ریشی ناری میں کیبل کار پروجیکٹ کے بجائے36کلو میٹر روڈ کی تعمیر کی گئی!
اشفاق سعید
سرینگر // ہندوارہ سے بنگس تک 36کلو میٹر پختہ روڑ کی تعمیر میں تعمیراتی ایجنسی آر اینڈ بی نے محکمہ جنگلات اور ماحولیات کی طرف سے اجازت نامہ منسوخ کرنے کے باوجود بھی 5سال تک کام جاری رکھا اور اس دوران فاریسٹ کنزرویشن ایکٹ کی خلاف ورزی کیساتھ ساتھ محکمہ پولیوشن بورڈ سے بھی کوئی اجازت نہیں لی گئی ہے۔قانونی نکتہ نگاہ سے اس روڑ کی تعمیر غیر قانونی ہے جس کی اجازت حاصل کرنے کیلئے کسی بھی قانونی ضابطے کی پاسداری نہیں کی گئی، نتیجے کے طور پر محکمہ جنگلات نے آر اینڈ بی ڈویژن کیخلاف 2ایف آئی آر درج کئے اور اس کیس کے ضمن میں نیشنل گرین ٹریبونل میں بھی کچھ ایسی دستاویزات داخل کیں جن سے اس بات کی واضح نشاندہی ہوتی ہے کہ گھنے جنگلات کا دل چیر کر جس روڑ کو بنانے کی خاطر سر سبز درختوں کو بے دردی کیساتھ کاٹا گیا، اسکی کوئی ضرورت نہیں تھی کیونکہ پہلے ہی ہندوارہ سے بنگس تک سڑک بنی ہے ،جو بستیوں سے گذرتی ہے اور بنگس تک اسکی لمبائی محض 30کلو میٹر ہے۔پرانا روڑ ریشی ناری نامی ایک جگہ تک جاتا ہے جہاں سے بنگس وادی تک تقریباً5کلو میٹر کیلئے کیبل کار پروجیکٹ بنانے کی ایک تجویز حکومت کے زیر غور تھی، جس کے لئے ابتدائی سروے بھی کی جاچکی تھی لیکن گلمرگ کی طرز پرکیبل کار بنانے کے بجائے ہندوارہ بائی پاس سے بنگس تک ایک نیا روڑ نکالا گیا جس کا فاصلہ سرکاری دستاویزات میں 36کلو میٹر ہے اور اس میں سے 28کلو میٹر گھنے جنگلات کو کاٹ کر بنایا جارہا ہے۔
پس منظر
25جولائی 2017کو محکمہ آر اینڈ بی ہندوارہ کی جانب سے مشترکہ سائٹ انسپکشن کے بارے میں یہ وضاحت کی گئی کہ روڑ کی تعمیر کے بارے میںجموں کشمیر فاریسٹ کنزرویشن ایکٹ کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی گئی ہے لیکن روڑ بنگس تک جنگلاتی اراضی سے نکلتا ہے اور اسکے لئے14ہیکٹر اراضی درکار ہے۔یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اس روڑ کی غیر قانونی تعمیر 2017میں شروع کی گئی جبکہ کمشنر سیکریٹری جنگلات و ماحولیات کی جانب سے 24ستمبر 2021کو سرکاری طور پر سڑک تعمیر کرنے کی اجازت دی گئی۔ اُس وقت حکومت نے تعمیراتی ایجنسی کو جنگلاتی اراضی کے بیچوں بیچ سڑک تعمیر کرنے کی سخت شرائط کیساتھ مشروط اجازت دی۔محکمہ آر اینڈ بی کی طرف سے روڑ کیلئے کرائی گئی سروے کی بنیاد پر حکومت نے یہ شرائط رکھیںکہ نیا روڑ کمپارٹمنٹ نمبر 2،3a،3b،4، 5،6،10،11،12،13، 14،15، 16، 24، 25، اور26 کے گھنے جنگل سے گذرے گا، جس کے تحت ایک ہزار سے زائد درخت کاٹے جائیں گے۔شرائط میں کہا گیا ہے کہ اسکے عوض ایک کروڑ،31لاکھ اور 46ہزار روپے معاوضہ بھرنا پڑے گا نیز جنگلاتی اراضی کے 28000میٹر کے عوض جنگلاتی اراضی کا دوگنا ایک لاکھ فی ہیکٹر کے حساب سے مزید 28لاکھ،درختوں کا معاوضہ 53ہزار 67ہزار 360کے علاوہ سڑک کے چاروں طرف درخت لگانے کیلئے 1کروڑ 68لاکھ دینا پڑے گا۔ محکمہ نے کل ملا کر تعمیراتی ایجنسی کو3کروڑ،81لاکھ،13لاکھ اور 360روپے جمع کرنے کیلئے کہا اور ساتھ ہی ایجنسی کو کام شروع کرنے سے ایک سال کے اندر تخمینہ شدہ رقوم جمع کرنے کی مہلت دیکر رکھی۔