نئی دلی//وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے وزیر اعظم نریندر مودی سے اپیل کی ہے کہ وہ پاکستان کیساتھ جتنا جلد ممکن ہوسکے، مذاکراتی عمل دوبارہ شروع کریں کیونکہ امن کی کلید ہمسائیہ ملک کے پاس ہے۔یہاں کشمیری پنڈتوں کے ایک مجمعے سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کشمیری پنڈت طبقے کے ارکان سے اپیل کی کہ وہ اپنے گھروں کو لوٹ آئیں اور وہ اس اپیل کو اپنے مادر وطن کی پکار سمجھ لیں۔انہوں نے کہا ’’ افہام و تفہیم ہی ایک منتر ہے جس پر ہمیں چلنا ہوگا، میں نریندر مودی سے اپیل کرتی ہوں کہ پاکستان کیساتھ بات چیت شروع کریں‘‘۔انکا کہنا تھا’’ ضررورت اس امر کی ہے کہ ہمسائیہ ملک سے اس بات کی ضمانت لی جائے کہ وہ اپنی سر زمین بھارت کیخلاف استعمال نہ کرے،ہم سبھی جانتے ہیں کہ امن کی کنجی پاکستان میں ہے، وہ دہشت گردوں کو یہاں بھیج رہا ہے‘‘۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اس بات کی کوشش ہونی چاہیے کہ وادی میں’ آزادی‘ کے نعرے کو تبدیل کیا جائے، یہ تب ممکن ہوسکتا ہے ، کیوں جموں و کشمیر وسطی ایشیائی ممالک کیلئے گیٹ وے نہیں بن سکتا،اگر سی پیک ممکن ہے تو یہ کیوں نہیں،اگر نئے راستے کھولیں جائیں تو آزادی کا نعرہ خوب بخود تبدیل ہوگا‘‘۔انہوں نے کہا کہ افہام و تفہیم کا طرز عمل تمام سطحوں پر شروع کیا جائے تاکہ مسائل کو حل کیا جاسکے ۔انہوںنے کہاکہ منافرت سے کہیں بھی نہیں پہنچا جاسکتا ہے ۔انہوںنے کہا کہ جنگ ، جیسے ماضی میں ثابت ہو اہے کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے اور جنگوں سے صرف تباہی اور بربادی دیکھنے کو ملتی ہے ۔محبوبہ مفتی نے کہا’’ بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ نہیں ہوگی‘‘۔انکا کہنا تھا ’’ اگر جنگ ہونی ہی تھی تو 2011میں ہوئی ہوتی جب دونوں ملکوں کی افواج ایک برس تک ایک دوسرے سے آنکھ میں آنکھ ڈالے تھے‘‘۔انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ پر حملہ ہونے کے بعد ایک برس تک فوج سرحدوں پر تعینات رہی، لیکن جنگ نہیں ہوئی اور نہ کبھی ہوگی کیونکہ دونوں ملکوں کو احساس ہے کہ جنگ سے دونوں کی تباہی ہوگی۔پہلی مرتبہ ہے کہ جب تین دہائی پہلے ہوئی ہجرت کے بعد وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی رابطہ مہم کے تحت کشمیری پنڈت مائیگرنٹوں تک پہنچیں اور ان کے مسائل کے بارے میں جانکاری حاصل کی۔ محبوبہ مفتی نے وہاں موجود لوگوں کو یاد لایا کہ کس طرح افہام وتفہیم کے عمل کی بدولت ریاست میں اس وقت ایک مثبت تبدیلی دیکھنے کو ملی جب ان کی پارٹی نے سال 2002ء میں اقتدار سنبھالا۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ راستوں کو کھولا گیا ، مذاکرات شروع کئے گئے اور یہاں تک کہ کئی مائیگرنٹ پنڈت واپس بھی آگئے کیونکہ ان امن کوششوں کی بدولت ریاست میں تشدد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ۔محبوبہ مفتی نے کہا کہ افہام و تفہیم کی پالیسی جو اُس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے اختیار کی تھی کو زندہ رکھنے کے ساتھ ساتھ اسے آگے بڑھانے کی بھی ضرورت ہے ۔انہوںنے کہاکہ افہام و تفہیم نہ کہ منافرت آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے ۔انہوںنے کہا کہ ایک خیال کو بہتر خیال میں بدلاجانا چاہیے ۔انہوںنے کہا کہ شاردا پیٹ ،جو زمانہ قدیم میںحصول علم کا ایک گہوارہ تھا، کو لوگوں کی سہولیت کے لئے کیوں نہیں کھولا جاسکتا ۔ انہوںنے کہا کہ ہمارا ملک جغرافیائی بالا تری کو بروئے کا ر لا کر خطے میں جاری تمام اقتصادی سرگرمیوں سے استفادہ کیوں نہیں کرسکتا اور یہ امن ، ترقی اور مساوات کے نئے راستے پر گامزن کیوں نہیں ہوسکتا ۔وزیراعلیٰ نے اپنے خطاب میں مزید کہاکہ منافرت سے صرف زخم بڑھتے ہیں جبکہ پر امن مذاکرات کی بدولت زخموں پر مرہم کرنے میں مدد ملتی ہے ۔وزیر اعلیٰ نے کہاکہ کشمیر کشمیری پنڈتوں کے بغیر نامکمل ہے اور کشمیری پنڈت کشمیرکے بغیر ادھورے ہیں ۔موج کشیر کی پکار ہے جو آپ سے واپس آنے کے لئے کہہ رہی ہے اور آپ کی مائیگریشن کی وجہ سے سماجی تانے بانے میں پیداشدہ خلل کو دور کرنے میں آپ کی مدد طلب کررہی ہے ۔ انہوں نے وہاں موجود لوگوں سے وطن واپسی کی جذباتی اپیل بھی کی۔وزیر اعلیٰ نے پنڈتوں سے کہا کہ وہ واپسی کے لئے موزون حالات کا انتظار نہ کریں اور کہا کہ یہ حالات ہمیں مل جل کر قائم کرنے ہیں ۔انہوںنے کہاکہ مسلمان برداری کشمیر میں ایک صورتحال کا مقابلہ کر رہی ہے ۔قانون ساز اسمبلی کے سابق ڈپٹی سپیکر اور پی ڈی پی کے نائب صدر محمد سرتاج مدنی نے بھی وہاں موجود لوگوں سے خطاب کیا۔