ہم تو اس وقت اسکول میں تھے اور استاد محترم کے چابک کھاتے اٹھک بیٹھک کرتے جب سرکاری و نیم سرکاری ملازمین نعرے لگاتے :اندرا تیرے سماج واد میں بچے بھوکے مرتے ہیں۔ان دنوں سماج واد ہم نہیں سمجھتے تھے اور نہ ہی یہ کہ کون سا واد ہے جس کے جملہ حقوق وزیر اعظم کے نام محفوظ ہیں اور جس کے سبب بچے بھوکے مرتے ہیں ۔ہم تو کبھی یہ سوچتے، ہو نہ ہو سماج واد کوئی چیچک ہیضہ جیسی بیماری ہے کہ ادھر لگی اور ادھر مر گئے۔ان دنوںالبتہ پھاٹہ وَن واد سنا تھا جو کشمیری گھروں میں نجی سطح پر عام تھامگر اپنے ملک کشمیر میں کچھ ہفتوں سے سیاسی پھاٹہ ون واد زوروں پر ہے اور اس کے چلتے ایک تو قلم کنول سرکار گئی ۔ قطبین کا ملاپ بکھر گیا، مرد مومن کے خواب ادھورے رہے ،کنول برداروں کا کشمیر سے کنیا کماری تک ایک نشان میں جھول آگیا۔کیا پتہ نرمل کا کومل دل ٹوٹا ، حسیب نے معاشی چھوڑ سیاسی حساب لیا ، حق نے حق بجانب نعرہ لگایا اور دونوں کی ڈگمگاتی کرسی جوڑ چھوڑ کر بکھر گئی۔پھر کیا تھا سرکار کے دوران دائیں بائیں گھومتے چیلے چانٹے گئے ، سرکار کے سبب جڑے چمچہ بردار گئے، کرسی کو دیکھ کر فیویکول کی مانند چپک جانے والے دوست رشتہ دار گئے ، صاحبان اقتدار کے ناز بردار گئے۔ایک کے بعد ایک بیک ڈور سے زبردستی گھسے سیاسی منصب دار گئے۔ حالانکہ افواہ ہے نو سے چودہ تک اسکور ہے لیکن آخری خبریں آنے تک ایک ایک کرکے چار سیاسی ساہوکار گئے ؎
ہم اسکے ساتھ ہیں کہ تخت جس کے ساتھ ہے
لیکن خبر نہیں کہ تخت کس کے ساتھ ہے
سیاسی کھیل نے اچانک کرکٹ کا روپ دھار لیا ۔جیسے کسی تیز وکٹ پر بلا گھمائے بغیر کھلاڑی کسی اور کی جھولی میں اپنا مستقبل سنوار گئے۔مفتی خانوادے پر ایسا نشانہ سادھ گئے کہ کوئی فتویٰ کوئی تعویذ کام نہ آئے ۔مریدوں کے بغیر بھلا پیر ان ِ بجبہاڑہ کا کیا تُک یعنی اب تو کل کے منصب دار ایسی حالت میں آ گئے جیسے دفعہ ۳۷۰ ہوں کہ چیتھڑے اُڑے ہیں اور کوئی نام لیوا نہیں ؎
میری منزلوں سے کہہ دو میرا انتظار کرلیں
کہ بھٹک گئے ہیں رستے زرا دیر تو لگے گی
ادھر اب الزام تراشی جاری ہے کہ قلم دوات پارٹی کی لیڈرشپ میں ماما بھانجی واد چل رہا ہے جس نے بہن بھائی واد کی شکل اختیار کی اور پھر کچن کیبنٹ پر منیج ہوگیا۔اشارہ یہ ہے کہ باپ بیٹی واد سے شروع ہوکر بہن بھائی واد سونگھ گیا۔ ویسے اس الزام میں مزہ بھی ہے کہ الزام تراشی کرنے والے خود بھائی بھتیجا واد کے شکار ہیں یعنی چھاج بولے تو چھاج چھلنی بھی بولی۔ویسے کسے نہیں معلوم کہ اپنے یہاں باپ بیٹا واد کب سے چل رہا ہے جو اب دادا پوتا واد تک پہنچ گیا۔اسی لئے اپنے یہاں پوتے اور بیٹی دادا اور والد کے آشیرواد سے کرسی پکڑ لیتے ہیں،اقتدار جکڑ لیتے ہیں اور اہل کشمیر بے چارے چھوٹی سی جگہ میں سکڑ جاتے ہیں کہ انہیں پھلنے پھولنے کی جگہ نہیں ملتی ۔ملے گی کیسے ایک طرف تو افسپا کا آتنک واد جاری ہے ، دوسری طرف پبلک سیفٹی ایکٹ کی سرداری ہے ، پھر کہیں گئو ماتا کے نام پر بھکتوں کے تانڈو والی بیماری ہے، وردی پوشوں کا ضرب کاری ہے ، کہیں سیاست کا مداری ہے، کچھ بچا توآئے دن ہڑتال بلانے والوں کا اعلان جاری ہے۔ الغرض چار سُوآہ و زاری ہے۔البتہ اس سیاسی واد کاشکار تو خود سیاست دان بھی ہو رہے ہیں ۔کہیں ہل والا نائب سالار تو کہیں قلم والا ستار وگے اسمبلی توڑنے کے فراق میں سوکھے جارہے ہیں کہ کہیں سیاسی اتھل پتھل میں سب لوگ کنول کھلانے کے چکر میں نہ پڑ جائیں ۔کنول برداروں کے پاس تو زر ، زمین سب کچھ ہے ۔پیسہ دے کر پانی کی بالٹی سب کے ہاتھ تھما دیں کہ کنول کی آبیاری کرو یعنی چڑھ جا بیٹا سولی رام بھلی کرے گا اور اہل کشمیر تو کب سے کہتے آئے ہیں : اے زر یہِ خوش چھیہ تہِ کر ( دولت جو چاہے سو انجام دے )۔
اور جب زر کے ساتھ کرسی بھی ہو تو Deadly combination بن جائے۔شاید اسی کو بھانپ کر ہل، قلم ہاتھ والے گھبرائے سہمے سے ہیں کہ ان پر بھی ہاتھ صاف نہ ہو۔ ا سی لئے کہ درگھٹنا سے دیر بھلی ، بھائی لوگوا سمبلی کو توڑ دوبلکہ مروڑ دو یا پھوڑ ہی دو ۔ایسا نہ ہوا تو کل کے کسمپرسی کے شکار ، بے یار و مدد گار ممبران اچانک وزیر با تقصیر بن بیٹھیں۔ان کا نعرہ مستانہ الگ سے ہے ؎
پھر بھی ہم سے ہے گلہ کہ وفا دار نہیں
کون کہتا ہے کہ ہم لائق سرکار نہیں
ایسا ہوا تو اہل کشمیر پھر سے نانوائی کے تندور اور نائی کی دوکان پر بیٹھ کر سیاسی تُرم خان بن جائیں گے ۔پھر نیشنل کا ٹویٹر ٹائگر اور قلم والی بانوئے کشمیر ٹویٹر کی چڑیا اُڑاتے رہیں اور غلام کشمیر کا آزاد ساتھیوں سمیت پارٹی کا ہاتھ ملتے رہ جائیں ۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ کل تک پنکھا جھلنے والے لوگ آج حساب مانگ رہے ہیں۔تین سال میں ہتھیانے والی زمین جائیداد کا شجرہ و خسرہ تلاش رہے ہیں۔بڑھیا بے نظیر بنک میں پچھلے دروازے سے داخل شدہ افراد کا آدھار کارڈ مانگتے ہیں ۔سماجی بہبود میں فلاح و بہبود پانے والوں کی نبض ٹٹول رہے ہیں۔دیہات سدھار میں کن کن لوگوں کا سدھار ہوا ان کا شلوار مانگ رہے ہیں کہ قلم جو اب بس ناڑا ڈالنے کے لائق ہی رہا ،اس سے ان کا اِزار بند ناپ لیں۔اس پر طرہ یہ کہ دیکھا دیکھی میں نیشنل کا طفل مکتب بھی میدان عمل میں کود پڑا کہ سارے بیک ڈور کی تحقیقات کرائی جائے۔ہم تو کب سے تحقیقات کی مانگ کر رہے ہیں ۔ الہ کرے گا وانگن کرے گا کی تحقیقات،یی ببس خوش کر تی کر لولو کی تحقیقات،طفیل متو کی جان کی تحقیقات، ۲۰۱۰ میں ایک سو بیس کی، کرکٹ کشمیر کی جائیداد اور بی سی سی آئی سے آئے کروڑوں فنڈس کی تحقیقات،پر اپنی تو کوئی سنتا نہیں ۔سنے گا کون ہم تو عام خام ہیں یعنی ہم کس کھیت کی مولی ہیں ؟؟