شرائط میں واضح طور پر بتایا گیا کہ اس کے علاوہ اور کوئی جنگلاتی اراضی استعمال میں نہیں لائی جائے گی جس کیلئے جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے۔حکومتی شرائط میں کہا گیا ہے کہ جنگلاتی اراضی کو محفوظ بنانے کیلئے جہاں زمین دھنسنے کا خطرہ ہو، بنڈ تعمیر کئے جائیں۔تعمیراتی ایجنسی کو اس بات کا بھی پابند بنایا گیا کہ کام شروع کرنے سے قبل وہ کسی بھی متعلقہ ادارے سے ضروری اجازت نامہ حاصل کرے۔حکومت نے تعمیراتی ایجنسی کو اجازت دینے سے قبل یہ بات تحریری طور پر آگاہ کی تھی کہ اجازت نامہ اس وقت تک قابل اطلاق رہے گا،جب تک تعمیراتی ایجنسی سبھی رقومات ایک سال کے اندر جمع کرے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں یہ اجازت نامہ خود بہ خود ختم تصور کیا جائیگا۔
رقم جمع نہیں کی گئی
حکومت کی جانب سے تعمیراتی ایجنسی کو جو اجازت نامہ دیا گیا ہے ، قانونی لحاظ سے وہ 5سال پہلے منسوخ ہوگیا ہے ، کیونکہ اگست 2025تک محکمہ آر اینڈ بی نے رقم جمع نہیں کرائی تھی۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اگر رقم جمع نہیں کرائی گئی ہے، تو محکمہ کو سڑک کی تعمیر کرنے کی اجازت کیوں دی گئی، سڑک کی سروے رپورٹ کہاں ہے، جس کو بنیاد بنایا گیا اور محکمہ جنگلات کی NOCکہاں ہے۔حالانکہ نئے روڑ کی تعمیر میں بڑے پیمانے پر جنگلات کی بے دریغ کٹائی کی گئی اورپہاڑی ڈھلوانوں کو کاٹا گیا ، اور علاقے کے ماحولیاتی توازن کو تباہ کیا گیا۔ اس نئے روڑ کا کام دو مرحلوں میںطے کیا گیا۔پہلے مرحلے کا تخمینہ 1600کروڑ لگایا گیا جس میں درختوں کی کٹائی اور انکا معاوضہ،زمین کی کٹائی،بنڈوں کی تعمیر اور دوسرے مرحلے کا تخمینہ 2700کروڑ لگایا گیا جس میں روڑ کو پختہ بنانے کیلئے اس پر بجری اور بعد میں میکڈم بچھانا شامل ہے۔پہلے مرحلے کے تعمیراتی کام کو 2020میں محکمہ جنگلات نے منسوخ کیا، کیونکہ محکمہ تعمیرات نے درختوں کا معاوضہ کام شروع کرنے کے ایک سال کے اندر ادا نہیں کیا اورقدرتی طور پر اجازت نامہ منسوخ ہوا۔لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ پہلے مرحلے کیلئے اجازت نامہ منسوخ ہونے کے باوجود محکمہ نے سال 2022,23,24اور سال 2025میں بھی فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ سے معقول اجازت لئے بغیر کام جاری رکھا ہوا ہے۔
جنگلات(کنزرویشن)ایکٹ، 1980
فاریسٹ(کنزرویشن)ایکٹ وہ قانون سازی ہے جو غیر جنگلاتی مقاصد، جیسے ترقیاتی منصوبوں کے لیے جنگل کی اراضی کو استعمال کرنے کی مماعت کرتا ہے۔اس کا بنیادی مقصد جنگلات اور ان کی حیاتیاتی تنوع کو محفوظ کرنا ہے جس میں جنگل کی زمین کو غیر محفوظ کرنے یا غیر جنگلاتی منصوبوں کے لیے اس کے استعمال کے لیے مرکزی حکومت کی منظوری کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایکٹ نے جنگلات کے تحفظ اور معاشی ترقی کے درمیان توازن کو یقینی بنانے کے لیے قوانین اور رہنما خطوط، فاریسٹ ایڈوائزری کمیٹی (FAC) اور خلاف ورزی پر جرمانے بھی قائم کیے ہیں۔اس قانون میں 2023میں تازہ ترامیم کی گئیں، جن کے تحت فاریسٹ اراضی کو زیر زمین قدرتی گیس نکالنے کیلئے استعمال میں لایا جاسکتا ہے لیکن اسکے لئے پہلے فاریسٹ ایڈوائزری کمیٹی اور بعد میں مرکزی حکومت سے اجازت لینا لازمی مانا گیا ہے۔