کشمیری پنڈتوں کی نقل مکانی کے برسوں بعد بھی وادی میں ہیرتھ یعنی مہا شیو راتری کا تہوار روایتی عقیدت و احترام سے منایا جارہا ہے۔اس تہوار میں کشمیری رواج خوب ترانداز میںجھلکتااور اسکی عکاسی ہوتی ہے۔ملک کے مقابلے میں کشمیر میں اس تہوارکی روایت اور طریقہ کار مختلف ہے۔کشمیر میںہیرتھ یا مہاشیوراتری کیلئے مندروںکے بجائے گھروںمیں پوجاپاٹھ کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ کشمیر میں اس تہوار کی مناسبت سے کشمیری پنڈت برادری خصوصی ’وٹک پوجا ‘ کرتے ہیں اور اس میں دیگر چیزوں کے علاوہ اخروٹ بھی رکھے جاتے ہیں۔ وٹک پوجا میںمخصوص دکانوں پر دستیاب خصوصی مسالحہ جات کا استعمال بھی عمل لایا جاتا ہے۔ اخروٹوں کو کئی دن قبل ہی پانی میں رکھ کر ترکیا جاتا ہے اور بعد میں یہ’ پرشاد ‘کے طور پربانٹے جاتے ہیں۔مہا شیو راتری،بھگوان شیو اور پاروتی کی شادی کا دن ہے، جسے کشمیری پنڈت بڑی دھوم دھام سے مناتے ہیں۔ تہوار کی مناسبت سے خصوصی پکوان تیارکئے جاتے ہیں۔مہاشیوراتری یعنی ’ہیرتھ‘ کے موقعہ پر وادی میں مقیم کشمیری پنڈتوں نے’ وٹک پوجا‘ کی جبکہ غیر کشمیری ہندئوں نے مندروں میں جاکربھگوان شیو کی پوجا کی۔مہا شیوراتری کے دوسرا دن یعنی آج’سلام‘ کے طور پرمنایا جاتا ہے۔اس روز کشمیری پنڈتوں کے ہاں مسلمان جاتے ہیں اور ’ ہیرتھ‘ پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔اس موقعہ پر انہیں’ پرشاد‘ کے علاوہ دیگر پکائے گئے پکوان بھی کھلائے جاتے ہیں۔
گوکہ ایک زمانے میں اس تہوار کے موقعہ پر کشمیر میں چہل پہل ہوا کرتی تھی اور کشمیری مسلمان اور پنڈت مل کر یہ تہوار مناتے تھے تاہم 90کی دہائی کے اوائل میں ہمارا بھائی چارہ پار پار کیاگیا اور ہمارے پنڈت بھائیوں کو اپنے گلستان پیچھے چھوڑ کر جموں کے تپتے صحرائوں کو اپنا مسکن بنا نا پڑا۔پھر پنڈت برادری کے ساتھ کیا ہوا،وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے تاہم اطمینان اس بات کا ہے کہ لاکھ اشتعال انگیزیوںکے باوجود کشمیری مسلمانوں اور پنڈتوں کا آپسی بھائی چارہ ختم نہ ہوسکا اور آج بھی کشمیری پنڈت اور مسلمان ایک دوسرے کو اپنا ہم سایہ اور بھائی مانتے ہیں۔دراصل یہ کشمیر کی مٹی میں ہی کچھ خاصیت ہے کہ یہاں رام اور رحیم کے نام پر نہ خون کبھی بہا اور نہ لوگوںکے گھر لٹے بلکہ رام اور رحیم کے ماننے والوں نے ہمیشہ کشمیریت کی علم کو بلند رکھا اور انتہائی مخدوش حالات میں بھی ایک دوسرے کا سہارا بنے ۔
اس بات سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ 90کا دور کشمیر کی آپسی بھائی چارہ کی تاریخ میں ایک بدنما داغ ہے تاہم دونوں برادریاں وہ دور پیچھے چھوڑ چکی ہیں اور اس کو ایک ڈرائونا خواب سمجھ کر فراموش کرچکی ہیں ۔آج جس طرح کشمیر کا پنڈت جموں اور ملک کے دیگر حصوں سے اپنے گھروں کو واپس لوٹنا چاہتا ہے،اسی طر ح کشمیری مسلمان اپنے ہمسایہ پنڈت بھائی کے استقبال کیلئے بے قرار ہیں اوریوں دونوں پھر وہی یگانگی قائم کرنا چاہتے ہیں جس کیلئے کشمیر جانا جاتا تھا۔
ہولی ہو یا دیوالی ،عید ہو یا میلاد ،کشمیری پنڈت اور مسلمان مل جل کر یہ سبھی تہوار مناتے تھے اور کبھی بھی یہ نہیں لگتا تھا کہ یہ دو قومیتیں آباد ہیں بلکہ ایسا لگ رہا تھا کہ یہ ایک ہی قوم ہے ۔کشمیر کا یہی خاصا تھا اور شاید اسی وجہ سے کشمیر اپنا نام رکھتا تھا لیکن پھر حالات ایسے بنے کہ رشتوں میں کڑواہٹ پیدا ہوگئی اور دونوں برادریوں کے لوگ ایک دوسرے سے دور ہوگئے تاہم وقت نے ثابت کردیا کہ وہ دلوں کی دوری نہیں تھی بلکہ یہ جسمانی دوری تھی جس سے فاصلے تو بڑھ گئے ہیں لیکن دلوں کا ملن ختم نہ ہوسکا ۔آج جس طرح معراج العالم اور ہیرتھ یہاں ایک ساتھ منائی گئی ،وہ بیتے کشمیر کی یاد دلاتا ہے اور گزشتہ شب جس طرح مساجد و خانقاہوں سے ذکر واذکاراورقر آن و نعت خوانی کی صدائیں بلند ہورہی تھیں ،ٹھیک اسی طرح یہاں مقیم پنڈتوں کے گھروں میں جشن تھا اور پوجا پاٹ کی خصوصی محافل آراستہ کی گئی تھیں۔یہ اتفا ق ہی تھا کہ دونوں برادریوںکے تہوار ایک ہی دن تھے لیکن شاید اوپر والا اس کے ذریعے یہ پیغام بھی دینا چاہتا تھا کہ بھلے ہی دنیا کے لوگ ان دو برادریوں کو جدا کرنے کی لاکھ کوششیں کریں ،لیکن یہ دو ایک ہیں اور ایک ہی رہیں گے۔بدلتے ماحول میں اب یہ امید بھی پیدا ہوگئی ہے کہ کشمیری پنڈت اور مسلمان ایک بار پھر مل جل کر اس گلستا ن کو آباد کریںگے کیونکہ حالات بتدریج بہتری کی گامزن ہیں اور جوں جوں امن کی خوشبو سے وادی کی ہوائیں معطر ہوتی رہیں گی ،توں توں کشمیر سے باہر مکین ہمارے پنڈت بھائیوں کیلئے وادی واپسی کی راہ ہموار ہوتی چلی جائے گی اور پھر ایک وقت یقینا ایسا بھی آئے گا جب ماضی کی شان رفتہ بحال بحال ہوجائے گی اور کشمیری پنڈت اور مسلمان گلشن ِ کشمیر کو پھر ایک بار رنگ برنگے پھولوں سے سجا ئیں گے۔