اعجاز میر
سرینگر //بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہوگا کہ مغل روڑ در اصل ’ہیر پورہ جنگلی حیات پناہ گاہ‘(وائلڈ لائف سینچوری)کے بیچ میں سے گذرتا ہے۔یہ جنگلی حیات پناہ گاہ 1978میں بنائی گئی تھی اور اس سے قبل یہ پورا علاقہ محکمہ جنگلات کا حصہ تھا لیکن بعد میں اسے وائلڈ لائف سینچوری بنایا گیا۔2002میں جب مغل روڑ کی تعمیر ہورہی تھی تو سپریم کورٹ نے اس پر روک لگائی تھی لیکن بعد میں ایک اعلیٰ اختیاری کمیٹی کی رپورٹ کے بعد اسکی مشروط اجازت دی گئی کہ اس علاقے میں کسی بھی قسم کی عارضی یا مستقل بنیادوں پر تعمیر نہیں کی جائیگی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ مغل روڈ اور پیر کی گلی اس سڑک کے پونچھ حصے کو نمک روڈ بھی کہا جاتا تھا لیکن مغل بادشاہ جہانگیر نے جب(17ویں صدی کے اوائل)میں اس پر سفر کیا اور اسے مغل روڈ کا نام دیا۔ہیرپورہ وائلڈ لائف سینچوری( جنگلی حیات کی پناہ گاہ) مغل روڑ پر شوپیان قصبہ سے 12 کلومیٹر دور اورسرینگر سے 70 کلومیٹر دورجنوب میں واقع ہے۔یہ جنگلی حیات کی پناہ گاہ 341 مربع کلومیٹرکے رقبے پر پھیلا ہوئی ہے۔ اس کے شمال میں جھیل گمسر، شمال مشرق میں ہیر پورہ گائوں، مشرق میں روپڑی، جنوب میں سارنسر اور مغرب میں پیر پنجال درہ ہے۔ ڈھلوانیں مشرقی پہلو پر ہلکی سے اعتدال تک کھڑی ہیں اور اونچے شمالی اور مغربی پہلو پر بہت سی چٹانیں کھڑی ہیں۔ جنوبی اور جنوب مشرقی حصے معتدل اونچائی پر کھڑے ہیں۔ ہیر پورہ وائلڈ لائف سینچوری جموں و کشمیر میں جنگلی حیات کی خوبصورت پناہ گاہوں میں سے ایک ہے۔
اقسام درخت
ہیرپورہ وائلڈ لائف سینچوری میں موجود درختوں کی اقسام میں مغربی مخلوط مخروطی جنگلات، پرنپتی ذیلی الپائن جھاڑی والے جنگلات اور ذیلی الپائن چراگاہیں شامل ہیں۔ مغربی مخلوط مخروطی جنگل پر کیل پائن کا غلبہ ہے جس میں اسپروس اور فر (ابیز پنڈرو)اس کے بنیادی ساتھی ہیں۔ مغربی ہمالیہ کے ذیلی الپائن جنگلات پر ایف آئی آر کا غلبہ ہے، جب کہ ذیلی الپائن جھاڑی پر ہمالیائی برچ (بیٹولا یوٹیلس)اور جونیپر(جونیپرس کمیونس) کا غلبہ ہے جس میں جنگلی گلاب شامل ہیں۔ جنوب مشرقی حصے میں اعتدال سے کھلی مخروطی پودوں کا غلبہ کیل پائن ہے اور اس کا تعلق دیودار اور سپروس سے ہے۔ زیادہ چٹانی اور کھلے شمال مغربی حصے کی نباتات بنیادی طور پر ذیلی الپائن جھاڑی والے جنگل پر مشتمل ہے جس پر جونیپر اور کیل پائن ایک منسلک نوع کے طور پر غلبہ رکھتے ہیں۔ انسانی ساختہ ذیلی الپائن چراگاہیں بھی پناہ گاہ کے شمال مغربی اور جنوب مشرقی دونوں حصوں میں پائی جاتی ہیں۔
حیوانات
