! ہم اپنے پنڈت اساتذہ کو بھول نہیں سکتے یادیں

ڈاکٹرعبدالوحید بٹ

کشمیر میں ساٹھ یا ستر کی دہائی میں پیدا ہونے والے تمام طلباء کو کسی نہ کسی پنڈت استاد نے ضرور پڑھایا ہوگا۔ چنانچہ میرا جنم بھی اسی زمانے میں ہوا ہے اس لیے میں نے بھی ان پنڈت اساتذہ سے تعلیم حاصل کی ہے۔ میں ان پنڈت اساتذہ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے تعلیمی کیریئر کے دوران ہمیں سکولوں اور کالجوں میں مختلف کلاسوں میں پڑھایا۔ احترام کی علامت کے طور پر، میں یہاں ان کے ناموں کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ پرائمری اسکول میں ہمیں جواہر لال اور روشن لال نے پڑھایا ہے۔ یہ سکول اپنی ہی بستی واقعہ تھا۔ جواہر لال اور روشن لال ہفتے میں ایک یا دو بار ہمیں دریا پر لے جاتے تھے اور جہلم کے پانی میں صابن سے نہاتے تھے۔ ان دنوں دیہی علاقوں میں بہت کم گھروں میں باتھ روم دستیاب ہوتے تھے۔ یہ بنیادی سہولت عام لوگوں کو میسر نہیں تھی۔ لوگوں کی اکثریت صبح سویرے نہانے یا وضو بنانے کے لیے کسی مسجد، چشمے یا ندی نالے پر جاتی تھی۔ دونوں اساتذہ روزانہ ہمارے ناخنوں کا بھی معائنہ کرتے تھے۔ یہ ہمارے لیے حفظان صحت کے حوالے سے ابتدائی تربیت کے دن تھے۔ جواہر لال فٹ بال کے بہترین کھلاڑی تھے۔ اس کی گول کرنے کی ہنر اور کارنر شاٹس کھیلنے کے انداز آج تک ہماری یادوں میں زندہ ہیں۔ وہ گیند کو آسمان میں کافی اونچائی تک اچھالتے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر طالب علم حیران ہوتے تھے۔ ہائی اسکول ہمارے گاوں سے چند میل دور تھا۔ اس سکول کے تدریسی عملے میں جو پنڈت اساتذہ ہمیں پڑھاتے تھے ان میں ترلوکی ناتھ، رمیش جی، چمن جی، سادھو صاب، لوک جی، بال کرشن تکو، سرلا جی اور ببلی جی تھی ۔ترلوکی ناتھ ہیڈ ماسٹر تھے۔ ان کی صبح کی نشست کی نصیحت آموز باتیں آج تک یاد ہیں۔ ان کے بعد رمیش کمار کا ذکر کرنا مناسب ہوگا۔ وہ ایک سخت گیر اور نظم و ضبط کے پابند استاد تھے ۔ وہ فارم ماسٹر بھی تھے ۔ اس کی چھڑی سارے علاقے میں مشہور تھی۔ اس کی ایک دفعہ کی سزا طالب علم کو صحیح راستے پر لانے کے لیے کافی ہوتی تھی۔ ایک اور استاد چمن جی تھے۔ وہ انگریزی پڑھاتے تھے۔ وہ اس زبان میں ہمارے ابتدائی استاد تھے۔ اس زمانے میں انگلش میڈیم چھٹی جماعت سے شروع ہوتی تھی۔ ہمیں آج بھی کچھ انگریزی الفاظ یاد ہیں جو انہوں نے ہمیں سکھائے ہیں۔ جہاں تک سادھو صاحب کا تعلق ہے ، یہ سمجھنا مشکل تھا کہ وہ بٹہ تھے یا مسلمان۔ وہ بہت آزاد خیال تھے ۔ لوک ناتھ یا لوک جی ہمیشہ خوش لباس ہوتے تھے۔ اس کے پاس موٹر سائیکل تھی۔ وہ اسی موٹر سائیکل پر سکول آتے تھے۔ وہ ہر روز کسی نہ کسی طالب علم کو بایک پر لاتے تھے، جن میں اکثریت چھٹی یا ساتویں جماعت میں زیر تعلیم لڑکیوں کی ہوتی تھی۔ ان دنوں سکولوں میں لڑکیاں بہت کم ہوتی تھیں۔ لڑکیوں کے لیے اس کی بایک بڑی راحت تھی کیونکہ سکول ہمارے گھر سے چار سے پانچ کلومیٹر دور تھا اور ساری مسافت روزانہ پیدل طے کرنی پڑتی تھی ۔ بال کرشن کھیل کھود سکھاتے تھے۔ اسکول میں ہمارے پاس کھیلنے کے لیے کوئی بڑا میدان نہیں تھا۔ سکول میں دستیاب صحن میں عام طور پر والی بال کھیلا جاتا تھا۔ سونا واری کے چند اساتذہ بھی تدریسی عملے میں شامل تھے۔ ان میں حاجن کے خال صاحب اور لون صاحب والی بال کے دلدادہ کھلاڑی تھے۔ ہمیشہ دو ٹیم ترتیب دیئے جاتے تھے اور میچ شروع ہوتا تھا۔ بال جی جب بھی کٹ مارتے تو اونچی آواز میں `یا علی‘ کہتے تھے ۔ سرلا جی ہندی پڑھاتی تھیں۔ آج ہم جو بھی تھوڑی بہت ہندی پڑھ یا لکھ سکتے ہیں، وہ صرف ان کی کاوشوں کی وجہ سے ہے۔ ہائر سیکنڈری میں ہمیں گوپی کرشن اور کول صاب ملے۔ گوپی کرشن تاریخ کے لیکچرر تھے اور کول صاحب انگریزی کے استاد تھے۔ گوپی کرشن ایک انسائیکلوپیڈیا تھے۔ وہ ہائر سیکنڈری سطح پر تاریخ پڑھاتے تھے۔ ہمیشہ سائیکل پر آتے تھے۔ کول صاحب نے انگریزی پڑھائی ہے۔ ہم کرن نگر میں ان سے ٹیوشن لیتے تھے۔ ایک دن پیسے نہ ہونے کی وجہ سے ایک طالب علم نے ٹیوشن بند کر دی۔ جب کول صاب کو اس کا پتہ چلا تو انہوں نے کہا کہ طالب علم کو واپس لے آو۔ میں کوئی پیسے نہیں لوں گا۔ بہت عرصے بعد، غالباً سنہ دو ہزار پانچ میں میں نے تولہ مولا میں کھربوانی کے میلے پر کول صاحب کو دیکھا۔ ایک طویل عرصے کے بعد اپنے استاد کے ساتھ ملاقات نصیب ہوئی۔ خدا ان سب اساتذہ صاحبان کو اپنی رحمت سے نوازے۔ وہ جہاں بھی ہوں انہیں خوش رکھے۔ کشمیر میں تعلیم کو عام کرنے میں ان کی کارکردگی کو ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ انہوں نے وادی کے شہر و دیہات میں طلباء کی ایک کثیر کی کو پڑھایا ہےاور علم کے نور سے روشن کیا ہے۔
(مضمون نگار گورنمنٹ ڈگری کالج خانصاحب میں تاریخ کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
[email protected]