Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: June 12, 2017 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
15 Min Read
SHARE
ہم کچھ نہیں کہہ سکتے حالانکہ ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں ۔بلکہ ہاتھ میں قلم بھی دبائے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ قلم دوات پر جملہ حقوق کسی اور نے چرائے ہیں اور وہ اسی کے دم پر ہماری ہی چھاتی پر مونگ دلتے ہیں  اور اگر ہم آہ کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام ۔ وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا ۔ اسلئے  سپہ سالار نے  فرمان جاری کیا ہے کہ کاٹتے چلو مارتے چلو، راو ت پیچھے ہے رام بھلی کرے گا۔چرچا ہو بھی جائے تو بس اخباری سرخی ایک دو دن اسے سجاتی ہے ،رجھاتی ہے، اور پھر بھلاتی ہے ۔یقین نہ آئے تو وہ ساری سرخیاں یاد کرو جن کو بھلانے کے لئے تحقیقاتی اعلانات کئے گئے اور ملک کشمیر میں اتنے Probes کا اعلان کیا گیا کہ کبھی کبھی ہم مغالطے میں آتے ہیں کہ ہم ملک کشمیر کے باشندے ہیں یا پروبستان کے۔ کول کمیشن بھی سجایا گیا، سنوارا گیا اوراب اسکی سفارشات منظر عام پر نہیں لانے دیتے۔اور ہم ہیں کہ نعرہ مستانہ لگا کر اپنا من موجی بناتے ہیں لیکن کیا کریں ادھر سے ٹو جی، تھری جی، فور جی بلکہ پارلے جی پر بھی پابندی لگ جاتی ہے۔یوں زبان بند، سوچوں پر قفل،حرکات و سکنات پر قدغن کہ سلطا نی ٔ مودی کا آیا ہے زمانہ۔
جانے کہاں گئے وہ دن جب ہل والے کشمیری نعرہ لگاتے تھے جنتا ونتا نہیں چلے گا ساڑا شیرا عبداللہ۔اور جنتا والے انگشت بدندان تھے کہ کیسے اس نعرے کو پلٹ دیں اور اس نعرہ مستانہ کو نعرہ بیگانہ میں تبدیل کردیں۔انہیں بعد میں پتہ چلا ہوگا کہ اس کے لئے مودی مہاراج کا ہون کریں گے ہون کریں گے گانا ہوگا اور مرد مومن کا فتویٰ بھی ضروری ہے۔ اب تو جنتا والے نہیں رہے بلکہ قلم دوات والوں کے کندھے پر بندوق رکھ کر بھارتیہ جنتا والے حکومت کر رہے ہیں یا یوں کہیے کہ دوسروں کے کندھوں پر بندوق رکھ کر گولی چلا رہے ہیں۔اسی لئے بمنہ کیا، ترال کیا شوپیان کیا ، گولیاں چلا کر آدھ درجن لوگوں کو ڈھیر کیا گیا تو آواز اٹھی کہ زیادہ فوج ہونے کے سبب یہ واقعات پیش آرہے ہیں لیکن اپنے بھارتی جنتا والوں نے آواز لگائی کہ مزید فوج بھیجو۔لوگ جب چاول مانگیں تو مزید فوج بھیجو، وہ جب صاف پانی کی لئے التجا کریں تو مزید فوج بھیجو، وہ جب ٹرانسفارمر مانگیں تو مزید فوج بھیجو، مطلب زندہ رہنا چاہیں تو مزید فوج بھیجو ، مرنا چاہیں تو مزید فوج بھیجو۔یہاں تو اینٹ کا جواب پتھر سے سنا تھا لیکن پتھر کا جواب گولی سے۔۔۔توبہ توبہ وہ تو یہیں پر دیکھا سنا۔اور جب ہر حال میں جواب گولی ہی ہے تو مزید فوج کیوں نہ ہو۔خیر یہ تو عام لوگوں کی بات ہے لگتا ہے اپنے حکمران بھی اسی مخمصے میں ہیں کہ اگر ہم نے فوج بھیجنے کی مخالفت کی تو کیا پتا کرسی ہی ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ مرد مومن کے نام پر رسدگاہ بنا کر آدھی روٹی کھائیں گے سر نہیں جھکائیں گے والی اسکیم کو پاسوان نے رد کردیا کہ جب ملک کشمیر میں کوئی نام لینے کو تیار نہیں ہم روپے پیسہ دے کر کیوں نادار بن بیٹھیں۔ ایسے میںمریدان ِکرسی کوئی جوکھم نہیں اٹھانا چاہتے ۔سب کچھ تو قربان کیا جا سکتا ہے لیکن اقتدار نہیں کہ یہ ہمیشہ ملنے والی شئے نہیں۔قسمت والوں کو ملتی ہے اور شاذو نادر ہی ملتی ہے۔کبھی ہل والوں کے پاس تھی اور وہ ساڑا شیرا عبداللہ کے گیت گاتے تھے۔