الیاس متوی
چلۂ کلان اپنے شباب پر تھا، ہر طرف یخ بستہ ہواؤں کی حکمرانی تھی۔ بجلی بھی اکثر روٹھ جایا کرتی اور گھروں میں اندھیروں کا راج تھا ، اس لئے بہ مشکل صبح دس بجے گھروں کے چولہے جلتے تھے۔کوئی شخص کام کاج کے سلسلے میں صبح نکلتا، تو ایسا محسوس ہوتا جیسے کوئی برف پوش مسافر خاموشی کی چادر اوڑھے اپنی منزل کی طرف بڑھ رہا ہو اورکشکش کی طرح آوازیں نکالتا یخ بستہ دنیا کو اپنی کہانی سنا رہا ہو۔
حسبِ معمول، کچری جانے کی تیاری ہو رہی تھی کہ اچانک موبائل فون کی گھنٹی بجی۔ ایک لمحے کے لیے سوچا کہ نہ اٹھایا جائے، مگر اس دورِ جدید میں اس بات کی گنجائش کہاں؟
سرپنچ ” ہینڈ پمپ لگانے گاڑی آئی ہے چاہیے تو آ جاؤ ”
تیز قدموں سے گاڑی کے پاس پہنچاتو سرپنچ چلا چلا کر کہہ رہا تھا”لگتا ہے سارے مرد مر چکے ہیں، صرف عورتیں ہی باقی ہیں”
تبھی ایک بے باک عورت برس پڑی “تو ہوتاکون ہے نقلی سرپنچ، اصلی سرپنچ تو تیری بیٹی ہے! تو بار بار بیچ میں کیوں آتا ہے؟”
یہ سن کر سرپنچ غصہ سے لال پیلے ہو گئے ۔ ” گاڑی کو واپس بھیج دیتا ہوں کوئی ہینڈ پمپ نہیں لگے گا مردوں کی تو کوئی خبر نہیں، عورتوں سے کیا بات کرنا!”
یہ سن کر وہاں موجود عورتیں آگ بگولا ہو گئیں اورڈرائیور کو دھمکی دینے لگیں: “اگر تم نے گاڑی کو ایک قدم بھی ہلایا، تو سرپنچ بھی کھائے گا اور تم بھی!”
یہ سنتے ہی ڈرائیور کے پسینے چھوٹنے لگے۔ وہ کبھی عورتوں کو دیکھتا تو کبھی سرپنچ کو۔ اس کے چہرے پر خوف کے آثار نمایاں تھے۔عورتوں کے اس کرختگی کا منظر دیکھا کر سر پنچ کا رویہ بدل گیا، جیسے بن بادل بارش۔
سرپنچ “پمپ لگا لو جی کیا تماشہ دیکھ رہے ہو!”
ڈرائیور نےپمپ کا کام شروع کیا اور دس میٹر تار لانے کو کہا۔ سر پنچ تار لانے چلے گئے ۔ کافی وقت گزرنے کے بعد سر پنچ تار لے کر آیا جس میں چار جوڑ لگے ہو تھے ۔
ڈرائیور “اس تار سے کوئی کام بننے والا نہیں ہے اتنی دیر میں تو آپ بازار سے تار لے آتے کسی اور کے پاس تار نہیں ملے گی کیا ”
بےباک عورت”ایسے سرپنچ سے تو ہم مزدور اچھے ہیں! میں ابھی جا کر تار لے آتی ہوں ،اور آپ کے لئے چائے بھی ”
عورت نہ جانے کون سی رفتار میں گئی کہ پلک جھپکتے ہی چائے اور تار لے کر حاضر ہوگئی۔ اس کی پھرتی دیکھ کر ڈرائیور بےساختہ بول اٹھا:
“سرپنچ تو آپ کو ہونا چاہیے تھا!”
