ڈگری اور مہارت بنیادی طور پر ایک جیسی چیزیں ہیں۔ ایک شخص کے پاس ڈگری اور کچھ حاصل کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ ٹیلنٹ کے بغیر ڈگری اتنی ہی بے معنی ہے جتنی ڈگری کے بغیر ہنر۔ ڈگری صرف ایک فرد کی مہارت کی تصدیق شدہ تصدیق ہے۔ ہر قابلیت والا شخص ڈگری حاصل نہیں کر سکتا۔اسی طرح، ضروری نہیں کہ ہر یونیورسٹی کا گریجویٹ ہنر مند ہو۔ ہمارے ایجوکیشن سسٹم کے تحت اس جدید دور میں بھی ہنر پر مبنی ایجوکیشن پر اس قدر زیادہ زور نہیں دیا جا رہا ہے جس سے بے روز گاری کو قابو پانے اور اقتصادی حالت کو بہتر بنایا جاسکے ۔طلباء کو ہنر پر مبنی تعلیم میں پروان چڑھایا جاتا ہے تاکہ وہ منتخب شعبے میں عظیم انسان بن سکیں۔ اس عمل کی حمایت کرنے کے لئے طلبہ کو علمی ماہرین سے بالاتر ہو کر سوچنا چاہیے اور حقیقی دنیا کی مہارتیں حاصل کرنا چاہیے۔ بدقسمتی سے ہنر مندی پر مبنی نظام تعلیم جسمانی تجربات روایتی تعلیم میں اس قدر توجہ نہیں حاصل کرسکا ۔ہنر مندی کی ترقی، صنعتی شعبے میں خاطر خواہ حصہ ڈالتی ہے، صنعت کے پہیے کو چلانے اور کثیر جہتی سرگرمیاں انجام دینے کے لئے تربیت یافتہ افرادی قوت کی دستیابی پر پوری طرح منحصر ہے۔ اسکل ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کا مقصد صنعت اور معاشرے کی خدمت کے لئے ان تربیت یافتہ تکنیکی طور پر اہل افرادکو دستیاب کرنا ہے۔ اس طرح تکنیکی تعلیم کے نظام کوتیز رفتار تبدیلی کے مطابق ڈھالنے کیلئے کافی لچکدار بنایا گیا ہے۔ جموں وکشمیرمیں ہنر کی ترقی کا محکمہ تکنیکی تعلیم کے شعبے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ڈائریکٹوریٹ آف اسکل ڈیولپمنٹ یوٹی اور قومی پالیسیوں کے مطابق جموں وکشمیر میں ہنر کی ترقی کی منصوبہ بندی کو یقینی بناتا ہے لیکن ہمارے ایجوکیشن نظام میں اس قدر ترقی ہی نہیں ہو سکی جس کے تحت بچے ہنر (سکل ایجوکیشن)کے ذریعہ اپنا روز گار تیار کرسکیں ۔جموں وکشمیر میں زرعی یونیورسٹیوں کیساتھ ساتھ آئی ٹی آئی کالجز کی مدد سے کچھ ہی طلباء کو سالانہ تربیت دی جاتی ہے تاہم ابھی بھی اس سمت بہت کچھ کرنا باقی ہے ۔ہنر کی ہی وجہ سے طلباء کو تعلیمی اور جدید دنیا میں سبقت حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے۔ ذہنی عمل کو بہتر بنانے کے لئے عمل کے ذریعے سیکھنا بھی اس نظام کا ایک جزو ہے ۔سیکھنے، لاگو کرنے، اور سیکھنے کے نظام کو سمجھنے اور تجربے کے ذریعے حاصل کردہ صلاحیتوں کو فروغ دینے کا ایک نفیس طریقہ ہے۔ حکمت عملی طلباء کی حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ وہ سوچیں، جانچیں اور جو کچھ انہوں نے سیکھا ہے اسے لاگو کریں لیکن روایتی تعلیمی نظام نے شاگردوں کو یہ سکھایا ہے کہ وہ گریڈز اور ٹیسٹ کے اسکور کے حوالے سے خود کو جانچیں تاہم، امتحانی نتائج سے ہٹ کر، کم عمری میں زندگی کی مہارت پر مبنی تعلیم فراہم کرنے سے طالب علموں کو حقیقی دنیا کی تیاری میں مدد ملتی ہے۔ہنر پر مبنی تعلیم کی ہی مدد سے بچے اپنی صلاحیتوں اور حدود کے بارے میں نسبتاً ابتدائی زندگی میں سیکھیں گے ، صرف ٹیسٹ پاس کرنے اور کم مدت میں بہترین گریڈ حاصل کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے وہ ایک خاص مقصد کو ذہن میں رکھ کر سیکھیں گے۔جموں وکشمیر کی حکومت کو چاہئے کہ وہ جدید دور کے تحت جہاں قائم کردہ آئی ٹی آئی کالجز میں نئے کورس متعارف کروائے تاکہ بچوں کے پاس شعبوں کا تعین کرنے کی لچک ہو وہائیں یوٹی کی تمام تحصیلوں میں بھی تکنیکی تعلیم کیلئے آئی ٹی آئی کالجز کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں بچے ہنر مندی پر مبنی تعلیم حاصل کر سکیں ۔اس وقت جموں و کشمیر میں 60آئی ٹی آئی کالج ہیں جن میں سے 54سرکاری اور 6نجی کالجز قائم ہیں ۔اسی طرح 32پولی ٹیکنک کالج ہیں جن میں سے 24سرکاری اور 8نجی کالج ہیں۔آئی ٹی آئی کالجوں میں سالانہ 15763 بچوں کو تربیت فراہم کرنے کی گنجائش ہے جو کہ 6ماہ ،ایک سال اور دو سالہ کورسز کر سکتے ہیں ۔پولی ٹیکنک کالجوں میں سالانہ 5655 بچے 16کورسوں میں اپنی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں لیکن ہنر مندوںکی بڑھتی ہوئی ضرورت اور بڑھتی ہوئی بے روز گاری کو کم کرنے کیلئے تحصیل سطح پر آئی ٹی آئی کالج قائم کرنے کیساتھ ساتھ ضرورت کے مطابق روز گار کیلئے نئے کورسز کو متعارف کروانا وقت کی ایک اہم ضرورت ہے ۔