامس مورےؔ نے جب 1817 میں کشمیر پر’’لالہ رُخ‘‘ کے عنوان سے اپنی طویل نظم لکھی تو پورا یورپ جھومنے لگا اور اس کتاب کی ایک لاکھ کاپیاں ہاتھوں ہاتھ بِک گئیں۔ یہاں کے پھسلتے جھرنوں میں قدرت کے نغمے ہیں، دہکتے پھولوں میں حُسن یوسفؑ کی مہک ہے،پرُ کشش مناظر میں ید بیضا کا اثر ہے، میٹھے پانی میں دَمِ عیسیٰؑ کی تاثیر ہے، پہاڑیوں کی بلندیوں میں عرفان کا درس ہے، درختوں کے تھرکتے پتوں میں ممتا کی ٹھنڈک ہے، مخمور فضا میں محبت کی مستی ہے، رسیلے پھلوں میں حوروں کے بوسے ہیں، پرندوں کی بولیوں میں زندگی کی بشارتیں ہیں، غرض قطرے قطرے اور ذرے ذرے میں خدائے واحد کی نشانیاں اور تجلیات پنہاں ہیں اور معرفت کے دفاتر مخفی ہیں۔ یہ خطۂ زمین ایسا ہے کہ جو یہاں آتا ہے تو پھراُس کا لوٹنے کو جی نہیں چاہتااور لوٹ بھی گیا تو پھر یادیں نہیں چھوڑتیں۔ گویا بقول احمد فراز ؎
ابھی تلک ہے نظر میں وہ شہرِ سبز وگل
جہاں گھٹائیں سر راہ گزر جھومتی ہیں
جہاں ستارے اُترتے ہیں جگنوؤں کی طرح
جہاں پہاڑوں کی قوسیں فلک کو چومتی ہیں
تمام رات جہاں چاندنی کی خوشبوئیں
چنار وسرو کی پرچھائیوں میں گھومتی ہیں
ابھی تلک ہے نظر کے نگار خانے میں
وہ برگِ گل سے تراشے ہوئے بہشت سے جسم
وہ بولتے ہوئے افسانے الف لیلیٰ کے
وہ رنگ ونور کے پیکر وہ زندگی کے طلسم
اور ا یسی کتنی ہی رعناعیاں جن کے لئے
خیال وفکر کی دنیا میں نہ کوئی نام نہ اسم
ابھی تلک ہے تصو ر میں وہ درو دیوار
بسیط دامن کوہسار میں چناروں تلے
جہاں کسی کی جواں زلف بار ہا بکھری
جہاں دھڑکتے ہوئے دل محبتوں میں ڈھلے
عجیب تھی وہ جھروکوں کی نیم تاریکی
جہاں نظر سے جب نظر ملی تو چراغ جلے
میں لوٹ آیا ہوں اُس شہر سبز وگل سے
مگر حیا ت انہی ساعتوں پہ مرتی ہے
مگر المیہ یہ ہے کہ کشمیر کا یہی حُسن اس کے باشندگان کے لئے وجۂ مصیبت بھی بنا اور اسی کے سبب وہ تکالیف اور اذیتوں کا شکار بنے چلے آرہے۔ یہی وجہ ہے کہ سینکڑوں سال تک یہ خطہ دراندازی کا تختہ ٔ مشق بنارہا اور غیر ملکیوں کے زیر تسلط اور زیر تظلم رہا۔ ان ناگفتہ بہ حالات نے جہاں وادی کے لوگوں کی تہذیبی شناخت پر اثر ڈالا، وہاں یہاں کی سیاست بھی جعل سازی کا کھیل بن گئی۔ کشمیر میں جو موجودہ بے چینی ہے اس کی تاریخ طویل ہے۔ سینکڑوں سال تک بیرونی طاقتوں کے تسلط میں رہ کر کشمیریوں کا مزاج بھی کچھ پیچیدگیوں کا شکار بنا اور اِس خطے کے لئے جب بھی سیاسی فیصلے ہوئے تو اس مزاج کا خیال نہیں رکھا گیا
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں
کچھ نہ دوا نے کام کیا
چونکہ بات سے بات بنتی ہے اور پھر یوں ہی دراز ہوتی ہے، اس لئے میں پھر اپنی کہانی پہ آتا ہوں۔یہ جو اوپر میں نے فرازؔ کی نظم کا حوالہ دیا ،یہ اس تاثر کا عکاس ہے جو بچپن میں بانڈی پور علاقے کے مناظر نے میری یاداشت پر ڈالا ہے۔ ان دنوں میری عمر یہی کچھ دس یا گیارہ سال رہی ہوگی جب میں اپنے دادا اور پھوپھا کے ساتھ کبھی کبھار بانڈی پورہ جایا کرتا تھا۔ غالبا ًتین یا چار بار گیا ہوگا۔ ان دنوں شاید گاڑی بٹہ مالو سری نگرسے وہاںروانہ ہوتی تھی۔ اگر میری یاداشت صحیح طور کام کررہی ہے تو اس گاڑی کے لئے ایک ہفتہ پہلے ٹکٹ بک کرانا پڑتا تھا۔ پھر مقررہ دن فجر نماز کے بعد ہی بٹہ مالو جانا پڑتا تھا۔ اگر قسمت ساتھ دیتی تو گاڑی روانہ ہوجاتی، ورنہ اگر مسافر مطلوبہ تعداد میں حاضرنہ ہوتے تو گاڑی نہیں جاتی، پھر اگلے روز آنا پڑتا تھا۔ گاڑی انجن کے گرم ہونے کے باعث راستے میں کئی بار رُک جاتی تھی۔ پھر ڈرائیور اور کنڈکٹر انجن میں پانی ڈال دیتے۔ گاڑی کو بار بار سیلف کا بٹن دبادیا جاتا تو اس سے ’’کھر کھر‘‘ کی آواز تو ضرور ابھرتی مگر گاڑی سٹارٹ نہیں ہوتی تھی۔ آخر اس کا ’’کھر کھ‘‘ بھی دم توڑ دیتا تھا اور پھر گاڑی سٹارٹ کرنے کے لئے ڈرائیور اور کنڈکٹر باری باری انجن کے سوراخ میں لوہے کا ہینڈل ڈال کر گھمانے لگتے، مگر گاڑی سٹارٹ نہ ہوتی۔ آخر مسافروں میں دل گردہ رکھنے والے لوگ اپنا قوتِ بازو آزمانے آجاتے تھے۔ پھر بزرگوں کے وظائف، نونہالوں کے بار بار آسمان کی جانب ملتجی نگاہوں کی تاثیر اور ڈرائیور، کنڈکٹر اور نوجوان مسافروں کے زور ِبازو سے گاڑی جوں توں سٹارٹ ہوجاتی تھی۔ بانڈی پورہ تک پہنچتے پہنچتے یہ واقعات کئی بار پیش آتے رہتے اور آخر جب محض اللہ کے فضل وکرم سے گاڑی بانڈی پورہ پہنچ جاتی اور تھکے ہارے مسافر گاڑی سے اُترنے لگتے تو مسجدوں سے مغرب کی اذان سنائی دیتی تھی اور قریب کے ایک نالے سےگزرتے ہوئے ہوئے پانی کے شور کی موسیقی گوش ِ سماعت سے ٹکراتا!
بانڈی پورہ میں حکیم غلام حسن صاحب نام کا ایک آسودہ حال شخص ہمارا رشتہ دار تھا۔ ہم اسی کے پاس جایا کرتے تھے۔ ان کے نوکر چاکر بہت تھے اور زمین جائداد بھی اچھی خاصی تھی۔ ان دنوں وہاں حکیم صاحب کے پاس ایک لڑکا بھی رہتا تھا۔ وہ مجھ سے غالبا تین یا چار یا پانچ سال بڑا تھا۔ وہ بہت ہی اچھا اور پیارا لڑکا تھا۔ میں اس کے متعلق بس اتنا جانتا تھا کہ یہ حکیم صاحب کا بیٹا ہے۔ پھر بڑا ہوکر معلوم ہوا کہ وہ حکیم صاحب کا بیٹا نہیں بلکہ مرحوم غلام رسول نازکی صاحب کا فرزند اقبال نازکی تھا (اللہ ان کی عمر دراز کرے اور اپنے سایہ عافیت میں رکھے) اور کچھ برس حکیم صاحب کے پاس رہنے کے بعد اسے اپنے والد یعنی غلام رسول نازکی صاحب نے واپس اپنے گھر بلایا تھا۔ نازکی خاندان کا آبائی علاقہ بانڈی پورہ ہی ہے۔ یہ علاقہ علمی لحاظ سے بھی بڑا زرخیز رہا ہے اور کئی صوفیوں اور علما نے بھی اپنے قیام کے لئے اسی علاقے کو پسند فرمایا ہے۔ دور حاضر میں ایک صوفی بزرگ کوثر صاحب، جو نہ جانے کہاں سے آئے تھے، نے اپنے لئے اسی علاقے کا انتخاب کیا تھا اور یہیں مدفون بھی ہوئے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ کابل کے تھے، پھر کئی برس مدینہ پاک میں رہے اور پھر وہاں کشفاً یہ ہدایت ہوئی کہ کشمیر جاؤ۔ اس علاقے سے علم وفضل کے کئی شہسوار اُبھرے ہیں۔ حاجن کا علاقہ بھی بانڈی پورہ سے ہی منسلک ہے۔
مذکورہ لڑکا (اقبال نازکی صاحب) مجھے اپنے ساتھ کھیتوں اور میوہ باغات میں لے جاتا اور مختلف مقامات کی سیر کراتا تھا۔ یہ وہ موسم ہوتا تھا جب ہر طرف ہریالی ہی ہریالی ہوتی تھی۔ چشموں سے اُبلتا صاف شفاف پانی، نالوں ندیوں میں صاف پانی کے بہاو کا شور، اس تیز پانی کی گول مٹول پتھروں سے ٹکرانے کی آوازیں، پیڑوں پہ لگے پھل اور اقبال کے ساتھ مال مویشی کے پیچھے پیچھے جانا بہت ہی دلکش اور دلفریب مناظر ہوا کرتے تھے۔ پانی کی شفافیت دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ جیسے پانی کو پانی نے دھودیا ہو۔ ہواؤں میں ایسی بھینی بھینی خوشبو ؤںکا احساس ہوتا تھا جیسے جنت کے پھولوں کو چھو کر آئیں ہوں۔ ان مویشیوں کے پیچھے پیچھے چلنا، یا ہاتھ میں تھامی پتلی چھڑی سے انہیں ہانکنا، مجھے یہ اتنا اچھا لگتا تھا جیسے کسی شریف دولہے کو سہاگ کی دوسری رات کا سفر، جس کا اپنی بیوی کے سوا زندگی میں کسی اور لڑکی سے واسطہ نہ رہا ہو۔ہائے وہ خوب صورت دن، ہائے وہ بچپن!!۔
(اگر موقع ملا اور زندگی نے وفا کی تو آئندہ بھی کسی شمارے میں اپنی یادوں کے حوالے سے کچھ بتانے کی کوشش کروں گا)۔ (ختم شد)