یہ سن کر عورت پھولے نہ سمائی ۔۔۔۔
“بھیاکوئی سامان چاہیے تو بتا دو۔ آپ نے صبح سے کچھ نہیں کھایا پیا،پہلے چائے پیو، پھر کام کرو۔ کام تو چلتے رہیں گے، مگر صحت کہاں سے ملے گی ۔آپ کے لئے کھانا بنانے والی تھی مگر کیا معلوم تھا کہ یہاں کے بڑے لوگ پانی کا ایک گلاس بھی نہیں دیں گے؟”
اس نے چائے کی پیالی ڈرائیور کی طرف بڑھائی ۔سر پنچ نے بےباک عورت کے طعنوں سے پریشان ہو کر گھر کی راہ لی۔ پمپ لگا لیکن سرپنچ کا کہیں اتا پتہ نہیں تھا۔ جیسے ہی ہینڈ پمپ کا ہینڈل چلایا، پانی تیزی سے نکلنا شروع ہو گیا۔ ایسا لگا جیسے لمبی خشک سالی کے بعد بارش ہو گئی ہو، ہر چیز میں تازگی آ گئی ہو۔ وہاں موجود عورتوں کی بھی کچھ ایسی ہی کیفیت تھی۔ ڈرائیور پمپ کے استعمال کی ہدایات بتا رہا تھاجس میں بھی بےباک عورت پیش پیش رہی ، گویا ہینڈ پمپ اسی نے ایجاد کیا ہو۔
مگر پمپ کے پانی کو دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے چائے کافی کا چشمہ ہاتھ لگ گیا ہو۔ من تو کر رہا تھا کہ ایک گلاس لے کر پی لوں مگر لاج نے اجازت نہ دی اور میں دیکھتا ہی رہ گیا۔ ڈرائیور نے پانی کی چند بوندیں ہاتھ میں لے کر منہ میں ڈالیں اور فوراً الٹی کرنے لگا۔ اس کی حالت دیکھ کر میں نے دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا کہ لاج بھی اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اگر لاج نہ ہوتی تو دنیا کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔ جن لوگوں میں شرم و حیا نہیں ہوتی، ان کے جیتے جاگتے نمونے ہمیں روز مرہ حیات میں نظر آتے رہتے ہیں۔
ڈرائیور نے ایک بوتل میں پمپ کا پانی بھرا اور تاکید کی کہ جب تک پانی صاف نہ نکلے، کوئی اسے استعمال نہ کرے۔ پانی کی حالت دیکھ کر ساری محنت رائیگاں سی لگ رہی تھی۔ کافی پانی نکالنے کے باوجود بھی اس کا رنگ نہیں بدلا۔ آخرکار طے پایا کہ وقفے وقفے سے پانی چھوڑا جائے ممکن ہے اصلی حالت بحال ہو ۔ کچھ عورتوں نے اس کام کی ذمہ داری لے لی۔
شام ہو چکی تھی، سب اپنے گھروں کو لوٹ گئے، مگر وہ سپہ سالار عورت اب بھی وہیں تھی۔ ہر پانچ منٹ کے وقفے سے پانی بہا رہی تھی اور اگر کبھی پانی رک جاتا تو کہتی،
“اسے نکلنے میں تکلیف ہو رہی ہے ”
اُس کی ہمت دیکھ کر لگ رہا تھا یا تو پانی اپنی اصل حالت میں آئے گا یا ہینڈ پمپ ہی دم توڑ دے گا۔
سردی ہڈیوں میں اتر چکی تھی۔ صحت جواب دے رہی تھی۔ کھولتے ہوئے پانی کے دو چار گلاس حلق میں اتارے مگر کوئی اثر نہ ہوا۔ جسم کا ہر انگ طرح طرح کی آوازیں نکال رہا تھا۔ دانت ریل کے ڈبوں کی طرح کھڑکھڑا رہے تھے۔آخرکار گرم پانی کی بوتل لے کر خود کو بستر کے حوالے کیا تاکہ کچھ راحت ملے۔آدھی رات تک دن کا پورا منظر بدن پر حاوی رہا۔ پھر پتہ نہیں کب نیند آ گئی اور کب صبح ہوئی۔ بستر چھوڑنا گویا راج کے خلاف اعلانِ جنگ کے مترادف تھا۔ اس لیے بستر میں ہی تھے کہ اچانک دروازے پر زور زور سے دستک ہوئی۔ ایسا لگا رہا تھا دروازہ ہی اکھاڑ کر اندر لے آئے گا۔ خوابیدہ آنکھوں سے دروازے کے قریب پہنچا، سارا دروازہ لرز رہا تھا۔ گھبراہٹ میں فوراً پیچھے ہٹا، خیال آیا کہ کہیں “صاحبِ بھالو” تو نہیں؟ دوسری بار کی دستک پہلے سے بھی زیادہ خوفناک تھی۔ اب تو شک یقین میں بدل گیا۔اِدھر اُدھر کچھ سامان ڈھونڈ نےلگا تاکہ صاحب بھالو کو بگایا جائے۔صاحبِ بھالو نے گاؤں والوں کی نیند حرام کر رکھی تھی۔ دن ہو یا رات، بادشاہ کی طرح گھومتا تھا۔ گاؤں کے غریبوں کی ساری کمائی کو مزے سے کھا جاتا تھا ۔ اس کے خلاف کوئی بھی قدم خود کو زندان میں ڈالنے کے مترادف تھا۔اسی کشمکش میں تھے کہ
باہر سے پھر آواز آئی: “دروازہ کھولو بھائی، دروازہ کھولو ” دروازہ کھولا تو سامنے سرپنچ صاحب چٹان کی طرح کھڑے تھے۔
سرپنچ صاحب “آپ اتنے سویرے کہاں تھے سبھی، خیریت تو ہے، فون کرتے ہم خود آتے آپ نے تکالیف کیوں کی”
سرپنچ “کچھ بھی خیریت نہیں میں رات بھر جاگا ہوا ہوں ”
جب یہ بات سنی تو مجھے لگا کی پمپ کاپانیکہیں سر پنچ کے گھر تشریف آور تو نہیں ہوا جس کی آدھی ملکیت بے وارث خزانےکی تھی۔ کہیں پانی نے اپناحصہتو نہیں لیا۔ سرپنچ نے آواز دی” متوی بھائی کسی دنیا میںپہنچ گئے- میں پمپ کی مشین اورتارکی بات کر رہا ہوں جو رنگ برنگے ٹکڑوں کو جوڈ کر لگایا گیاہے کہیں کسی کو کرنٹ لگ گئی تو وہ بھی میرے سر آئے گا۔ ہمیں گھر گھر جا کر پیسہ جمع کرنا پڑھے گا۔ اگر صبح صبح چندہ نہ کیا تو سب مالک چلے جائیں گے اور مالکن عورتیں رہ جائیں گی۔ ان سے الجھنے سے بہتر ہے کہ پانی ہی استعمال نہ کریں!”