کبھی قلم دوات والوں کے پاس کہ وہ ییلہ آئو مفتی والا گیت سناتے تھے ،پھر کانگریسیوں کو ملی لیکن وہ بھی اب ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ایسے میں عوامی اتحاد کاکرتا دھرتا دوکشتیوں میں سواہوکر عوام کا ہم پیالہ ہم نوالہ بننے کی کوشش میں بے سوداچھل کود کر رہا ہے۔ مقامی پرچم کا دن مناتا ہے ،سرکار کو کوستا ہے ،برا بھلا کہتا ہے،فوج کو ہٹانے کا نعرہ دے رہا ہے لیکن مودی سرکار کا ایک ہی نعرہ ببانگ دہل لگایا جاتا ہے کہ کچھ بھی کرو فوجی ساڑا شیرا  ہے۔ بلکہ  ملک کشمیر میں اہل کشمیر کٹتے ہیں، مرتے ہیں، بانٹ سے بندھتے ہیں لیکن سیاسی کھلنڈرے مودی ،راجناتھ، جیٹلی ،جیتندرا جلوس کی شکل میں نعرہ بازی میں مصروف ہیں کہ فوجی بھائی آگے بڑھو ہم تمہارے ساتھ ہیں۔اور ایسے میں بانوئے کشمیر میڈم مفتی ٹوکری میں پھول پتیاں، شیرینی، چلغوزے، بادام  وغیرہ لے کر نچھاور کرتی ہیں کہ افسپا تب تک نہیں ہٹ سکتا کیونکہ جنگ جو جاری ہے۔اسے تو فوجی بھائی والا نعرہ یاد آتا ہے تاکہ مودی مہاراج کی ٹولی میں شامل رہ کر ڈفلی بجانے کا موقعہ میسر رہے نہیں تو ۔۔۔۔چلو جی ہم نہیں کہتے خود بھی تو سمجھا کرو یار۔  
ایسے میں جب ہم کہتے ہیں کہ ہماری زبان تو ہے لیکن مقفل ہے تو الزام بے وفائی کے تحت دیش دروہی بھی کہتے ہیں، اینٹی نیشنل بھی پکارتے ہیں کہ ہم دنیا کی بڑی جمہوریت کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ آپ تو مذاق اڑانے پر غصہ کرتے ہیں ہمارے تو سالہا سال سے پرخچے اڑائے جا رہے ہیں اور وہ بھی جمہوریت کے نام پر ، نیشنلزم کے نام پر اور کرسی کی حفاظت کی آڑ میں۔ ہم تو پا بجولاں ہیں ،اس لئے کہیں جا کر شور بھی نہیں مچا سکتے ہیں ۔ ویسے شور مچا کر کریں بھی کیا لیکن اپنے ایک بنگالی بابو کا، تاریخ دان کا تو خون کھول ہی گیا کہ بر سر عام سالار ہندوستان کو جنرل ڈائر سے موازنہ کردیا۔جنرل ڈائر جس نے فائر کا آڈر دیا اور جلیاں والا باغ ہو گیا ۔سات سو مرے ،دیواروں پر گولیوں کے نشان ثبت ہوئے لیکن اپنے ملک کشمیر میں ستر ہزار بھی مارے جائیں ان کی بلا سے۔گولیوں کے نشان دیواروں پر بھلے نہ ہوں لیکن جگر زخمی ہوگئے، دلوں کے آر پار سوراخ ہو گئے، آنکھوں پر ، چہروں پر ، جسم کے ہر حصے پر نشان ثبت ہو گئے لیکن ہم تو بے زبان ہیں جہاں ہانکا گیا وہاں چل دئے۔کسی نے بندوق کی نوک پر ، کسی نے سیاست کے شوق پر ، اوروں نے حق سرداری کے جوک پر، کسی نے تعمیر و ترقی کے چوک پر اور کسی نے عزت و آبرو کی کوکھ پر ۔۔۔اور ہم ہیں ناک کی سیدھ میں چلتے رہے بھلے ہماری ہی ناک کاٹی گئی،کان دبائے گئے، آنکھ میں شہتیر ڈلے اور ناک میں دھواں مرچی سب کچھ بدرجہ اتم بھردیا گیا۔
یہ تو یہ ہوا وہ ابھی باقی تھا اور اس کا حساب برقی صحافت کے مچھلی بازار میں ہواکہ باقی جسم کا پوسٹ مارٹم ہوگیا لیکن گال ابھی چھوٹے ہیں۔ان کا رنگ ابھی تجزیہ نہیں ہوا ۔اسی لئے بھارت ورش کے کونے کونے میں خبر گرم ہے بلکہ سوالات کا دم خم ہے کہ کشمیری گال گلابی یا شو خ رنگ کیسے ہیں ۔ہم نے تو سالہا سال اُن کا خون چوسا پھر بھلا گلوں میں رنگ بھرے کیسے اور کیوں ہیں۔ہم نے ان کی بجلی چرا کر ان کے گھرگھر ، گلی گلی شہر شہر اندھیرا کردیا لیکن گالوں کا رنگ نہیں چھین پائے   ؎
سات رنگوں کا خدا رنگوں سے مکمل آشنا 
سرخ روئی ہم کو دی رو سیاہ ان کو کیا
ہو نہ ہو مملکت خداداد میں کوئی سازش رچی ہے کیونکہ جب گجرات میں طاعون پھیلا تو سنا ہے کہ چوہے مملکت سے بر آمد ہو ئے تھے، شہر شہر بلکہ دلی کے دل میں جب ڈینگو پھیلا تو پتہ چلا مچھر وہیں سے اڑ کر آئے تھے، کبوتر بھی وہیں سے جاسوسی کر نے پر وارد ِ ہند ہوئے۔ابھی کیا پتہ وہ جو AK لے کر آتے ہیں انہیں ہدایت ہے گالوں کے لئے شوخ رنگ کی پڑیاں ساتھ لیکر ملک کشمیر میں گلی گلی بانٹ دو    ؎
