معاشرت
فہیم الاسلام
انسانی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو انسان کو ہمیشہ سے ایک دوسرے کا ہمدرد، مددگار اور غم گسار پایا گیا ہے۔ قدرت نے ہمیں نہ صرف عقل دی بلکہ ایک ایسا دل بھی عطا کیا جو دوسروں کے درد کو محسوس کرے، جسے دوسروں کی تکلیف چین سے بیٹھنے نہ دے، جو آنکھوں میں آنسو اور سینے میں درد پیدا کرے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم آج بھی وہی انسان ہیں؟ کیا ہم واقعی احساس، شفقت اور رحم دلی جیسے اوصاف سے وابستہ ہیں؟ یا پھر ہم ایک ایسی دنیا میں داخل ہو چکے ہیں جہاں جذبات کی کوئی قیمت نہیں، درد کی کوئی گونج نہیں اور انسان صرف اپنی ذات کے گرد چکر کاٹتا ایک خود غرض دائرہ بن چکا ہے؟
موجودہ دور میں اگرچہ مادی ترقی، ٹیکنالوجی کی بلندی اور ظاہری خوشحالی اپنے عروج پر ہے، لیکن اس کے بالمقابل انسانی تعلقات، جذباتی حساسیت اور دوسروں کے لیے رحم دلی شدید زوال کا شکار ہے۔ ہم خود کو ترقی یافتہ کہتے ہیں، لیکن ہماری روحانی اور اخلاقی پستی کسی پسماندہ سماج سے کم نہیں۔ یہ ایک ایسا تضاد ہے جسے ہم روز محسوس کرتے ہیں مگر اس پر سنجیدگی سے غور کرنے سے گریزاں ہیں۔
اگر ہم آج کے معاشرے میں نظر دوڑائیں تو ایک واضح بے حسی کا رجحان سامنے آتا ہے۔ ایک وقت تھا جب محلے کے ہر فرد کو دوسرے کے حالات کا علم ہوتا تھا۔ کوئی بیمار ہوتا تو پورا محلہ تیمارداری کے لیے پہنچ جاتا، کسی کے گھر دکھ ہوتا تو سب شریکِ غم ہوتے۔ مگر اب صورتِ حال یہ ہے کہ پڑوسی کی موت کی خبر بھی سوشل میڈیا یا اخبار سے ملتی ہے۔
اس رویے کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں۔ اول تو زندگی کی رفتار اس قدر تیز ہو چکی ہے کہ انسان کے پاس دوسروں کے لیے وقت ہی نہیں بچا۔ صبح سے شام تک کی دوڑ میں وہ اس قدر مصروف ہے کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کی خیریت بھی محض رسمی پیغام رسانی تک محدود ہو چکی ہے۔ دوسرا بڑا سبب معاشی دباؤ ہے۔ بڑھتی مہنگائی، بے روزگاری، اور مستقبل کا عدم تحفظ انسان کو اس حد تک خود میں مقید کر دیتا ہے کہ وہ دوسروں کے مسائل سے لاتعلق ہو جاتا ہے۔
تیسری اہم وجہ میڈیا اور سوشل میڈیا کا کردار ہے، جس نے انسانی جذبات کو مصنوعی رنگ میں رنگ دیا ہے۔ اب انسان حقیقی ہمدردی کے بجائے ’’ری ایکشن‘‘ یا’’لائک‘‘ کے ذریعے اپنی فرض کفایت کرتا ہے۔ کسی حادثے، بیماری یا تکلیف پر حقیقی دعائیں دینے کے بجائے، ایک ایموجی یا مختصر تبصرہ کافی سمجھا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ انسان جذباتی طور پر مفلوج ہو چکا ہے۔
ایک اور پہلو جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، وہ نفسیاتی خالی پن ہے۔ انسان جب دوسروں کے لیے جیتا ہے، تو وہ اندر سے بھرپور ہوتا ہے۔ مگر جب وہ صرف اپنی ذات، اپنی کامیابی اور اپنی تسکین کو مرکز بنا لیتا ہے، تو وہ اندر سے تنہا اور کھوکھلا ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر میں ڈپریشن، تنہائی اور ذہنی بیماریوں کی شرح میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمارے آس پاس ہزاروں افراد بظاہر خوش و خرم نظر آتے ہیں، مگر ان کی آنکھوں میں درد چھپا ہوتا ہے، جسے کوئی دیکھنے والا نہیں۔
یہ رحم دلی ہی تھی جو ہمیں انسان بناتی تھی۔ جب ہم کسی اجنبی کی مدد کرتے، کسی مظلوم کے حق میں آواز بلند کرتے، کسی غریب کے لیے دستِ تعاون دراز کرتے، تو وہی عمل ہماری روح کو سکون دیتا۔ مگر جب سے ہم نے یہ عمل ترک کیے، ہم نے اپنا سکون بھی کھو دیا۔