سامنے والے گھر سے چندہ مہم کی ابتدا ہوئی۔ جیسے ہی دروازے پر دستک دی، کوئی اثر نہ ہوا۔ پھر سرپنچ نے اپنے مضبوط جوتوں سے دو تین لاتیں رسید کر دیں، جس سے دروازے کی حالت مزید ابتر ہو گئی۔ اندر سے لڑکھڑاتی ہوئی ایک عورت نکلی، جسے دیکھ کر لگ رہا تھا کہ نیند میں چلنے کی عادی ہے۔
“تمہیں آدمی نظر نہیں آتےہیں کیا؟” سرپنچ نے غصے سے کہا۔ عورت نے دوپٹہ درست کرتے ہوئے جواب دیا
، “صبح صبح آپ لوگ کہاں تھے؟”
” کہاں ہیں تمہارے پتی دیو؟ سو سو روپے جمع کر رہے ہیں”
“وہ اندر ہیں، آپ دونوں یہی رکئے،ایک منٹ میں لے کر آتی ہوں۔”
سرپنچ اپنی چار سالہ خدمات گنوائے کیسے۔ اس نے اپنے مکان کے ساتھ ایک درس گاہ بنوائی تھی، جو سرکاری زمین پر حفاظتی دیوار کا کام دیتی تھی۔سرپنچ کے کار ناموں کی لِسٹ ختم ہوگی لیکن عورت کا ایک منٹ ختم نہیں ہوگا۔سرپنچ غصہ سے چلانے لگا تو میاں تیزی سے آئے اور سو روپے دے کر اسی تیز سے واپس چلے گئے۔
سرپنچ “دیکھا؟ اچھائی کا صلہ! ایسے منہ پھیر لیا جیسے ہم ان سے گھر چھین کر لے جا رہے ہوں۔”
سرپنچ صاحب تیزی سے دوسرے گھر کی طرف بڑھے۔ اس بار انہوں نے کھڑکی پر دستک دی تھی، جس سے شیشہ ٹوٹ گیا تھا۔ اندر سےگھر کے مالک چلّاتے ہوئے باہر نکلے: “یہ کون پاگل ہے جو میرے گھر کا شیشہ توڑ دیا ؟” وہاں سرپنچ بھی بڑے غصے میں بولے: “پاگل ہم نہیں، تُو ہے! ہم نے تو تیرے شیشے پر پیشاب بھی نہیں کیا!”مالک مجھے اندر لے گئے کانچ کے ٹکڑے بکھرے پڑے تھے ۔بڑی مشکل سے کچھ روپیوں میں مسئلہ حل ہوا۔
دوسرے گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سرپنچ نے دوسو روپئے لانے کو کہا۔ یہ اُسی بےباک عورت کا گھر تھا جس نے اصلی سرپنچ کو پیش کرنے کا دعویٰ پیش کیا تھا۔درواذہ پر دستک دینے کی دیری تھی کہ وہی عورت سو روپے لیے تیار بیٹھی تھی۔ اس کی ہوشیاری دیکھ کر لگ رہا تھا۔ اصلی سرپنچ ہونے کی حقدار تو یہی تھی۔ اب کیا کریں جب چڑیاں چک گئیں کھیت تو پچھتائے کیا؟
بہرحال صبح نو بجے تک پانچ ہزار روپے جمع ہو چکے تھے۔ سرپنچ صاحب نے پول کا انتظام مکتب سے لا کر کیا تھا ۔مشین کے لیےصندوقچہ اور تار دس میٹر کا تخمینہ پانچ ہزار روپے لگایا تھا۔
���
لموچن دراس کرگل لداخ
موبائل نمبر؛9469732903