ابھی سیاسی طوفان طلاطم خیز موجیں مار رہا تھا کہ پانی کے ریلے شہر شہر گائوں گائوں کو چھو کر گئے۔شکر کرو کہ سیاسی ارباب اقتدار حال حال ہی بے حال ہوگئے تھے، اس لئے سیلابی ریلے کے دوران ان کو بنڈوں کی حفاظت کرتے نہیں دیکھنا پڑا کہ ان کے ہی دم سے پانی میں پھنسے لوگ باہر بحفاظت نکل آتے ہیں ۔یقین نہ آئے تو یاد کیجئے کہ اپنے یہاں کبھی کسی مذہبی تقریب کے سلسلے میں انتظامات کا پٹارا کھولا جاتا ہے۔اگرچہ کسی ایک سرشتے کو یہ انتظامات کرنے ہوتے ہیں لیکن ان انتظامات کا جائزہ اور ان کی روداد مع تصاویر ٹی وی پر دیکھنے کو ملتی ہیں۔فلاں منسٹر، فلاں بیروکریٹ، فلاں پولیس افسر ٹی وی پر یا تو میٹنگ کرتے دکھتے ہیں یا کبھی کبھار اس جگہ کا دورہ بھی کرتے ہیں۔آرام دہ کرسی پر میٹنگ کرکے سیلاب روکتے ہیں ، بھونچال کو آنے نہیں دیتے، تیز رو ہوائوں کا رخ بدل دیتے ہیں یعنی ایک سرشتے کے کام کو دیکھنے پرکھنے آدھ درجن دوسرے سرشتے پہنچ جاتے ہیں،کیونکہ اپنے ملک کشمیر میں بارہ قلی تیرہ میٹ والا معاملہ سالہا سال سے چلتا آرہا ہے پھر انتظامات کو آخری شکل ملتی ہے اور تب کہیں پہچانا جاتا ہے جب ارباب اقتدار اسے گود لیتے ہیں۔جبھی تو سرکاری ٹی وی پر ، اخباری بیانات میں کافی تذکرہ ہوتا ہے۔خیر یہ تو ایک تصویر ہے کشمیر کے سیلاب کی جو ۲۰۱۴ میں سر سے اوپر گیا اور ابھی تک اُترنے کا نام نہیں لیتا کہ اسے دریائے جہلم وغیرہ میں کھدائی کرکے ٹھہرائو کی جگہ چار سال میں نہیں ملی۔پھر ہونا کیا تھا اپنے ارباب اقتدار نے وہی کیا کہ سیلاب کے ریلے کے سامنے(بقول اہل کشمیر یہ پِس ڈَکھ شُپ) چھاج رکھ دیا ۔
بھلا انہیں کیا معلوم کہ اب کی بار مودی سرکار اہل کشمیر کو جل بن مچھلی چھوڑ کر فٹ بال ورلڈ کپ دیکھنے میں مصروف ہو گئے۔اس لئے نہیں انہیں میسی اور رونالڈو کی کھیل جادوگری میں کوئی دلچسپی ہے بلکہ سنا ہے کہ اس گیم میں کچھ ایسے بھی ممالک شامل حال ہیں جن کا نام مودی مہاراج پہلے نہیں سنے تھے۔پھر کیا تھا فٹ بال کی طرف دھیان دئے بغیر اس نے نئی لسٹ بنائی کہ بولیویا ، کورشیا، نائجیریا وغیرہ کی سیر نہیں کی گئی تھی ۔ہو نہ ہو ۲۰۱۹ الیکشن سے پہلے ان ممالک کا بھی دورہ ممکن بنے ۔بھلا ابھی تک کے دوروں پر تین سو پچپن کروڑ خرچے میں کچھ کروڑ اور جمع ہوں تاکہ ان ممالک میں بھی بھارت ورش کا نام روشن ہو ۔اتنا ہی یوگا سی ڈی بھی جاری کردی کہ بھلے ملک فٹ رہے نہ رہے یا معاشی طور ملک یوگا کرتے کرتے لڑھک ہی جائے پر صاحبان اقتدار فٹ رہیں ۔اسی لئے تو یوگا سی ڈی پر بیس لاکھ خرچ کئے گئے۔ یہ الیکشن کا بگل بھی دکھاتا ہے رنگ کیسے کیسے کہ جن دلتوں کو آئے دن مار پیٹ، زدو کوب کے دور سے گزرنا پڑتا ہے، ان کی خوش آمدید یا خوشامد میں بھاجپا مصروف ہے ۔سنا ہے کنول برداروں کو مودی مودی نعرے میں کشش کم دِکھتی ہے اسی لئے آج کل یہ لوگ کبیر کبیر گاتے ہیں ؎
آ امت شاہ مل کے کریں آہ و زاریاں
تو رام مندر پکار میں چِلائوںدلت قوم
چلتے چلتے یہ دلچسپ خبر کہ گوا میں پیداوار بڑھانے کی سرکاری اسکیم شیوگ کا سمک فارمنگ متعارف کی جارہی ہے ۔ کسانوں کو ہدایت کہ کھیتوں میں بیٹھو اور منتر گائو۔ہو نہ ہو بھاجپا پولنگ بوتھوں کے سامنے بھی یہی طریقہ اختیار کرلے کہ ووٹنگ مشین میں کنول کنول کی پیداوار بڑھ جائے!
……………….
(رابط[email protected]/9419009169 )