ہیرپورہ وائلڈ لائف سینچوری جانوروں کی بہت سی انواع کا مسکن ہے جن میں ہمالیائی بھورا ریچھ، ہمالیائی کالا ریچھ، کستوری ہرن، تیندوا، تبتی بھیڑیا،ہمالیائی پام سیویٹ اورشدید خطرے سے دوچار تقریباً50 پیر پنچال مارخوراس کے علاوہ پرندوں کی 130 اقسام ۔اس میں سپاٹڈ فورک ٹیل، ویسٹرن ٹریگوپن، راک بنٹنگ، روفس بریسٹڈ ایکسنٹور، ہمالیائی ووڈپیکر، بلیو راک تھرش، وائٹ کیپڈ ریڈ اسٹارٹ، ہمالیائی گرفن، کامن اسٹون چیٹ، ریڈ بلڈ گریپی اور بلیو میگے شامل ہیں، اس پناہ گاہ میں پائے جاتے ہیں۔
انسانی مداخلت
مغل روڑہیر پورہ وائلڈ لائف سینچوری سے گزرتاہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہ جانوروں کی نقل و حرکت کو روکتاہے، خاص طور پر انتہائی خطرے سے دوچار پیر پنچال مارخور۔گجروں، بکروالوں اور مقامی چرواہوں کی طرف سے جنگلات کی کٹائی، ضرورت سے زیادہ مویشیوں کے چرنے اور مستقل جھونپڑیوں کی تعمیر کی وجہ سے بھی پناہ گاہ کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ جبکہ پونچھ کی طرف سے، چھتہ پانی تازہ ترین سیاحتی مقام ہے جو اپنے دریا، گلیشیئرز اور گھاس کے میدانوں کی وجہ سے سونمرگ کا مقابلہ کرتا ہے۔ چونکہ اس علاقے کو جنگلی حیات کی آماجگاہ قرار دیا گیا ہے، اس لیے سرکاری ایجنسیوں اور سیاحت سے متعلق دیگر نجی ایجنسیوں کو وہاں کوئی انفراسٹرکچر بنانے سے روک دیا گیا ہے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ پیر پنچال مار خور صرف اسی پہاڑی سلسلے کے جنگلات میں پایا جاتا ہے اور جنگلات میں انسانی مداخلت کی وجہ سے اسکی نسل ختم ہوتی جارہی ہے۔وائلڈ لائف رینج آفیسر فاروق احمد نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ جنگلی حیات کی اس پناہ گاہ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ نہ صرف اونچے پہاڑوں اور گھنے جنگلات سے گھری ہوئی ہے بلکہ وسیع العریض اور ہزاروں ہیکٹر اراضی کے میدانوں پر بھی محیط ہے۔ رینج آفیسر نے کہا کہ پیر پنچال مار خور کو کسی بھی قسم کا خلل نہیں ہونا چاہیے تبھی وہ اپنی نسل کو بڑھا سکتا ہے لیکن مغل روڑ کی تعمیر کیساتھ ہی اسکی تعداد میں کمی آتی گئی۔ انہوں نے کہا کہ جو موسم جنگلی جانوروں کی افزائش کیلئے موزون ہے وہ اپریل سے اکتوبر نومبر تک کا ہوتا ہے لیکن اس موسم میں ہیر پورہ جنگلی حیات پناہ گاہ میں سب سے زیادہ انسانی مداخلت ہوتی ہے، روزانہ کی بنیادہ پر سینکڑوں لوگ پیر کی گلی کا رخ کرتے ہیں،مغل روڑ سے روزانہ سینکڑوں گاڑیاں گذرتی ہیں،اور سینکڑوں کی تعداد میں بکروال اور خانہ بدوش اپنے مویشیوں کے ہمراہ یہاں ڈھیرہ ڈالتے ہیں جس سے اس جنگلی حیات کی پناہ گاہ کے وجود کیلئے خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔رینج آفیسر نے مزید کہا کہ جنگلی جانوروں ور نایاب پرندوں کا شکار کرنے کیلئے بھی غیر قانونی طور پر چوری چھپے لوگ آتے ہیں اور انہوں نے حال ہی میں دو شکاریوں کیخلاف کیس درج کرلیا ہے۔