اسلام، جو رحم و کرم کا دین ہے، اپنے پیروکاروں کو صرف عبادات کی پابندی کا درس نہیں دیتا، بلکہ دوسرے انسانوں کے ساتھ حسنِ سلوک، ہمدردی، اور مدد کو دین کا جزو لاینفک قرار دیتا ہے۔ نبی کریمؐ کی سیرت کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے ہمیشہ رحم دلی، معافی، اور خدمتِ خلق کو فوقیت دی۔ آپؐ نے فرمایا ،’’جو شخص لوگوں پر رحم نہیں کرتا، اللہ اُس پر رحم نہیں کرتا۔‘‘لیکن آج بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں دین کا تصور صرف رسومات تک محدود ہو چکا ہے۔ ہم نماز، روزہ اور ظاہری عبادات میں مصروف ہیں، مگر ہمارے دل خالی ہو چکے ہیں۔ نہ ہم میں برداشت رہی، نہ ہمدردی۔ ہم اخلاقیات کے اس درجے سے نیچے گر چکے ہیں جہاں دوسروں کے دکھ ہمیں متاثر کرنا تو دور، ہمیں بے زار کرتے ہیں۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ رجحان بدلے، تو ہمیں اپنی آئندہ نسلوں کی تربیت نئے سرے سے کرنی ہوگی۔ تعلیمی ادارے محض امتحان پاس کرانے کے مراکز نہ ہوں بلکہ کردار سازی، اخلاقی تربیت اور انسانی جذبات کو اجاگر کرنے والے مراکز بنیں۔ ہمیں بچوں کو صرف مقابلہ بازی سکھانے کے بجائے دوسروں کے ساتھ مل کر چلنا، خدمت کرنا اور سماج کی فلاح کے لیے جینا سکھانا ہوگا۔رحم دلی صرف ایک جذبہ نہیں بلکہ ایک طرزِ حیات ہے، جس کی بنیاد پر یہ وقت اپنے گریبان میں جھانکنے، توبہ و استغفار کرنے، اور اپنی انفرادی و اجتماعی روش پر غور کرنے کا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم صرف واقعات پر افسوس یا تنقید تک محدود نہ رہیں، بلکہ اصلاحِ نفس، اصلاحِ خاندان اور اصلاحِ معاشرہ کی سنجیدہ کوشش کریں۔ دین ِ اسلام نے ہمیں حیاء، انصاف، صدق، امانت، اور عدل و مساوات کے جو اصول عطا کیے ہیں، انہی کی طرف لوٹ کر ہی ہم اپنے کھوئے ہوئے وقار اور عظمت کو دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں۔ہمیں نئی نسل کو سکھانا ہوگا کہ انسانیت کا سب سے بڑا حسن یہی ہے کہ ہم کسی کے آنسو پونچھ سکیں، کسی کو گلے لگا سکیں، کسی کے سہارے بن سکیں۔
اگرچہ صورتِ حال پریشان کن ہے، مگر مکمل مایوسی کی گنجائش نہیں۔ اب بھی ہمارے معاشرے میں کئی ایسے افراد، ادارے اور گروہ موجود ہیں جو خاموشی سے انسانیت کی خدمت میں مصروف ہیں۔ جو یتیم بچوں کی کفالت کرتے ہیں، جو بے سہارا مریضوں کا علاج کراتے ہیں، جو نادار بچیوں کی شادیاں کرواتے ہیں۔ یہ وہ چراغ ہیں جن سے اندھیرے میں روشنی پھوٹتی ہے۔ہمیں ان کی روش پر چلنا ہوگا۔ ہمیں اپنے دل کو پھر سے زندہ کرنا ہوگا۔ ہمیں سیکھنا ہوگا کہ دوسرے کے لیے جینا دراصل اپنے لیے جینا ہے۔ ہمیں اپنے رویوں میں نرمی، اپنے دل میں وسعت، اور اپنی زندگی میں مقصد پیدا کرنا ہوگا۔
ہم اگر چاہتے ہیں کہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل پائے جہاں ہر شخص دوسرے کے درد کو محسوس کرے، تو ہمیں سب سے پہلے اپنی ذات میں تبدیلی لانا ہوگی۔ رحم دلی، ہمدردی اور دوسروں کے لیے جینے کا جذبہ ہمیں پھر سے انسان بنا سکتا ہے۔ ہمیں ظاہری کامیابیوں کی دوڑ سے نکل کر اندر کی کامیابی کی طرف رجوع کرنا ہوگا — ،وہ کامیابی جو کسی کے چہرے پر مسکراہٹ لانے سے ملتی ہے، جو کسی کے لیے دعا بننے سے حاصل ہوتی ہے۔ہمیں دوبارہ سیکھنا ہوگا کہ دل رکھنے سے دل ملتے ہیںاور آنسو پونچھنے سے روحوں کا رشتہ جڑتا ہے۔
(مضمون نگار پلوامہ سے تعلق رکھتے ہیں اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بین الاقوامی سیاست میں ماسٹرز کر چکے ہیں)
[email protected]