بدل دی رخ کی زردی غازہ پنڈی کی سر خی نے
 قدیمی وضع کا پابند اب ہندوستان کیوں ہو
صحافت کے مچھلی بازار میں سوالات بہت ہیں۔چلو مانا کہ رخ جانان کے لئے پتنجلی نہیں پنڈی غازہ کام آیا لیکن چھ چھ مہینے ہڑتال کرفیو میں پابند سلاسل اہل کشمیر کھاتے کیا ہیں پہنتے کیا؟لاتے کہاں سے اور سلواتے کیسے ؟ ہمارے یہاں تو ننگی نہائے کیا اور نچوڑے کیا؟ہم تو وشال ہیں ،جنگی سامان خریدنے میں کمال ہے۔بھلے ہی ساڑھے تین کروڑ فٹ پاتھ کے باسی ہیں ۔ڈھائی کروڑ تو بھوکے پیٹ سونے کے عادی ہیں۔اور یہ اہل کشمیر ۔۔۔۔یہ تو ایک کروڑ آلسی ہیں،کام نہیں کرتے ، بس وشال دیس کے خزانے پر ان کی نظر ہے۔مطلب صاف ہے کہ غازئہ پنڈی کے ساتھ صبح صادق ،سرمئی شام میں ،دن کے اُجالے میں یا رات کے اندھیرے میں کوئی حافظ ٹانک یا اظہرچیون پراش بھی در آمدہوتا ہے کہ نوش کیا تو جوش میں رہہ گئے۔پھر پتھر کیا، نعرہ کیا ، اس قدر مارتے ہیں کہ سامنے والے کے ہوش اڑ جاتے ہیںاور وہ پھر اپنے کیمپ میں خود پر ہی وار کرتا ہے کہ للو یہ جینا بھی کوئی جینا ہے!
سوال پہ سوال ہے کہ دہقان کشمیر بھارت ورش کے کسانوں کی طرح خود کشی کیوں نہیں کرتے؟پوچھنے والا تو سابق فوجی ہے ، بھارت ورش کا کھوجی ہے۔اسے تو اس بات کی کھجلی ہے کہ ملک کشمیر اتنی دیر زندہ ہے تو کیسے اس کی جانچ ہونی چاہئے مگر اسے کیا پتہ سانچ کو آنچ نہیں۔اس کے سرشتے کے ہاتھوں لاکھ سے اوپر کشمیریوں مارے گئے ۔مطلب ابھی گولیوں سے پیلٹ سے جی نہیں بھرا ،اہل کشمیر تو ان کے ظلم سے نہیں ڈرا، اس لئے جسم و جان اور چاہئے ، کشمیری لہو اور چاہئے۔ بھلے وہ بہہ کر نکلے یا اندر ہی اندر جم کر پھوٹے ۔ ایک زمانہ تھا کہ اندرا تیرے سماج واد میں بچے بھوکے مرتے ہیں اندرا سرکار کے دوران من پسند نعرہ تھا ،لیکن جب عام اور غریب لوگ اپنی مانگ سامنے رکھ کر نعرہ لگاتے ہیں تو  نعروں کی مناسبت نہیں دیکھتے۔بجلی ٹرانسفارمر کی مانگ ہو تو ہم کیا چاہتے کے فلک شگاف نعرے لگاتے ہیں۔چاول کا کوٹا بڑھانے کی مانگ ہو تو نعرہ تکبیر اللہ اکبر چلّاتے ہیں یعنی بھوکے پیٹ کا جب سوال ہے تو  انہیں کسی فوجی افسر یا سیاست دان سے امید نہیں ہوتی بلکہ سیدھے اوپر والے کے دربار میں اپنی عرضی داخل کرتے ہیں کہ آخر سب کا داتا تو اوپر ہی بیٹھا ہے۔
اب کے میرا کعبۂ دل دشمنوں کی زد پہ ہے
پھر مدد کرنا ابا بیلوں کے لشکر بھیجنا
سیاست بھی عجب کھیل ہے کہ جمہوریت وہ طرز حکومت ہے جس میں گھوڑوں کی طر ح بکتے ہیں انسان وغیرہ ۔ بھلے گھوڑے بکے لیکن مودی راج میں گئو ماتا نہیں بکتی اور اگر بک گئی تو زعفرانی مشٹنڈے تاک میں ہیں کہ کس طرح خریدنے والے کی جان کھا جائیں۔مودی راج میں ایک یوگی راج بھی ہے کہ جس میں گئو شالہ کے سامنے نمن کرنا بڑا ضروری ہے۔بھلے گئو ماتا کا موتر(پیشاب) بدن پر چھینٹے مارے لیکن دلِت کو فرمان ہے ملنے سے پہلے نہائو۔روٹی نہ دیں گے لیکن صابن شیمپو لو ، یوگی مہاراج کا دورہے۔اور لوگ بھی کیا سولہ فٹ لمبی صابن کی ٹکیہ یوگی کو ارپن کرنے والے ہیں کہ ساڑھے پانچ فٹ تمہارا بدن ملنے کے کام آئے گا لیکن دل و دماغ میں میل بہت ہے اس کے لئے دوگنی تگنی صابن کی ضرورت ہے جبھی تو یہ خیال ناپاک دل سے نکلے گا کہ قبروں میں دفن خواتین کو نکال کر ان کی عصمت ریزی کرو۔اس کے لئے صابن تو کیا تیزاب بھی کم پڑے ۔
آج اس شہر پہ نازل ہے خدائوں کا عتاب
تو بھی اس شہر کا باسی ہے مرا ساتھ نہ چھوڑ
(رابط[email protected]/9419009169  )  
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

سری نگر کے نوجوان کی لاش تین روز بعد دریائے جہلم سے بازیاب
تازہ ترین
ضلع مجسٹریٹ کشتواڑ نے دو افراد کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں لیا
تازہ ترین
شوپیاں :دو انتہا پسند گرفتار، اسلحہ و گولہ بارود بر آمد
تازہ ترین
بھدرواہ میں تیسرا لیونڈر فیسٹیول یکم جون سے مرکزی وزیر ڈاکٹر جتیندر سنگھ افتتاح کریں گے
جموں

Related

کالممضامین

آن لائن سٹہ بازی اور فینٹسی گیمنگ! | نوجوان نسل میں بڑھتا ہوا نفسیاتی بحران فکر انگیز

May 28, 2025
کالممضامین

یاس و نااُمیدی کا آخری مرحلہ خود کشی ہے؟ | ذہنی بیماریاں بھی قتل ِ ذات کا سبب بنتی ہے لمحہ فکریہ

May 28, 2025
کالممضامین

! چھوٹے اور مڈل درجے کی صنعتیں | سب سے بڑا چیلنج بقاء اورتوسیع ہے تجارت

May 27, 2025
کالممضامین

دیہی زمین کی حدبندی میں ڈیجیٹل سحر | شفاف مستقبل کے لئےتجرباتی خاکہ معلومات

May 27, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?